تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     22-08-2018

تقریریں

دو ہزار تیرہ میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو ان کے پرانے سوشلسٹ دوست ان کے پاس کوئٹہ پہنچ گئے۔ ان دوستوں کا اصرار تھا کہ اب چونکہ صوبے میں ہی سہی حکومت مل گئی ہے تو اس میں اپنے سوشلسٹ نظریات کے نفاذ کی راہ نکالی جائے۔ کوئی بھارتی بنگال میں کمیونسٹوں کی حکومت کی مثال لایا تو کسی نے سوویت یونین کے انقلاب کی تاریخ کھول کر ڈاکٹر صاحب کو سنانا شروع کر دی۔ ڈاکٹر مالک نے دوستوں کی دلجوئی کے لیے وہ سب سنا جو وہ پہلے سے ہی جانتے تھے۔ جب دلائل کے سوتے خشک ہو گئے اور تقریریں کرنے والوں کے گلے پھٹ گئے تو بلوچستان کے اس محترم ترین سیاستدان نے کہا، ''یارو، یہ حکومت جمہوریت کے ذریعے ملی ہے، کوئی انقلاب نہیں آیا کہ اپنی مرضی سے سارا نظام تلپٹ کرکے رکھ دو۔ ہمیں دستور کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہے اور جتنا کر سکے ضرور کریں گے۔ آپ یہ مت بھولیں کہ ہم نے حکومت نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے ساتھ مل کر بنائی ہے۔ ہم اپنے نظریات ان پر نہیں تھونپ سکتے‘‘۔ ڈاکٹر مالک کی بات سن کر کئی لوگ اتنے غصے میں آ گئے کہ اپنے نظریاتی رہنما پر ہی برسنے لگے کہ 'حکومت ملتے ہی مصلحت پسندی غالب آ گئی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے غصہ کیا نہ ان کی بات مانی بس ایک وزیر اعلیٰ کے طور پر جتنا وقت انہیں ملا‘ اسے بہتر استعمال کرنے کی کوشش کی اور جتنا کچھ اتحادیوں نے کرنے دیا وہ کر بھی ڈالا۔ مختصر یہ کہ ان کے دورِ حکومت میں بنیادی تبدیلی تو کوئی نہیں آئی بس کاروبارِ حکومت میں نظم و ضبط بہتر ہو گیا تھا۔
جب کوئٹہ میں ڈاکٹر مالک اپنی بھاری آواز میں یہ قصہ سنا رہے تھے تو مجلس میں موجود تمام لوگ مسکرا دیے۔ شاید نظریاتی لوگوں کی معصومیت پر کہ وہ معمولی سے اختیار کو بھی اپنے آدرش کو عمل میں لانے کا وسیلہ سمجھ کر امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک کی بات سنتے ہوئے اس وقت مجھے پروفیسر ڈاکٹر طارق کلیم یاد آئے‘ جن کی آنکھوں میں تارے سے جھلملانے لگے‘ جب انیس سو ننانوے میں جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ ملک میں طاقتور بلدیاتی نظام لائیں گے، قوم کی امید بحال کریں گے، معیشت کو ٹھیک کریں گے اور بے لاگ احتساب ہو گا۔ خاص طور پر طاقتور بلدیاتی اداروں کی بات سن کر طارق کلیم جیسے پڑھے لکھے شخص نے بھی جنرل مشرف سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ ابتدائی طور پر یہ امیدیں کچھ پوری بھی ہوئیں لیکن پھر انہوں نے سیاست کا رخ کیا تو سب کچھ برباد ہو گیا۔ چودھری برادران (چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی) نے انہیں ایسا سبق پڑھایا کہ احتساب تو رہا مگر بے لاگ نہ رہا، بلدیاتی ادارے تو رہے مگر ان میں سے طاقت نکل گئی، معیشت بس اتنی ہی ٹھیک ہو سکی کہ ان کے دور کی حد تک معاملہ چلتا رہا اور ان کے بعد اصلیت کھل کر سامنے آ گئی۔ 
اپنا حال بھی یاد آیا جب جنوری دو ہزار آٹھ میں قومی اسمبلی کے اندر نومنتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے احتساب، مہنگائی کے خاتمے، طلبہ یونین کی بحالی، مفت شناختی کارڈ اور نجانے کیا کیا اعلان کیے تھے۔ جنرل مشرف کی آمریت ختم ہو رہی تھی، جمہوریت کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یوسف رضا گیلانی جیل کاٹ کر ایوانِ اقتدار پہنچے ہیں، اس لیے یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر بغیر کسی تنقید کے یقین کر لینا چاہیے۔ پھر انہوں نے حکومت شروع کر دی۔ طلبہ یونین بحال نہیں ہو سکی۔ کرپشن کے خاتمے کی دعویدار حکومت کے دور میں سرکاری وسائل کی وہ بندر بانٹ ہوئی کہ الامان و الحفیظ۔ وزیراعظم بذات خود، ان کے صاحبزادگان، حتیٰ کہ خاتون اول کے دامن پر بھی مالی بدعنوانیوں کی چھینٹے نظر آنے لگے۔ ان کے وزرا کے بینک اکاؤنٹس میں جب لمبی لمبی رقمیں پکڑی گئیں تو کسی سے کچھ جواب نہ بن پڑا۔ بیشتر سرکاری افسران اپنی ترقی و تبادلوں کے لیے سیاسی مقتدروں کے در پر نقد ادائیگی کرتے تو کام ہوتا۔ اس زمانے میں کچھ بھی تو نہیں بچ پایا تھا۔ حج کے معاملات میں بدعنوانی، بجلی کے منصوبوں میں طرح طرح کی باتیں، سیلاب آیا تو اس کا مداوا نہ ہو پایا حتیٰ کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیا گیا ترک خاتون اول کا ہار بھی 'غلطی سے‘ یوسف رضا گیلانی کے سامان میں چلا گیا۔ دو ہزار آٹھ کی اس تقریر کو ہر پاکستانی نے اپنی جان پر بھگتا اور اس کے بعد پیپلز پارٹی عبرت کا نشان بن گئی۔ 
اگست دو ہزار تیرہ میں نواز شریف کا بطور وزیراعظم خطاب تو بہت سے لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا۔ انہوں نے معیشت کی بحالی، لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی کے خاتمے، سرکاری نظام میں اصلاحات اور دیگر بہت سی امیدیں دلائیں۔ بے شک اس دور میں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی میں غیر معمولی کمی ہوئی۔ اصل کام یعنی سرکاری نظام میں اصلاحات کا ذمہ ڈاکٹر عشرت حسین نے اٹھا رکھا تھا۔ یہ بے چارے رپورٹوں پر رپورٹیں بناتے رہے مگر بیوروکریسی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ الٹا یہ ہوا کہ شریف برادران سرکاری ملازموں کے قبلہ و کعبہ ہوگئے۔ اکثر بیوروکریٹ کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو لگ کر لمبا مال کمانے لگے اور جس بے چارے نے قواعد و ضوابط کا حوالہ دیا، نظروں سے گر کر راندۂ درگاہ ہو گیا۔ جمہوریت اور دستور کی دہائی دینے والی مسلم لیگ ن کی حالت یہ رہی کہ خود وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے وقت نہ نکال پائے۔ شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں جانا ہی کسرِ شان سمجھتے تھے۔ وفاقی کابینہ اور صوبائی کابینہ کے باقاعدہ اجلاسوں کا تصور ہی ختم ہوگیا۔ نجانے اسحٰق ڈار نے کیسی معیشت چلائی کہ ان کے جاتے ہی روپیہ بے قدر ہوگیا، لوڈشیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا اور برآمدات ایک خواب بن کر رہ گئیں۔ 
وزیراعظم عمران خان نے اپنے بے تکلف انداز میں ایک گھنٹہ نو منٹ تقریر کی تو ایسا لگا کہ یہ سب کچھ تو میرے دل میں ہی ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا‘ ان میں سے کسی ایک بات سے بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ قطبین کے درمیان انسانی آبادی میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں ہوگا جو اپنے ملک میں بدعنوانی چاہے، مضبوط بلدیاتی اداروں کا خواہاں نہ ہو، سرکاری نظام میں عزت کا طلب گار نہ ہو، تعلیم و صحت کے بہترین نظام کی خواہش نہ رکھتا ہو، راستوں کے ساتھ ساتھ درخت نہ چاہتا ہو، صفائی کو عزیز نہ رکھے۔ یہ سبھی خواہشات عمران خان نے اپنی تقریر میں بیان کر دیں۔ ان کا طریقۂ اظہار اتنا دلنشین اور سادہ تھا کہ ان کی بات ہر ذہن میں نقش ہو گئی۔ کئی لوگ تو آنکھوں میں آنسو بھر لائے کہ اب ہماری قوم کی تقدیر بدلنے کو ہے۔ یقین مانیے کہ میں صحافی اور پاکستان کی عملی سیاست کا طالب علم نہ ہوتا تو عمران خان کی تقریر کے سحر میں جکڑا بلکہ لتھڑا ہوا ہوتا۔ میں سادگی کے بارے میں ان کے فرمودات تسلیم کر لیتا‘ اگر وہ سکیورٹی اداروں کی بات مان کر وزیر اعظم ہاؤس کے ایک آسودہ گوشے میں مقیم ہونے کی بجائے اپنے قول کے مطابق منسٹر انکلیو کی ایک رہائش گاہ میں رہ پڑتے۔ انہوں نے سکیورٹی اداروں کے کہنے پر گنجائش پیدا کی تو خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ نے حلف گورنر ہاؤس میں لے کر پیغام دے دیا کہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس چاہے رہائش گاہیں نہ رہیں، رہیں گے حکمرانوں کے استعمال میں ہی۔ خود مختار بلدیاتی اداروں پر میں نے عمران خان کے تصورات کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ میں اب بھی ان کی بات مان لیتا اگر چودھری پرویز الٰہی ان کے حلیف نہ ہوتے۔ کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے بہترین بلدیاتی نظام کی بربادی کے لیے اس پر پہلا حملہ چودھری پرویز الٰہی نے ہی کیا تھا، جس کے بعد یہ نظام بے موت مر گیا۔ میں خان صاحب کی ہر بات مان لیتا‘ اگر میں ان کی کابینہ کے ارکان کے ماضی سے آگاہ نہ ہوتا۔ ویسے بھی اس قوم نے تقریریں بہت سنی ہیں، ان پر عمل ہوتے نہیں دیکھا۔ اس لیے بعد میں مایوس ہو کر دل جلانے سے بہتر ہے کہ میں عمران خان کی تقریروں پر دھیان دینے کی بجائے ان کے عمل کا انتظار کریں۔ ورنہ یہ ساری باتیں تو بچوں کی معاشرتی علوم کی کتابوں میں بھی لکھی گئی ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved