آپ اسے شاید مذاق سمجھیں‘ لیکن واقعہ بالکل سچا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جس دن قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم کا انتخاب ہونا تھا ‘اس دن جیسے ہی مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی کا کمیٹی روم میں اجلاس شروع ہوا ‘تو کچھ دیر بعد یکدم شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے‘ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے کچھ فربہ قسم کے رکن قومی اسمبلی سے پوچھنے لگے کہ ایم ایم اے اور ہمارے اراکین قومی اسمبلی کے بازئوں پر باندھنے کیلئے کالی پٹیوں کا بندو بست کر لیا ہے ؟ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے وہ رکن قومی اسمبلی فوراًبولے :مجھے تو کسی نے کہا ہی نہیں؟جس پر شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر نے انہیں کہا کہ اپنے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں سے کہیے کہ وہ جا کر قریب ہی آب پارہ یا بری امام سے کالی پٹیاں لے آئیں ‘بلکہ بری امام قریب رہے گا اور وہاں جانے کیلئے ٹریفک بھی زیا دہ نہیں ہو گی۔ جس پر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے معزز رکن نے اپنے ڈرائیور کو فون کرتے ہوئے دس میٹر کالے رنگ کا کپڑا لے کر اس کی پٹیاں بنا کر لانے کو کہااور ساتھ ہی ایک بار پھر سختی سے تاکید کی کہ دیر نہیں ہونی چاہیے اور بری امام بازار سے کالا کپڑا لیتے ہوئے دکاندار سے ان کی کالی پٹیاں بھی تیار کروانی ہیں اور جلدی لے کر واپس پہنچنا ہے ۔
ہزارہ کاڈرائیور اپنے ایک ساتھی گارڈ کے ساتھ تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتا ہوا امام بری کی جانب چل دیا اور وہاں ایک دکان پر پہنچ کر جلدی جلدی بغیر بھائو تائو کیے کہنے لگا کہ دس میٹر کالا کپڑا دے دیں۔ دکاندار نے چند منٹوں میں دس میٹرکالا کپڑا کاٹ کر ایک بڑے سے شاپر میں ڈالا اور ڈرائیور کے حوالے کرتے ہوئے اسے پانچ ہزار روپے میں سے بقایا رقم دینے لگا ‘تو ڈرائیور نے کہا: اسے چھوٹا چھوٹا کر کے کاٹنا بھی ہے ۔اب وہ ڈرائیور کیونکہ مانسہرہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والا تھا‘ اس لیے دکاندار نے جب اس سے پوچھا کہ آپ یہ کپڑا کس لئے لے کر جا رہے ہیں ؟کیا کوئی جھنڈا وغیرہ بنانا ہے؟ جس پر وہ ڈرائیور‘ جسے اس کے صاحب موبائل پر سختی سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ کد ھر ہو ‘اتنی دیر کیوں کر دی ہے؟ جلدی لے کر پہنچو۔ وہ دکاندار سے کہنے لگا کہ یارا جلدی کاٹو‘ ہمارے صاحب اور ان کے ممبران نے سوگ پر جاناہے‘جس پر ڈرائیور کے ساتھ آئے گارڈ نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے دکاندار سے کہا: سوگ پر نہیں‘ شہباز شریف اور مسلم لیگ نون والوں نے اپنے بازئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر اسمبلی ہال کے اندر عمران خان کے خلاف احتجاج کرنا ہے ۔
اسے ایک مذاق سمجھنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میاں شہباز شریف سمیت ایم ایم اے اور نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کافی دیر بعد ایوان میں داخل ہوئے تھے‘ جبکہ ان کا ایوان میں انتظار کیا جا رہا تھا۔ میڈیا بھی بار بار کہہ رہا تھا کہ میاں شہباز شریف اپنی ٹیم کے ساتھ ابھی تک نہیں پہنچے‘ جبکہ پیپلز پارٹی اور حکومتی اراکین کب کے ایوان میںآچکے تھے۔ جیسے ہی عبا سی صاحب کا وہ ڈرائیور کالی پٹیاں بنوا کر وہاں سے گاڑی دوڑاتا ہوا نکلا ‘بری امام میں کپڑا بیچنے والا وہ دکاندار ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو نے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں مسلم لیگ نواز کے سوگ منانے کی کہانی پورے بازار میں پھیل گئی۔ایک چھوٹی سی بات کہہ لیں یا سادگی سے کی جانے والی زبان کی غلطی کہہ لیں ‘کبھی کبھی بہت سے اتفاقات پیدا کر دیتی ہے کہ جس وقت نواز لیگ سمیت ایم ایم اے کے96 اراکین قومی اسمبلی کے ایوان میں کالی پٹیاں باندھ کر داخل ہو رہے تھے‘ تو اس وقت بری امام کے دکاندار' ان کے سوگ‘ کے قصے ایک دوسرے کو سنا سنا کر مزے لے رہے تھے اور اس بازار میں یقینا نواز لیگ کے حامی بھی موجود ہوں گے‘ جنہیں وہ دکاندار قسمیں اٹھا اٹھا کر یہ قصہ بتا رہا تھا۔خدا نہ کرے کہ نواز لیگ کو کسی سوگ کا سامنا ہو ‘ہم تو اسے احتجاج ہی کہیں گے ‘لیکن یہ قصہ اب پھیلتا جا رہا ہے‘ کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ڈرائیور کے ساتھ آئے ہوئے گارڈ نے اپنے دوسرے ساتھیوں کو اس ڈرائیور کا مذاق اڑانے کیلئے مزے لے لے کر یہ واقعہ سنایا نہ ہو۔
دس برسوں پر محیط کلی اختیارات سے لبا لب بھرا ہوا اقتدار اور وہ بھی ایسا کہ مغل شہنشاہ بھی اگر دیکھ لیتے‘ تو شرما جاتے۔ اس شتر بے مہار اقتدار کا ہاتھ سے نکل جا نا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی کسک اور تڑپ وہی جان سکتا ہے‘ جس کے ہاتھوں سے کسی نے بڑھ کر حکم دینے والا اختیار چھین لیا ہو‘ مسلم لیگ نواز کی قیا دت اور ان کے نائبین کو اس بات کا تو مکمل یقین تھا کہ و ہ مرکز میں حکومت نہیں بنا پائیں گے‘ لیکن رہ رہ کر یہ تسلی انہیں ضرور تھی کہ پنجاب تو ان کے پاس ہی رہے گا اور اس سب سے بڑے صوبے کی حاکمیت کے ہاتھ سے نکل جانے کا ‘انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ‘لیکن مشیت ایزدی میں کسی کا کیا دخل ہو سکتا ہے۔ کاتب تقدیر نے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کو دنیا کے آبادی کے لحاظ سے بارہویں بڑے ملک کے برا بر صوبے کے تاج و تخت سے بھی محروم کر دیا‘ جسے وہ گریٹر پنجاب کی شکل دینے کیلئے سرور پیلس ہی نہیں ‘بلکہ لندن میں براجمان غصے سے کھولتے ہوئے ‘نا جانے کب سے سوچ رہے تھے۔انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ رب اور بھگوان کو ایک نام کے ساتھ پکارنے پر بھی پنجاب کے مسلمان ‘ان کے ہی حق میں نعرے لگا رہے ہیں‘ وہ خوش ہو رہے تھے کہ منزل قریب ہی ہے ‘کیونکہ خون سے اٹی ہوئی سرحدوں‘ پاک باز بیٹیوں کی عصمتوں سے لٹی ہوئی سرحدوں کوانہوں نے جب صرف ایک لکیر کا نام دیا‘ تو مجال ہے کہ کسی کے ماتھے کے تیوربھی بدلے ہوں‘ بلکہ لوگ تالیاں بجاتے ہوئے ان کی تائید کرنے لگے کہ یہ سچ مچ کی ایک بے معنی سی لکیر ہی ہے۔ کوئی لہو سے اٹی ہوئی سرحد نہیں؟ وہ پر سکون ہو گئے تھے‘ وہ خوشیاں منا تے ہوئے اپنے دوستوں کو پیغام بھیجتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم سب کے آقا کو بھی بتا دو کہ دیکھو پنجاب میں بیٹھ کر میں جو کچھ کہتا ہوں کہ دونوں جانب کے لوگ ایک ہیں‘ کیونکہ ہم سب مل کر آلو گوشت کھاتے ہیں اور میرے لوگوں کی مجھ سے محبت اور اعتما ددیکھو کہ انہوں نے یہ سب کچھ سن لیا ہے‘ پھر پانچ برس قبل مجھے جی بھر کر ووٹوں سے بھی لاد دیا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو کہ ہم سب آلوگوشت کھاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت میں کسی مسلمان کو گائے کے قریب کھڑے ہونے پر لکیر کے دوسری جانب کھڑا ہندو اس زندہ مسلمان کی گستاخی پر اس کی کھال کھینچ لیتا ہے ۔
وہ تو اﷲ کو اس ملک و قوم پر ترس آ گیا‘ جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وسائل سے اس کی باگ ڈور سے اس کی طاقت سے کسی نئے شیخ مجیب الرحمن اس کے کسی نئے کمال حسین کے مکروہ ارادوں کو زمین بوس کر دیا۔ ہزارہ کے اس رکن اسمبلی کا گارڈ چونکہ اندر کھاتے کی سازشیں سمجھ نہیں سکتا‘ اس لئے وہ سوگ کو احتجاج کا نام دے رہا ہے‘ ورنہ دشمن کی سب چالیں ناکام ہونے پر اس کا سوگ تو بنتا ہے۔
نوٹ: عاشق ِرسول بابر اعوان نے اپنے کالم میں مجھ پر جو ذمہ داری ڈالی ہے‘ اس کی جلد ہی تعمیل کرنے کی کوشش کروں گا۔