تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-08-2018

سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری

وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے بھی پی ٹی آئی نے
ہارس ٹریڈنگ کا اہتمام کر رکھا تھا: رانا ثناء
مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے بھی پی ٹی آئی نے ہارس ٹریڈنگ کا اہتمام کر رکھا تھا‘‘ اور اگر ہمیں اس کا اندازہ ہوتا‘ تو ہم چھانگا مانگا میں اسے متعارف ہی نہ کراتے کہ الٹا یہ ہمارے ہی خلاف استعمال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خلائی مخلوق کے ذریعے حکومت کی تبدیلی میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘ اور یہاں بھی ہماری نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ راستہ انہیں ہم نے ہی دکھایا ہے اور جسے بہلا پھسلا کر انہوں نے اپنی طرف کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ضمیر کی خرید و فروخت سے حکومت جمہوری نہیں ہو سکتی‘‘ حالانکہ ہم نے اپنے دور میں ضمیر کا نام و نشان ہی مٹا دیا تھا‘ حیرت ہے کہ یہ ضمیر انہوں نے کہاں سے خرید لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کے عوام اس وقت مشکلات کا شکار ہیں‘‘ جہاں سے انہیں نکالنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ مشکلات ہماری ہی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دھاندلی کی تحقیقات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''دھاندلی کی تحقیقات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘کیونکہ ہم اپنے دور میں اتنے سمجھوتے کر چکے ہیں کہ سمجھوتے بھی ہم سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس لیے اب مزید کسی سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ لیکن یہ عادت چونکہ بہت پختہ ہو چکی ہے‘ اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کوئی سمجھوتہ کرنا پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی قیمت پر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے‘‘ تاہم کئی کام ایسے بھی ہیں ‘جو اپنی طبع اور ارادے کے بغیر یا برعکس بھی کرنا پڑتے ہیں‘ لیکن اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں اور ہم صرف یہی کریں گے کہ حتیٰ الامکان حکومت کو چلنے نہ دیں اور جمہوریت بھی چلتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اب ملک میں مینڈیٹ تبدیل ہونے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے‘‘ کیونکہ گزشتہ تیس سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آپ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
زرداری بتائیں کیا مجبوری ہے‘ جو ہمیں ووٹ نہیں دیتے: مجتبیٰ شجاع
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی مجتبیٰ شجاع نے کہا ہے کہ زرداری بتائیں انہیں کیا مجبوری ہے‘ جو ہمیں ووٹ نہیں دیتے‘‘ میاں شہباز شریف نے انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان تو کیا تھا‘ لیکن ہماری بنائی ہوئی سڑکیں اتنی ہموار اور ملائم ہیں کہ ان پر گھسیٹے جانے سے کوئی زخم وغیرہ نہیں آتا اور وہ خواہ مخواہ اب تک ہم سے ناراض ہیں اور جہاں پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا پیسہ نکالنے کا تعلق ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی کے نتیجے میں تھا‘ کیونکہ پیٹ میں اتنا پیسہ رکھا بھی کیسے جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
پرویز الٰہی جعلی مینڈیٹ سے سپیکر منتخب ہوئے: سمیع اللہ خان
مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی سمیع اللہ خان نے کہا ہے کہ ''پرویز الٰہی جعلی مینڈیٹ سے سپیکر منتخب ہوئے‘‘ اس کا تو ہمیں کوئی افسوس نہیں‘ لیکن ہمارے دس بارہ آدمی توڑ کر انہوں نے پوری جعلسازی کا ثبوت دیا؛ اگرچہ وہ ایسا نہ بھی کرتے تو‘ انہوں نے سپیکر بن ہی جانا تھا تو انہیں ہماری صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی‘ جو پہلے ہی بہت کمزور ہیں اور آہستہ آہستہ تتر بتر ہوتی رہیں گی‘ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ صرف نواز شریف ہی نہیں‘ پوری پارٹی اللہ کی پکڑ میں آئی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیشن نہ بنایا گیا‘ تو ایوان نہیں چلنے دیں گے‘‘ اگرچہ کمیشن سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوگا‘ لیکن دھاندلی کے علاوہ ہمارے پاس کچھ کہنے کو ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا‘‘ حالانکہ یہ کام دن کی روشنی میں بھی آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا تھا ‘کیونکہ ایک مستقل قیدی کی جماعت اور کہاں تک چل سکتی ہے۔ آپ اگلے روز فیروزوالہ میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری:
دنیا تیرے مطلب کی ہے تُو دنیا کے مطلب کا
اور دونوں کے پاس نہیں ہے کچھ بھی میرے مطلب کا
اصلی بات پہ کیا پھل آتا ہاہاکار کے موسم میں
سب نے باغ لگا رکھا ہے اپنے اپنے مطلب کا
رشتوں کی تعمیر میں کوئی در تو رکھنا پڑتا ہے
چھوٹی چھوٹی امیدوں کا‘ ہلکے پھلکے مطلب کا(حمیدہ شاہین)
بچھڑ رہے ہیں مگر غم کہاں زیادہ ہے
کہ اب کے آگ تو کم ہے دھواں زیادہ ہے
کہیں بھی کیا کہ تمہارے پلٹ کے آنے کا
ہمیں یقین تو کم ہے‘ گماں زیادہ ہے
ہمارے حصے میں آئی زمین ہے کچھ کم
ہمارے سر پہ مگر آسماں زیادہ ہے
یہ عشق چیز عجب ہے کہ اس کو کیا کہیے
وہیں پہ تھوڑا سا کم ہے جہاں زیادہ ہے
نہ جانے کیا ہے خدا خیر‘ کچھ دنوں سے ضیاؔ
ہمارے شہر میں امن و اماں زیادہ ہے (ضیاء ضمیر)
بندھا ہوا ہوں عین اُس کے سامنے ستون سے
کھلی ہوئی رُو برو کواڑ جیسی زندگی
سزا بھی ہے یہیں میاں‘ جزا بھی ہے یہیں میاں
یہ ہر گھڑی اکھاڑ اور پچھاڑ جیسی زندگی (فقیہہ حیدر)
جہاں میں رزق کی تقسیم کرنے والا علی
گھر آ کے فاطمہ زہرا سے روٹی مانگتا ہے (خمار میرزادہ)
آج کا مطلع
بگڑ جائے‘ سدھر جائے‘ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
جیئے کوئی کہ مر جائے‘ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved