تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-04-2013

کارکنوں کے مینڈیٹ کا اغوا

تحریک انصاف کے ملتان ضلع کے انٹراپارٹی انتخابات میں جوہوا اسے اگر ہم گھٹن زدہ پارٹی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا کہیں تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ پیدائشی لیڈر شپ اور نامزدگیوں پر مشتمل سیاسی پارٹیوں کے ہجوم میں جماعت اسلامی کے بعد تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعت ہے جس نے پارٹی کے اندر صحیح معنوں میں انتخابات کروائے تاہم جماعت اسلامی کے منظم، خفیہ، گھرکی بات گھر کے اندر رکھنے کی صلاحیت، پارٹی عہدیداروں کے لیے صرف ارکان کے ووٹر ہونے کی شرط، امیدوار بننے پر پابندی، کنویسنگ کرنے پر نااہلی جیسے قاعدے ضابطے اور ووٹ بذریعہ ڈاک یا دستی بھجوانے کے لیے کئی دن کا وقت دینا ایسی چیزیں ہیں جو پاکستانی سیاست اور پارٹی انتخابات میں بڑی حیران کن لگتی ہیں مگر جماعت اسلامی کا سارا نظام اسی نظم اور قاعدے ضابطے پر استوار ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا انٹراپارٹی الیکشن کا عمل بلاشک و شبہ جمہوری تو تھا لیکن پاکستانی سیاست میں موجود تمام تر منفی حربوں ، ہتھکنڈوں اور چلن کا عکس ان انٹراپارٹی انتخابات میں سوفیصد نہ بھی سہی مگر غائب ضرور تھا۔ پیسہ، دھونس، دھاندلی اور کسی حدتک غنڈہ گردی بھی دیکھنے میں آئی مگر تربیت کی کمی، مضبوط جمہوری اقدار کی عدم موجودگی، گھٹن زدہ ماحول میں ایک دم آزادی ملنے کے محیّرالعقول موقعے پر ان ساری چیزوں کے لیے جو ازفراہم کیے جاسکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک مثبت جمہوری طرزعمل کا آغاز ہوا۔ نظام کی خرابیاں بہرحال آہستہ آہستہ درست کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ منزل کا تعین درست طورپر کیا جائے۔ اور انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ منزل کا درست تعین تھا۔ ملتان میں ہونے والے انٹراپارٹی انتخابات میں ایک طرف پرانا نظریاتی گروپ تھا اور دوسری طرف گھس بیٹھیے اور زور آور دولتمندوں کا گروپ تھا۔ بس یوں سمجھیں کہ علیم خان اور محمودالرشید والا معاملہ‘ بس ذرا چھوٹے پیمانے پر تھا۔ پہلی بار نظریاتی گروپ کے صدارتی امیدوار کا نام ہی بیلٹ پیپر پر نہیں تھا۔ الیکشن ملتوی ہوئے۔ اگلی بار جب ووٹروں نے اپنی رائے کا اظہار نظریاتی گروپ کے حق میں کرنا شروع کیا تو مارکٹائی کی گئی، بیلٹ بکس اٹھا لیے گئے، پرچیاں پھاڑ دی گئیں۔ غرض وہاں سب وہ کچھ ہوا جو زور آور ہارتے ہوئے اپنے زیراثر پولنگ اسٹیشنوں پر کرتے ہیں۔ الیکشن میں ہونے والی اس دھاندلی ، غنڈی گردی اور منفی طرزعمل کی وڈیو جب اوپر بھیجی گئی تو یہ الیکشن کالعدم قرار دے دیے گئے۔ ضلع ملتان کے انٹراپارٹی الیکشن کے لیے تنگ آکر بالآخر پولنگ سٹیشن ساہیوال بنادیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا الگ منفرد واقعہ تھا۔ بہرحال ساہیوال میں پولنگ ہوا تو زور آور گروپ نے بائیکاٹ کردیا۔ انہیں اپنی شکست صاف نظرآرہی تھی۔ نظریاتی گروپ کے لوگ ساہیوال ووٹ ڈالنے پہنچ گئے۔ الیکشن یکطرفہ ثابت ہوئے اور تحریک انصاف کے پرانے، مخلص اور نظریاتی لوگوں نے کلین سویپ کیا اور ضلع کے سارے عہدوں پر کامیابی حاصل کی۔ اصل خرابی آگے شروع ہوئی۔ تحریک انصاف نے انتخابات میں امیدواروں کی نامزدگی کے لیے ایک طریقہ کار طے کیا۔ یہ طریقہ کار عمران خان، حامد خان اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین پر مشتمل ایک کمیٹی نے طے کیا۔ اس طریقہ کار کے مطابق ڈسٹرکٹ کا صدر سیکرٹری اور ٹائون کے صدور مل کر اپنے ڈسٹرکٹ میں آنے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے لیے امیدواروں میں سے ہرنشست کے لیے تین تین ناموں کی سفارش ریجن کو بھجوائیں گے اور ریجن ان سفارشات کی روشنی میں اپنی رائے کے ساتھ یہ نام پنجاب کو بھجوائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد امیدوار کا اعلان کردیا جائے گا۔ ملتان میں ایسا ہی کیا گیا۔ ضلع ملتان کی جغرافیائی حدود میں آنے والی چھ قومی اور تیرہ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر ترجیحات کے ساتھ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر کے امیدوار کا سفارش کردہ نام ضلعی صدر اعجاز جنجوعہ ، سیکرٹری ضلع ملتان ملک امجد عباس، صدر ممتاز آباد ٹائون مہرارشد، صدر شاہ رکن عالم ٹائون یوسف ڈمرا، صدر بوسن ٹائون عامر خان بادوزئی، صدر شیرشاہ ٹائون ملک عبدالستار ارائیں، صدر شجاع آباد ٹائون وحید عباس گنویں اور صدر جلال پور ٹائون خواجہ آصف نے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق جنوبی پنجاب ریجن کے صدر نورخان بھابھہ کو بھجوادیے ۔ پنجاب کو چارریجن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب ، سنٹرل پنجاب، اپر پنجاب اور ویسٹ پنجاب۔ نورخان بھابھہ نے یہ نام اپنی سفارش کے ساتھ پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کو بھجوادیئے۔ پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے ایک صوبائی پارلیمانی بورڈ بنایا گیا ہے جس میں صدر اعجاز چودھری ، سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور چاروں ریجنز کے صدور شامل ہیں۔ اس پارلیمانی بورڈ نے نیچے سے آئی ہوئی امیدواروں کی فہرست جوفی نشست تین ناموں پر مشتمل تھی میں سے کوئی تبدیلی کیے بغیر انہی امیدواروں میں سے ٹکٹ جاری کرنے کے لیے نام منتخب کیے اور اوپر بھجوادیئے۔ پنجاب کے پارلیمانی بورڈ نے وہی کیا جو ضلع کے کارکنوں کی خواہش تھی، مگر خواہشات اور ان کی تکمیل کے درمیان کے مراحل میں ’’مخدوم‘‘ کود پڑے۔ ناموں کی ایک تفصیل ہے جو قارئین کے لیے بوریت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مختصراً یہ کہ حلقہ این اے 148سے این اے 153اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 194سے پی پی 206تک دیے گئے ناموں میں سے چند نام ہی ٹکٹوں کے حق دار ٹھہرے۔ بقیہ سب جگہوں پر ملتان کے دونوں مخدوم، یعنی شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی جوعام حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ آرام دہ محسوس کرتے اس مسئلے پر اکٹھے ہوگئے اور جن سیٹوں پر ان کے ذاتی مفادات تھے ایک ہوگئے۔ جن سیٹوں پران کے مفادات الگ الگ تھے ایک دوسرے کو فری ہینڈ دے دیا اور جہاں ان کے پاس اپنا کوئی پسندیدہ امیدوار نہیں تھا وہاں لسٹ پر مشتمل امیدواروں کو اوکے کردیا۔ دوچار سیٹیں ایسی بھی تھیں جہاں وہ اپنا زور نہ چلا سکے مگر ابھی تک انہی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حلقہ این اے 153اور اس کے نیچے پی پی 205اور 206پر لسٹ والے نام منظور ہوئے تاہم ملتان شہر کی سیٹوں پر سب کچھ ملیا میٹ کردیا گیا۔ شاہ محمود خود اپنی آبائی سیٹ این اے 148کے ساتھ 150پر اور اس کے علاوہ سندھ میں دو سیٹوں پر امیدوار ہوگئے۔ جاوید ہاشمی این اے 149پر امیدوار ہیں اور این اے 151ابھی تک خالی سمجھیں کہ سکندر بوسن جو تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرواچکا ہے اور مسلم لیگ ن میں اپنی شرائط پر شامل ہونا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کالم چھپنے تک وہ مسلم لیگ ن میں جاچکا ہو۔ شاہ محمود کے نیچے این اے 148میں پی پی 201کا ٹکٹ عباس رانا کو مل رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سابقہ ایم پی اے نے اپنے گھر پر تحریک انصاف کا جھنڈا اس روز لگایا جس روز صوبائی اسمبلی برخواست ہوئی تھی۔ پانچ سال اقتدار کے مزے لے کر آج پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ یہاں سے شاہ رکن عالم ٹائون کا صدر یوسف ڈمرا صوبائی بورڈ کا نامزد کردہ امیدوار تھا۔ پی پی 202پر بورڈ کا امیدوار ممتاز آباد ٹائون کا صدر ارشد سیال تھا۔ ارشد سیال نے پچھلے چھ سات سال میں انتھک کام کیا اور بے شمار پیسہ خرچ کرکے پارٹی کو مضبوط کیا۔ وہاں سے جاوید ہاشمی کی صاحبزادی کو ٹکٹ مل رہا ہے۔ پی پی 196سے نام کچھ اور بھجوائے گئے اور امیدوار اوپر سے نازل ہورہے ہیں۔ ان میں میاں جمیل اور اے ڈی بھٹہ جیسے دو لتمند سکائی لیب شامل ہیں جو کل تک ق لیگ اور دوسری پارٹیوں میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ یہاں سے شاہ محمود نے رانا جبار سے خرچہ کروایا اور عین وقت پر اپنے حلقہ این اے 150کے نیچے نئے امیدوار منظور کروالیے۔ پی پی 195سے ضلعی صدر اعجاز جنجوعہ امیدوار تھا وہاں سے شاہ محمود نے مختیار انصاری کا نام ڈلوالیا ہے۔ مقامی تنظیم اور پنجاب کا بورڈ اس پر سٹینڈ لے رہا ہے۔ شاید ایک دوروز تک کوئی مثبت تبدیلی آجائے اور کارکنوں کی سنی جائے مگر اب تک یہ عالم ہے کہ ضلع بھر کے پرانے کارکنوں کا جمہوری مینڈیٹ دو ’’مخدوموں‘‘ نے اغوا کرلیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved