تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     22-08-2018

’’یہ بات پہلے کیوں نہ بتائی؟‘‘

ہم ایکٹو جرنلزم میں تھے تو کافی عرصہ مسلم لیگ اور پرائم منسٹر ہماری ''بِیٹ‘‘ رہے۔ ہمیں یاد ہے، تب وزیر اعظم نواز شریف اپنی تنخواہ لاہور کے گلاب دیوی ہسپتال کی نذر کر دیتے تھے۔ اس سے پہلے وزارتِ اعلیٰ کے دونوں ادوار میں بھی یہی معمول رہا۔ گزشتہ روز عرفان صدیقی صاحب بتا رہے تھے کہ تیسری بار کی وزارت عظمیٰ میں بھی یہ روایت ایک اور طرح سے برقرار رہی۔ اِدھر تنخواہ وزیر اعظم کے اکائونٹ میں پہنچتی، اُدھر وہ چیک کاٹتے اور کسی خیراتی ادارے کو بھجوا دیتے (ان اداروں کی ایک فہرست تھی، جن میں سے کسی ایک کے نام پہ چیک بھجوا دیا جاتا) یہ سلسلہ حسبِِ توفیق تب بھی جاری رہا، جب وہ زیرِ عتاب تھے۔ کسی بیمار کا علاج، کسی بیوہ کی مدد، کسی بے گھر کے لیے چھت کا اہتمام۔ کسی یتیم بچی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے رقم، مستحق بچوں کی فیس کی فراہمی۔ میاں صاحب کے خادمِ خاص نے اٹک قلعے میں قید کے دنوں کی بات بتائی۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ایک نادہندہ کو ادائیگی کا آخری نوٹس ملا (عدم ادائیگی کی صورت میں قرقی کی قانونی کارروائی) میاں صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو مختار صاحب (شریف فیملی کے مالی معاملات کے نگران) کو ادائیگی کی ہدایت کر دی۔ اپنے رب کی خوشنودی کے لیے کئے جانے والے ان نیک کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنا مناسب نہ سمجھا جاتا۔ ماڈل ٹائون میں اتفاق ہسپتال۔ اتفاق فیملی کا ٹرسٹ ہے۔ جاتی امرا کے شریف میڈیکل سٹی میں صحت اور تعلیم کے ادارے بھی بنیادی طور پر ٹرسٹ کے ماتحت ہیں، جہاں طبی و تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے عوض اصحابِ ثروت ادائیگی کرتے ہیں‘ جبکہ مستحقین کے لیے یہ سہولتیں مفت ہیں۔ میاں صاحب نے دو سال قبل ہارٹ سرجری کروائی تو اُس وقت سے صدقے کے طور پر روزانہ، شریف ہسپتال میں کسی ایک مستحق کی بائی پاس سرجری مفت ہوتی ہے۔ یہ بات ایک روز ہمیں ڈاکٹر عدنان نے بتائی تھی۔ (ہمارے خیال میں شوکت خانم ہسپتال سمیت تمام ''خیراتی اداروں‘‘ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں، وہ ادائیگی کرتے ہیں اور مستحق افراد کسی معاوضے کے بغیر ان سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں) شریف فیملی کے ان اداروں کے حوالے سے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان کے لیے زکوٰۃ، خیرات، صدقات اور قربانی کی کھالوں کی اپیل بھی نہیں کی جاتی۔ ان کا اپنا خود کفالت کا نظام ہے، شریف فیملی بھی حسبِ توفیق اور حسبِ ضرورت حصہ ڈالتی رہتی ہے۔ 
پرائم منسٹر ہائوس میں، میاں صاحب (اور فیملی کے) ذاتی اخراجات کے حوالے سے بھی عرفان صاحب نے دلچسپ بات بتائی۔ (سلیم صافی ایک شب قبل اس سے ملتی جلتی بات کہہ چکے تھے۔ سینیٹر مصدق ملک نے گزشتہ شب اسی طرح کی بات کہی) ایک دن عرفان صاحب نے وزیراعظم سے، دفتر آنے سے قبل کی مصروفیات کا پوچھا، تو انہوں نے بتایا، نماز، تلاوت، ناشتہ اور اخبارات پر ایک نظر ڈالنے کے بعد، لنچ اور ڈنر کے مینیو پر بات ہوتی ہے۔ (میاں صاحب کی ''پرہیزی‘‘ ضروریات بھی مدِ نظر رکھی جاتی ہیں۔) اور ان اخراجات کی ادائیگی میاں صاحب اپنے پلّے سے کرتے ہیں۔ سینیٹر مصدق کے بقول 28 جولائی 2017ء کے فیصلے کے بعد، پرائم منسٹر ہائوس سے رخصت ہوتے ہوئے میاں صاحب نے بقایا جات کے چیک کاٹ دیئے تھے۔
گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں ہمارے یارِ مہربان عامر خاکوانی کا سوال اہم تھا، خیراتی کاموں کا پروپیگنڈا نہ کرنے کی حکمت تو بجا (اور قابل تعریف بھی) لیکن پرائم منسٹر ہائوس میں ذاتی اخراجات کی اپنی جیب سے ادائیگی کی بات، نون لیگ کے میڈیا سیل نے کیوں چھپائے رکھی؟ ہم اس سوال کا کیا جواب دیتے؟ سچ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا میڈیا سیل تھا کہاں؟ 1990ء کی دہائی میں ہم پولیٹیکل رپورٹنگ کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے، تب میاں صاحب کی میڈیا ٹیم خاصی فعال تھی۔ وہ خود بھی سینئر لوگوں سے رابطہ رکھتے۔ ان کے ساتھ غیر رسمی طور پر مل بیٹھنے کا اہتمام بھی کرتے۔ بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں یہ میڈیا ٹیم بطور خاص بہت سرگرم رہی۔ سید مشاہد حسین کی سربراہی میں پرویز رشید، خلیل ملک (مرحوم) اور صدیق الفاروق پر مشتمل اس ٹیم نے وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کا ناک میں دم کئے رکھا۔ مجال ہے، حکومت کی کوئی کوتاہی، کوئی خامی اور کمزوری ''اَن نوٹس‘‘ چلی جائے۔ تب وفاق میں میاں صاحب کی زیر قیادت حزب اختلاف بھی، حکومت کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی۔ محترمہ کے سرے پیلس کا انکشاف بھی انہی دنوں کی بات ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف صاحب قائد حزب اختلاف تھے، ایک طویل عرصہ کمر کے علاج کے لیے وہ لندن میں مقیم رہے۔ لیکن ایوان میں کچھ جانبازوں نے وزیر اعلیٰ وٹو کا ناک میں دم کئے رکھا۔
میاں صاحب دوسری بار وزیر اعظم بنے تو پارٹی کی میڈیا ٹیم کے سبھی لوگ سرکار کی نذر ہو گئے۔ مسلم لیگ کے تنظیمی معاملات تو کبھی بھی قابلِ رشک نہیں رہے تھے، لیکن حکومت میں آنے کے بعد تو یہ بے چاری، سو فیصد سپرد خدا ہو جاتی۔ تیسری بار کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران رُولنگ پارٹی کی تنظیمی حالت، حالتِ نزع سے بھی آگے کی تھی۔ ایسے میں اس کی میڈیا ٹیم کا کیا سوال؟ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران طارق عظیم صاحب نے، مسلم لیگ کے ہیڈ آفس 180-H ماڈل ٹائون میں میڈیا سیل بنایا تھا۔ بڑے میاں صاحب مرحوم کا یہ گھر پارٹی سیکرٹریٹ میں بدل دیا گیا تھا۔ اس کا سارا سٹرکچر، اسی لحاظ سے دوبارہ تیار ہوا۔ الیکشن مہم کے دو تین ماہ میں یہاں خاصی رونق رہی۔ میاں صاحب بھی تشریف لاتے، مریم بی بی بھی آتیں، مختلف موضوعات پر ''تھنک ٹینک‘‘ بھی سرگرم رہتے۔ الیکشن ہوئے۔ میاں صاحب تیسری بار وزیر اعظم ہو گئے۔ اور پارٹی کا سیکرٹریٹ ویران ہو گیا۔ طارق عظیم نے میڈیا سیل کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو ایک دانا مشیر کا کہنا تھا، مرکز اور صوبے میں تعلقاتِ عامہ کے سرکاری ادارے کس مرض کی دوا ہیں؟ کہتے ہیں، اس دوران مریم بی بی کی رہنمائی میں سوشل میڈیا ٹیم کافی سرگرم رہی، لیکن سوشل میڈیا ہی تو سب کچھ نہیں۔ آج بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت، سوشل میڈیا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس دوران اِدھر کتنی توجہ رہی؟ 
مخالفین کی طرف سے روز ایک نیا جھوٹ تھا جو منظر عام پر آتا۔ اسے اتنی بار دہرایا جاتا کہ خود مسلم لیگی ورکر کا یقین بھی متزلزل ہونے لگتا کہ پارٹی کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آتا تھا۔ 300 ارب روپے باہر بھجوانے کی بات زبان زدِ عام ہونے لگی لیکن مسلم لیگ (اور وزیراعظم صاحب) کے کسی ترجمان نے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ یہ 300 ارب روپے کی ''فگر‘‘ کہاں سے آئی؟ یہ سوال بھی فواد چوہدری صاحب سے ایک ٹی وی اینکر نے کیا تھا، جس کے جواب میں چودھری صاحب نے فرمایا، 300 ارب روپے کی یہ رقم عدالتی فیصلے میں موجود ہے۔ اینکر کا اگلا سوال تھا، میاںصاحب کے خلاف ایک فیصلہ 28 جولائی 2017ء کو آیا، جس میں وہ نا اہل قرار پائے۔ دوسرا فیصلہ 6 جولائی 2018ء کو آیا، جس میں انہیں دس سال کی سزا ہوئی۔ ان میں سے کسی فیصلے میں 300 ارب روپے کی بات ہے؟ میڈیا ہینڈلنگ کے ماہر ہمارے چودھری صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ انہوں نے ''ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر بات ختم کر دی۔
میاں صاحب کے تیسرے دور میں، جناب پرویز رشید وزیر اطلاعات ہو گئے۔ صدیق الفاروق متروکہ وقف املاک کے چیئرمین بنا دیئے گئے، جناب عرفان صدیقی، قومی تاریخ اور ادبی ورثہ کے نگران قرار پائے۔ (مشاہد حسین برسوں پہلے مشرف بہ قاف لیگ ہو چکے تھے۔) پرویز صاحب اپنے خاص مزاج کے آدمی ہیں، جناب عرفان صدیقی اور صدیق الفاروق، میڈیا میں بہت کارآمد ہو سکتے تھے۔ یہاں مالکان سے لے کر، ورکنگ میڈیا پرسنز تک ان کے مراسم ہیں، کسی سے بے تکلفی کا، کسی سے ادب و احترام کا ذاتی تعلق ہے۔ انہوں نے نئی ذمہ داریاں خوب نبھائیں، مردہ اداروں کو نئی زندگی دے دی، لیکن کیا یہ ان کی اصل صلاحیتوں کا درست استعمال تھا؟
ہم عامر خاکوانی کو کیا جواب دیتے؟ پرائم منسٹر ہائوس میں ذاتی اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کی بات خود مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل نے پہلے کیوں نہ بتائی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved