تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-08-2018

دوسرا آدمی

ہر نفس کی ذات میں ایک دوسرا آدمی چھپا ہوتا ہے۔ کسی اور سے اس دوسرے آدمی کا واسطہ نہ پڑے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہاں دوسرا آدمی موجود نہیں۔ 
لکھنا سکول کے زمانے سے شروع کیا۔ نثر، نظم ، نعت ، ہِجو، مضمون میں بچگانہ طبع آزمائی کی۔ اسلام آباد کالج سٹوڈنٹس یونین کا صدر بننے کے بعد پروفائل بنی تو تحریریں اخبارات میں چھپنا شروع ہو گئیں۔ جس کا سب سے بڑا ریوارڈ اور عیاشی تھی تحریر کے ساتھ پاسپورٹ سائز بلیک اینڈ وائٹ تصویر کی اشاعت۔ 1970ء کے عشرے کے آخر میں کنگ سعود یونیورسٹی میں سکالرشپ مِل گیا‘ جہاں سے جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور کی ترغیب و ہدایت پر روزنامہ نوائے وقت کے لیے مکتوب تواتر سے لکھنے شروع کر دئیے۔ اور 1980ء کے پہلے دو سال ایسے ہی چلتا رہا۔ پھر قومی روزنامے میں کالم کا آغاز کیا۔ جیسے سب کے ساتھ ہوتا رہا‘ میرے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا۔ میری قلم کاری پر ایڈیٹوریل کی قلم زدگی جم کر برسنے لگی۔ اسی دوران میں نے وکالت نامہ لکھنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جناب ارشاد احمد حقانی سے نشست ہوئی۔ کہنے لگے: کالم نگاری میں تمہارا اپنا علیحدہ سے ''کاٹ اور فلیور‘‘ ہے۔ کسی بڑے اخبار میں لکھنے کی گنجائش نہ ملے تو ماہنامہ ''چارپائی‘‘ میں لکھنا شروع کر دو۔ تمہارے ریڈر تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔ یہ سال 1982ء تھا‘ جب میں اور یاسمین جیون ساتھی بن گئے۔ جنابِ مجید نظامی نے اسلام آباد سے لاہور گھر پر دعوت دی اور پھر وکالت نامہ نوائے وقت میں شفٹ ہوا۔ قصہ مختصر، وہاں سے ایک بار پھر پہلے والے قومی روزنامے میں‘ کچھ عرصہ ایکسپریس اور پھر ''دنیا‘‘ کے اجرا پر تھوڑے عرصے بعد وکالت نامہ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گیا‘ جس کی وجہ کالم کاری کا آزاد ماحول اور نئے زمانے کے ٹولز ہیں۔ انہی ٹولز کی وجہ سے میرے بیٹے عبداللہ نے اردو ٹائپنگ سیکھ لی‘ اور وکالت نامے میں پارٹنر بن گئے۔
جن دنوں ہم باپ بیٹوں کے درمیان سیاسی مکالمے شروع ہوئے میرے بیٹوں کو شاعری سے بھی شغف ہوتا گیا۔ لا فانی اقبال اور جناب حسن نثار کی نعت شریف۔ مجھے ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ کر لکھنے سے آزادی ملتی گئی۔ سمارٹ فون تیرا شکریہ۔ اسلام آباد سے لاہور آتے یا کہوٹہ سے سپریم کورٹ پہنچتے ہوئے ارتکاز اور کھلی فِضا لکھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ 
لاہور کے ذکر سے مجھے برادرم میاں عامر صاحب کے اندر کا دوسرا آدمی یاد آ گیا۔ ویسے بھی نئی پارلیمانی ذمہ داریوں کے عرصے میں قلم عبداللہ کے حوالے ہو جائے گا۔ لہٰذا میرے قلبی تاثرات خوشامد کے زمرے میں نہیں آئیں گے ۔ تقریباً 5 سال پہلے میں شام ڈھلے لاہور پہنچا ۔ ہوٹل کے کمرے سے برادرم میاں عامر صاحب کو فون کیا۔ بتایا: لاہور میں ہوں ۔ کہنے لگے: شام کا کھانا میرے ساتھ گھر پہ کھائیں۔ ڈنر پر لمبی نشست رہی۔ اس دوران مجھے (vertigo) کا اٹیک ہو گیا۔ یہ میرا پہلا سنگین تجربہ تھا‘ جب جسم نے ایک سائیڈ کا باڈی ویٹ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ عامر صاحب نے کسی ملازم کو بلانے کی بجائے فوراً خود مجھے اپنی گاڑی میں ڈالا اور انتہائی تیز رفتاری سے ڈاکٹرز ہسپتال لے گئے‘ جہاں سٹریچر پر ڈال کر مجھے آئی سی یو تک پہنچایا گیا۔ ڈاکٹرز نے تشخیص کے لیے ٹیسٹ شروع کئے۔ یہ رات 10 بجے کے قریب کا وقت ہو گا ۔ مختلف لیب، کمروں میں ٹیسٹ کے لیے لے جایا گیا ۔ ہر جگہ عامر صاحب میرے پہنچنے سے پہلے بیٹھے ہوئے ملے ۔ صبح ساڑھے 4 بجے ٹیسٹ مکمل ہوئے اور ڈاکٹرز نے ابتدائی تشخیص کی ۔ جس کے بعد عامر صاحب مجھے حوصلہ اور دعا دے کر پھر ہسپتال سے نکلے۔ تیسرے دن میں جیپ میں لیٹ کر واپس اسلام آباد گھر پہنچا۔ ایک واقعہ اور بھی ہے۔ جس میں مختلف نوعیت کا خطرۂ جان تھا ۔ وہاں مجھ پر عامر صاحب نے دوسرا احسان کر ڈالا۔
محسنِ انسانیت رسولِ خداﷺ کے دربار میں ایک صحابی نے عرض کیا: یہ شخص جو ہمارے قریب سے گزرا ہے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ 
سرکارِ دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: اُٹھو دوڑو اُسے جا کر یہ بتا دو ۔ کاش ہم وہ باتیں جو ایک دوسرے میں اچھی لگتی ہیں سب جگہ بتانا شروع کر سکیں۔ جو ہماری طبیعت ، مرضی یا خیالات سے متصادم ہے۔ ایسے ہر پہلو کو ذاتی زندگی اور پبلک ڈیلنگ کی آخری ترجیح سے بھی نیچے لے جائیں۔ تحدیثِ نعمت اسی کو کہتے ہیں۔ اسی بابت خاتم المرسلینﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ''جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی نا شکرا ہے۔‘‘ 
برادرم عامر صاحب کا شکریہ۔ اور اُن سب احباب کا بھی جو میرے خیالات کروڑوں لوگوں تک پہنچانے کا باعث بنے۔ میرے اور دُنیا اخبار کے ''اَن سَنگ‘‘ ہیرو۔
اگلے روز صدر ہائوس میں وزیرِ اعظم عمران خان کے حلف اُٹھانے کا اکٹھ تھا۔ جہاں عامر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے وہاں بھی انہیں محسن کہہ کر پکارا۔ تقریب سے واپس آتے ہوئے صدر ہائوس کی لفٹ نمبر ایک اچانک بند ہو گئی۔ زور کا جھٹکا لگا۔ میرے ساتھ لفٹ میں سواریوں میں نیپال کی خاتون سفیر، ازبکستان کے سفیر، اردن کے ایمبیسیڈر۔ فوجی فرٹیلائزر کے یکے از ڈائریکٹرز، ایک خاتون اور دو مرد حضرات یورپی سفارت کار اور تھائی لینڈ کے سفیر بھی شامل تھے۔ پہلے 5 منٹ ہنسی مذاق میں گزر گئے۔ پھر لفٹ آپریٹر نے گھبرا کر اونچا اونچا بولنا شروع کر دیا۔ اردن کے سفیر جو غالباً عارضۂ قلب کے مریض تھے‘ اختلاج کی زد میں آ گئے۔ ان کا کوٹ، ٹائی اتاری پھر قمیض کے بٹن کھول کر ان کی پشت پر دعوتی کارڈ سے پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ اس دوران سفیر اردن سے عربی میں گفتگو شروع ہو گئی۔ ذرا سا سنبھلنے پر اپنا نام صرف ''مان‘‘ بتایا۔ شاید یہ ان کا قبیلہ ہو۔ 10/12 منٹ بعد اندھیری لفٹ میں پھنسے مسافروں میں مایوسی والی جُملے بازی دیکھ کر میں آگے بڑھا۔ انٹرکام لفٹ آپریٹر کے ہاتھ سے پکڑا۔ دوسری طرف سے ٹالنے والی ترکیب سے کہا گیا: مشین روم سے لڑکے آ رہے ہیں۔ میں نے دو لوگوں کو کہا: لفٹ کا دروازہ بجائو۔ خود بھی ایک ہاتھ سے لفٹ ڈور کو پیٹتا رہا۔ دوسرے سے انٹرکام پر بتایا کہ میں کون ہوں۔ ساتھ کہا: نام بتائو کون بول رہا ہے‘ اندر ایک سفیر دل کے مریض ہیں‘ اگر کچھ ہوا تو تم ذمہ دار ہو گے۔ اس نے ٹھک سے انٹرکام بند کر دیا۔ میں نے لفٹ میں پھنسے مسافروں کو بتایا: وہ پہنچ گئے ہیں‘ لفٹ ٹھیک ہونے والی ہے۔ مگر بے یقینی کی وجہ سے سب خاموش رہے۔ میں نے اونچی آواز میں دعا پڑھنی شروع کر دی۔ اردن کے سفیر صاحب کو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ ازبک سفیر بھی روانی سے عربی بولتے ہیں۔ میں نے ہر جملے کا ترجمہ انگریزی میں ساتھ ساتھ کیا۔ پاک ہے وہ ذات۔
دعا یہ تھی۔ ''جس اللہ کے نام سے، کوئی شے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ زمین میں اور نہ ہی آسمان پر۔ وہ سب کی سُنتا ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
یہ دعا میں نے جہاز کے ہر سفر کا ورد بنایا ہوا ہے۔ تقریباً 21ویں منٹ میں لفٹ گرائونڈ فلور پر آ گئی۔ سب نے باری باری میرا نمبر لیا۔ 4 ایمبیسیڈر حضرات نے اچانک ملاقات اور دعا کا تذکرہ کر کے واٹس ایپ کے ذریعے ملنے کی دعوت دی ہے۔
مجھے یوں لگا‘ آج پھر دوسرا آدمی ہمارے ساتھ تھا۔ جو صرف اپنے لیے نہیں جی رہا۔ جسے دوسروں کا درد اپنا الم۔ دوسروں کی تکلیف اپنی ٹِیس بن کر اندھیرے سے روشنی میں پہنچا دیتی ہے۔
دنیا اخبار کے ساتھ روشنی کے اس سفر میں وقفہ آ گیا ہے۔ لیکن ادارتی صفحے کی حد تک۔ میں جوگی نہیں‘ نہ رہبانیت کو مانتا ہوں۔ دنیا دار آدمی ہوں میرا دنیا سے کون رشتہ توڑ سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved