تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-08-2018

جاٹ کو مَرا تب جانیے …

مخالفت ہر طرح کی فضاء میں ہوتی ہے۔ جہاں بھرپور ہم آہنگی پائی جاتی ہو وہاں بھی ایک دو افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جن میں دوسروں کے ساتھ چلنے کی ذرا بھی لگن نہیں پائی جاتی۔ وہ ہر معاملے میں اپنا الگ راستہ نکالنے پر یقین رکھتے ہیں اور راستہ نکال کر رہتے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ مگر خیر‘ اُن کے دور میں بات بہت حد تک اصولوں کے دائرے میں رہا کرتی تھی۔ اختلاف محض اختلاف ظاہر کی خواہش کا اظہار کرنے کی خاطر نہیں ہوا کرتا تھا۔ سسٹم میں تھوڑی بہت بہتری پیدا کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اختلاف کیا جاتا تھا۔ اور اختلاف کو اختلاف تک ہی محدود رکھا جاتا تھا‘ مخالفت میں تبدیل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ 
بھائی اسلام الدین شیخ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اُنہیں اختلاف کرنے کا محض شوق نہیں ہے‘ ہنر بھی آتا ہے۔ کپتان کی سیاست کے حوالے سے اُن کے اپنے ''نظریات و عقائد‘‘ ہیں۔ بعض اعتراضات ایسے بھی ہیں جو خوفِ فسادِ خلق سے یہاں بیان نہیں کیے جاسکتے مگر ایک بات طے ہے ... یہ کہ اسلام الدین شیخ جب کسی بھی معاملے میں اختلافِ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کپتان کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں تب اُن کی قوتِ گویائی قابلِ دید اور زبان دانی قابلِ داد ہوتی ہے۔ 
عام انتخابات کے بعد کی صورتِ حال اور اب عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد جو کچھ بھی کہا‘ سُنا اور محسوس کیا جارہا ہے وہ شیخ صاحب کے لیے اچھے خاصے اضطراب کا باعث ہے مگر خیر‘ اطمینان رکھا جائے کہ وہ محض پریشان نہیں ہوتے اور اختلاف برائے اختلاف کی منزل پر ٹھہر کر ڈھیر ہو جانے کے بجائے دو چار قدم آگے جاکر اپنی رائے سے بھی نوازتے ہیں یعنی مسائل کی نشاندہی تک محدود ہو رہنے پر حل تجویز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فی زمانہ یہ بھی بہت بڑا وصف ہے۔ مسائل کی نشاندہی کو بہت کچھ سمجھ لین والے جان رکھیں کہ یہ کوئی بڑا تیر مارنا نہیں ہے۔ 
کل شام شیخ صاحب سے کافی مدت کے بعد ملاقات ہوئی۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ پی ٹی آئی کی فتح اور کپتان کی ''جے جے کار‘‘ سے نالاں و دل گرفتہ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کر بیٹھے تھے۔ بات یہ ہے کہ ایوانِ اقتدار میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلی نے شیخ صاحب کو بھی بہت کچھ سوچنے اور کہنے پر مجبور کردیا ہے۔ معاملہ صرف اِتنا نہیں ہے کہ وہ کپتان کے ناقد ہیں بلکہ وہ اُس فضاء سے پریشان ہیں جو پی ٹی آئی کی کامیابی نے پیدا کی ہے۔ جب خواہشیں اور اُمنگیں ابھر کر سطح تک آجاتی ہیں اور توقعات کی فضاء کو دبیز کردیتی ہیں تب شیخ صاحب جیسے اصحاب کو تھوڑی بہت گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ شیخ صاحب عملی انسان ہیں اور ہر معاملے کو عمل کے معیار کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی ہیں۔ جب اُن کے سامنے لوگ سو طرح کی امنگوں کا اظہار کرکے توقعات کا پتھارا سجاتے ہیں تو وہ اپنے خُوئے تنقید کو بے لگام ہونے سے روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اُن کا اشہبِ لِسان سرپٹ دوڑنے لگتا ہے۔ اور آج کے کراچی کی کھڑی بولی میں کہے ‘تو دماغ کا گھوڑا ٹاپوں ٹاپ دوڑ اُڑتا جاتا ہے۔ 
بہت سے دوسرے احباب کی طرح شیخ صاحب کا بھی استدلال یہ ہے کہ کپتان کے سَر پر غیر معمولی حجم کی بہت ساری توقعات کا پوٹلا دَھرنے سے گریز کیا جائے۔ بات سولہ آنے درست ہے۔ پی ٹی آئی کے احباب کو بھی سمجھنا چاہیے کہ خواہشیں جب توقعات اور اُُمّیدوں کی منزل تک آتی ہیں تو قیامت ڈھانے لگتی ہیں۔ کہیں جانا ہو تو گھر میں بیٹھے بیٹھے طے کیا جاتا ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں کس طرح جانا ہے۔ یعنی کون سی گاڑی سے جانا ہے۔ گھر کی حدود میں تو بے تابی برائے نام ہوتی ہے۔ سڑک پر آکر گاڑی کا انتظار کیجیے تو ایک ایک لمحہ صدی کے برابر محسوس ہونے لگتا ہے۔ ذرا سی دیر میں صبر کا پیمانہ چھلکنے لگتا ہے۔ 
شیخ صاحب کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ کسی بھی بڑی اور حقیقی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے تو نیت دیکھنا چاہیے۔ اِس کے بعد آتا ہے تیاری کا مرحلہ یعنی یہ کہ جس نے کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانے کا دعوٰی کیا ہے وہ کس قدر تیاری کے ساتھ میدان میں آیا ہے۔ شیخ صاحب کی رائے یہ ہے کہ کپتان کی نیت خواہ کچھ ہو‘ تیاری دیکھنا پڑے گی۔ اور خاص طور پر اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے متعلق اُن کے ارادوں کے حوالے سے۔ ہم اور ہماری طرح بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان فی الحال ع 
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے 
کی منزل میں ہیں۔ جمہوریت کی راہ سے کئی قافلے گزرے ہیں۔ بعض قافلے تو بے چارے ؎ 
ٹھہر تھوڑی دیر تو اے شامِ مے خانہ ذرا 
پی تو لُوں دو چار میں بھی جامِ مے خانہ ذرا 
کہتے رہ گئے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جن کے معاملات ابتدائی مرحلے میں یوں بگڑے کہ پھر سنبھالے نہ جاسکے اور معاملہ ع 
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے 
کی منزل پر ختم ہوگیا! 
شیخ صاحب جہاں دیدہ ہیں۔ ایک عمر گزار چکے ہیں اِس لیے ذاتی مشاہدے اور تجربے کے ساتھ ساتھ اُن کے ذہن میں محاوروں اور کہاوتوں کا ''بھنڈار‘‘ ہے۔ کپتان کی نئی اننگز کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ابتداء میں بے ذہنی کے ساتھ تیزی اچھی نہیں ہوتی۔ عجلت پسندی کبھی کبھی انتہا کی تاخیر کا باعث بھی بن جایا کرتی ہے۔ کپتان کے گرد جو لوگ ہیں وہ سب سے سب آئیڈیل حیثیت کے حامل نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ الیکٹیبلز کا بڑی تعداد میں اُن کے گرد ہونا کوئی اچھی علامت نہیں۔ 
شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ابھی سے بہت کچھ نہ سوچا جائے کیونکہ کسی جواز کے بغیر زیادہ سوچنا بھی ذہن کو تھکانے کے ساتھ ساتھ عمل کی قوت گھٹا دیا کرتا ہے۔ کپتان کی کامیابی کے لیے دست بہ دعا ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ صاحب فرماتے ہیں ''100 دنوں کا بہت غلغلہ ہے۔ ٹھیک ہے مگر جاٹ کو مَرا تب جانیے‘ جب تیرہویں ہو!‘‘ ۔
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ حضور! ہاتھ ہلکا رکھیے۔ جواب ملا ہاتھ تو اُنہیں بھی ہلکا ہی رکھنا چاہیے جو کپتان کو ایک اوور میں دس وکٹیں لے اُڑنے پر اُکسا رہے ہیں! ہم نے ایک بار پھر دست بستہ عرض کیا کہ کپتان کو یہی سوچ کر رعایتی نمبر دیجیے کہ آپ بھی ایک اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ہیں! اُن کا جواب تھا طِب قدرِ مشترک ہے تو کپتان کو بھی اُن کے علاج پر فوری توجہ دینی چاہیے جو اُنہیں بیمار کرنے کے درپے ہیں! 
شیخ صاحب کی رائے سے اختلاف کی زیادہ گنجائش نہیں۔ اُن کی طرح کپتان بھی ایک اسپتال چلاتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ بیمار ذہن کیسے ہوتے ہیں اور اُن سے کس طور بچا جاسکتا ہے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ قوم اچھے خاصے ذہنی اختلاج کے باوجود بھرپور جوش و خروش کے ذریعے اپنے علاج پر آمادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں کپتان کو اپنے ''کور سرکل‘‘ میں بیمار ذہن رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ 
شیخ صاحب کی گزارش صرف اتنی ہے کہ معاملات کو فطری رفتار سے آگے بڑھنے دینا چاہیے۔ عمل کی دنیا میں خواہشات کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑنے سے معاملات بگڑتے ہیں۔ بہت تیزی سے بہت کچھ پانے کی آرزو اُس تھوڑے بہت کو بھی داؤ پر لگادیتی ہے جو ہاتھ آسکتا ہو! اردو شاعری میں شیخ صاحب کی بہت ''واٹ‘‘ لگائی گئی ہے مگر خیر‘ ہمارے شیخ صاحب الگ وضع کے ہیں۔ اُن کی آراء پر دھیان دیا جانا چاہیے۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved