تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     25-08-2018

آنے والوں دنوں کی چند نشانیاں

نئی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ اِس اقدام سے چند اشارے ملتے ہیں۔ اول یہ کہ نوازشریف اینڈ کمپنی کو نئی حکومت سے کسی رو رعایت کی توقع نہیں ہونی چاہیے۔ دوئم یہ کہ عمران خان کو کوئی پروا نہیں کہ نون لیگ حالیہ الیکشن کے بارے میں کیا شور مچاتی ہے۔ سوئم یہ کہ عمران خان احتساب کے بارے میں نہایت سنجیدہ ہیں۔ 
نون لیگ کے شور شرابے سے ڈر ہوتا تو ای سی ایل والا فیصلہ اتنا جلد نہ آتا۔ ایسا کرکے عمران خان نے گویا یہ پیغام دیا ہے کہ میں اپنے ارادوں پہ پکا ہوں، جو چھلانگیں لگانی ہیں لگا لیں۔ نون لیگ کے کچھ قریبی آدمیوںسے سُنا جا رہا تھا کہ اگر نواز شریف اور دُختر کو ضمانت پر اڈیالہ جیل سے رہا کیا جاتا ہے تو وہ سیدھا لندن روانہ ہوں گے۔ اب واضح ہے کہ لندن کے راستے بند ہو چکے۔ احتساب کی موسیقی کا سامنا میاں صاحب کو یہاں ہی کرنا پڑے گا۔ 
اگر نوازشریف سے نرمی نہیں کی جاتی تو یہ خام خیالی ہے کہ آصف زرداری کو کچھ نہیں ہو گا۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی عمران خان نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ احتساب کیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں گے اور جو وسائل اُسے درکار ہوں مہیا کئے جائیں گے۔ وزارتِ داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنا‘ یہ بھی ایک بہت بڑا اشارہ ہے۔ ایف آئی اے پہلے ہی منی لانڈرنگ کے حوالے سے آصف زرداری اور چند ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی ابتدا کر چکی ہے۔ آصف علی زرداری سفری ضمانت پہ ہیں اور اُنہیں مجاز عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ یہ منی لانڈرنگ والا مسئلہ مضبوط ہو یا کمزور، اصل ٹارگٹ وہ ساٹھ ملین ڈالر ہیں جو ملکیتِ ریاست پاکستان ہیں اور سوئس بینکوں میں چھپے ہوئے تھے اور اَب پتہ نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ آصف علی زرداری سمجھ رہے ہیں یا نہیں‘ بدلے ہوئے حالات میں اُن کی جان نہیں چھوٹے گی جب تک یہ ساٹھ ملین ڈالر والا قصّہ کسی خاطر خواہ انجام کو نہ پہنچے۔ وہ بھی بڑے ہوشیار ہیں اور دُنیا اُن کی ہوشیاری کی قائل ہے۔ نیا وزیر اعظم مختلف قسم کی چیز ہے۔ اَب ٹال مٹول کا وقت ختم ہوا۔ حساب اُس لوٹی ہوئی رقم کا دینا ہو گا۔ 
یہ بھی ذہن میں رہے کہ آصف علی زرداری کی وہ صحت نہیں رہی جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ جب عید سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ سفری ضمانت کیلئے گئے تو سہارے کے ساتھ ہی چل سکتے تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیںکہ اٹھنا بیٹھنا کسی کا ہاتھ تھام کے ہی کر سکتے ہیں ۔ اُن کا نام ای سی ایل پہ نہیں آیا لیکن اَب نہیں لگتا کہ آسانی سے باہر جا سکیں گے۔ 
اگر آصف علی زرداری کا مسئلہ وہ ساٹھ ملین ڈالر ہے تو نواز شریف کا مسئلہ لندن کے وہ فلیٹ ہیں جن کا ذِکر اب کہانیوں میں بھی آ چکا ہے۔ وہ لاکھ تاویلیں دیں کہ فلیٹ اُن کی ملکیت نہیں ، بیٹوں کے ہیں ، اور بہرحال انگلستان کے قوانین کچھ اور کہتے ہیں اور پاکستانی عدالتوں کا ہاتھ اتنا لمبا یا طاقتور نہیں کہ یہ جائیدادیں پاکستانی ریاست کی تحویل میں آئیں۔ لیکن حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تک اِن فلیٹوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اُن کی یہاں جان نہیں چھوٹے گی۔ وہ دن گئے جب سعودی حکام دیگر عرب مہربان اُن کیلئے حرکت میں آتے تھے۔ وہ مہربان جن کے دباؤ کے تحت جنرل مشرف کے وقت اُن کی جان بخشی ہوئی اور وہ اپنے 60-70 سوٹ کیس باندھ کے سرزمینِ حجاز کو روانہ ہوئے۔ سعودیوں نے اُنہیں لانے کیلئے پورا جہاز بھیجا تھا اور سوٹ کیسوں کے ساتھ میاں نواز شریف اپنے باورچیوں کی پوری کھیپ لے جانا نہ بھولے۔ اَب جو سعودی عرب میں براجمانِ اقتدار ہیں اُن کی ترجیحات اور ہیں ۔ الیکشن کے بعد کم از کم تین مرتبہ سعودی فرمانروا یا اُن کے بیٹے کا رابطہ عمران خان سے ہوا ہے۔ یہ بھی بدلے ہوئے حالات کی طرف ایک اشارہ ہے۔ 
عمران خان کمزوری دکھانے والا شخص ہوتا تو اپنی پہلی تقریر میں اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص نون لیگ کو کوئی لولی پاپ دیتا۔ احتجاج کا ڈر ہوتا تو الیکشن کے حوالے سے کسی پارلیمانی کمیشن کا ذکر کرتا۔ اپنے خطاب میں اِن موضوعات کی طرف ذرا سا اشارہ بھی نہیں دیا۔ پورا وقت قوم کو سمجھانے میں لگا رہا کہ درپیش کٹھن مسائل کیا کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے۔ بے جا اُس نے کسی کو للکارا نہیں لیکن خواہ مخواہ کی کمزوری بھی نہیں دکھائی۔ اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک نئی حکومت کا تعلق ہے انتخابات پہ اعتراضات قصّہ پارینہ ہوئے۔ کوئی پارلیمانی کمیشن نہیں بنے گا اور پی ٹی آئی نے اِس موضوع پہ اپنا وقت برباد نہیں کرنا۔ 
خطاب کے دوسرے دن نئی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا جس کی کارروائی سے پتہ چلتا تھا کہ قوم ایک نئے زمانے میں داخل ہو رہی ہے۔ وزراء کو وزیر اعظم نے صاف صاف کہا کہ میں سولہ گھنٹے کام کروں گا، آپ چودہ گھنٹے کام کیا کریں۔ کارکردگی پہ ہی وزراء کو جانچا جائے گا۔ ای سی ایل کا فیصلہ اُسی اجلاس میں ہوا۔ اِس بات کی بھی تلقین کی گئی کہ فضول خرچیاں اور عیاشیاں کم کی جائیں۔ اِس بات کا بھی پتہ چلا کہ وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہیں جائیں گے اور پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔ علامتی اعتبار سے یہ بہت بڑا فیصلہ ہے کیونکہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ ہمارے وزرائے اعظم نے کبھی امریکہ دورہ کرنے کا بہانہ ہاتھ سے نہ جانے دیا‘ جب یہ واضح بھی ہوتا تھا کہ ہمارے کسی وزیر اعظم کا نیویارک میں کوئی کام نہیں اور اُسے تھوڑی سی پذیرائی ملنے کی توقع نہیں‘ پھر بھی پورا پورا جہاز بھر کے ہمارے وزرائے اعظم نیویارک جایا کرتے تھے۔ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہاؤس میں چند دنوںکے مہمان تھے لیکن پچھلے سال نیویارک ضرور گئے۔ عمران خان کا نہ جانا اِس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں اندازِ حکمرانی بدلنے کو ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے یہ بھی اعلان ہوا کہ آئندہ تین ماہ وہ کسی غیر ملکی دورے پہ نہیں جائیں گے۔ حالانکہ اچھا ہو کہ وہ اِس مدت کو بڑھائیں اور جب تک اشد ضرورت نہ ہو ملک کو چھوڑ کے فضول کے سیر سپاٹوں سے اجتناب کریں۔
کمال اَتا تُرک کبھی غیر ملکی دوروں پہ نہ گئے۔ اُن کے وزرائے خارجہ جایا کرتے تھے۔ ماؤزے تنگ صرف ایک بار ماسکو گئے اور پھر اپنی طویل حکمرانی میں اُنہوں نے ایک بھی غیر ملکی دورہ نہ کیا۔ وزیر اعظم چو این لائی جاتے تھے۔ لیکن یہ اُن کا کام تھا۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے آٹھ سال میں پہلا غیر ملکی دورہ کیا جب وہ سنگاپور میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملنے گئے۔ ہمارے ہاں نوازشریف نے غیر ملکی دوروں کو اعلیٰ مذاق کا درجہ دے دیا تھا۔ پہلے تین سالوں میں درجنوں غیر ملکی دورے کیے۔ پی آئی اے کا پورا جہاز لے اُڑتے اور ایک بار تو فیملی نے لندن سے پاکستان آنا تھا تو بوئنگ جہاز کو پاکستان سے منگوایا گیا۔ ایک دو دن وہ جہاز ہیتھرو ائیرپورٹ پہ کھڑا رہا اور اُس کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ 
اِن لوگوں کو تھوڑا سا بھی حیا نہ تھا۔ اپنی ذاتی جاگیر کے ساتھ کوئی ایسا نہیں کرتا جو اِنہوں نے پاکستان کے ساتھ کیا۔ لیکن جیسے عرض کیا دن بدل گئے ہیں۔ شاید حساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ کوئی یہ سمجھے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آ سکتی تو سعودی عرب میں رُونما ہونے والے حالیہ واقعات یاد رکھنے چاہئیں۔ ایسے لوگوں‘ جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُنہیں کوئی ہاتھ لگائے‘ کو حراست میں لیا گیا۔ گو اِنہیں ریاض کے پرتعیش رِٹز کارلٹن (Ritz-Carlton) ہوٹل میں ٹھہرایا گیا لیکن اُن کی جان بخشی تبھی ہوئی جب شاہی خزانے میں بھاری رقوم جمع کرانے پہ آمادہ ہوئے۔ 
کیا پاکستان میں ایسا تو نہیں ہونے جا رہا؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved