تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-08-2018

نفرت کا بازار

دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ معاملات کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں۔ کل کی دنیا ختم ہوچکی۔ اب ایک ایسی دنیا ہمارے سامنے ہے جس میں تقریباً سبھی کچھ نیا ہے۔ گہرے سانس لیجیے تو فضاء میں اجنبی نظریات اور نامانوس تصورات کی موجودگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے لیے وقت تھم گیا ہے۔ زمانے گزر چکے ہیں مگر بھارتی معاشرے کے لیے وہ زمانے گزرے نہیں‘ اب تک موجود و برقرار ہیں۔ 
سینکڑوں سال سے دِلوں میں پلنے والی 'خُنّس‘ اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ مزید پروان بھی چڑھتی جاتی ہے۔ ہم سب اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ بھارت بھی اکیسویں صدی ہی میں جینے کا دعویٰ کر رہا ہے مگر دعوے کے مقابل عمل کچھ اور ہے۔ دوسروں کی طرح اکیسویں صدی میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والا بھارتی معاشرہ اب تک ایک بنیادی خرابی سے جان نہیں چُھڑا سکا۔ یہ خرابی ہے کسی بھی معاملے میں بلا جواز‘ بے بنیاد اور غیر منطقی نفرت۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرت کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی معاشرہ مجموعی طور پر اب بھی ہزاروں سال کے عمل میں پروان چڑھنے والی تنگ نظری کے نشانے پر ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں (دَلِتوں) کے علاوہ اب مسلمان اور عیسائی بھی کلیدی ہدف ہیں۔ 
مسلمان نشانے پر کیوں ہیں؟ کیا اِس لیے کہ اُنہوں نے بھارت پر کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکومت کی؟ یا پھر اِس لیے کہ انتہا پسند ہندوؤں کی نظر میں بھارتی مسلمان ہندو معاشرے کے لیے خطرہ ہیں؟ یہ دوسرا سوال قابل غور ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندو معاشرے کی اپنی مذہبی‘ تہذیبی اور اخلاقی کمزوریاں زیادہ ہیں۔ ہندو معاشرے میں مسلمان مجموعی طور پر مثالی زندگی تو بسر نہیں کر رہے مگر پھر بھی راکھ کے اِس ڈھیر میں چند ایک چنگاریاں دبی ہوئی ہیں۔ دیگر معاشروں کی طرف بھارتی معاشرے میں بھی مسلمان جس انداز سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بعض معاملات میں ''خوفزدہ‘‘ کردینے والا ہے۔ ہندو اکثریت والے معاشرے میں جو خرافات پائی جاتی ہیں اُس میں سے بہت کچھ ہے جو مسلمان اب تک اپنا نہیں سکے ہیں۔ بہت سی خرابیاں مسلمانوں کے حلق سے اب تک نہیں اُتریں۔ ''ہندو روایات‘‘ کے نام پر ایسا بہت کچھ اپنالیا گیا ہے جو کسی بھی مذہب یا تہذیب کی رُو سے درست نہیں‘ جائز نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مسلم خواتین کا پردے میں رہنا انتہا پسند ہندوؤں کو پسند نہیں۔ پردے جیسی محترم روایت کو بھی نشانے پر لے کر انتہا پسند ہندو عام ہندو کے ذہن میں یہ نکتہ ٹھونسنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ کسی عورت کا محجوب ہونا بھی بنیاد پرستی ہے‘ انتہا پسندی ہے! 
دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات عورت کے تقدس کی خاطر اُس کے لیے خصوصی ڈریس کوڈ تجویز کرتی ہیں۔ خود ہندو دھرم کی تعلیمات میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ عورتیں زندگی اُسی طور بسر کیا کریں‘ جس طور اِس وقت بسر کر رہی ہیں۔ ہندو معاشرے میں خواتین کے لیے جس نوعیت کے ملبوسات مروج ہیں اُن میں اُن کے تقدس اور احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی بھارت میں مسلم خواتین کو محض اس بنیاد پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ شرعی پردے کے تحت چہرہ مکمل طور پر چھپاتی ہیں۔ ذرا حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ کسی عورت کو محض اِس بنیاد پر ہدفِ استہزاء بنایا جائے کہ وہ بے حیائی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے اپنی حدود میں رہنے کی کوشش کرے اور اپنی زینت کو مکمل طور پر مستور رکھے! 
گزشتہ دنوں ایک ہندو انتہا پسند لیڈر کی تقریر نے سوشل میڈیا پر خوب توجہ پائی۔ محترمہ نے انتہائی جذباتی انداز سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے اذان اور نماز میں استعمال ہونے والے الفاظ اور ان کے مفہوم کو بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کو ہر وقت دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور بالخصوص ہندوؤں کو نشانے پر لینے کی تیاری ہی سے فرصت نہیں! اُن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ہندو تو مندروں میں پوجا کے نام پر محض گھنٹہ بجاکر چل دیتے ہیں مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ وہ ٹھہر کر‘ باضابطہ عبادت کرتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے! محترمہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مسجد میں عبادت کرنے سے مسلمانوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے یعنی انہیں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر حملوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے! انتہا پسند ہندو ذہن کچھ بھی محض سوچ ہی نہیں سکتا‘ کہہ بھی سکتا ہے۔ نریندر مودی کی وزارتِ عظمٰی کے تحت بھارت بھر میں نفرت پر مبنی اظہارِ خیال فیشن کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ جب بھی کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا بولے جس سے لوگ متوجہ ہوں تو وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بولنے لگتا ہے۔ اِس سے آسان نسخہ کیا ہوگا؟ کسی کے خلاف کچھ بھی بولنا شروع کیجیے اور آن کی آن میں سب کی توجہ کا مرکز بن جائیے۔ 
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اِس راہ پر گامزن رہ کر ملک کی ایک بہت بڑی اقلیت کو رام یا کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 22 کروڑ سے زائد ہے۔ آبادی میں ان کا حصہ نمایاں ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کو بیک جنبش قلم مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی مسلمان معاشرے کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ علوم و فنون کے حوالے سے بھی ان کی نمائندگی گئی گزری نہیں۔ تقریباً تمام اہم پیشوں اور شعبوں میں میں اُن کی موجودگی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں ہندو انتہا پسندوں کا انہیں سوچے سمجھے بغیر ''ڈِز کارڈ‘‘ کرنا انتہائی نامعقول طرزِ فکر و عمل ہے۔ 
نفرت کا بازار گرم رکھنا محض چند انتہا پسند ذہنوں کی بنیادی ضرورت اور مجبوری ہے۔ وہ اپنی سیاسی حاجت پوری کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ اِسی کو ووٹ بینک کی سیاست کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کچھ کہتے رہنے سے کروڑوں سادہ لوح ہندو اُن کی طرف جھکے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ اِس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ کبھی کبھی تو پورے معاشرے کا تانا بانا ہی بکھرتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ نفرت کو دن رات پروان چڑھاکر معاشرے کو ''بوائلنگ پوائنٹ‘‘ پر رکھنا کسی بھی طور قرینِ دانش نہیں۔ تھوڑے سے مفاد کے لیے پورے معاشرے کو داؤ پر لگانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی چند بوٹیوں کی خاطر بکرے کو ذبح کر ڈالے! 
بھارت کے اہلِ دانش کو سوچنا چاہیے کہ بے بنیاد نفرت کو کس حد تک لے جایا جاسکتا ہے۔ نوجوت سنگھ سِدّھو کو پاکستان کے دورے کی پاداش میں انتہا پسندوں کی طرف سے دائر کیے جانے والے غداری کے مقدمے کا سامنا ہے! یہ انتہائے حماقت نہیں تو پھر کیا ہے؟ اِس نوع کے واقعات بھارتی مسلمانوں کو مزید الگ تھلگ کردیں گے۔ کیا ایسی فضاء میں دوستی‘ محبت اور یگانگت کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے؟ 
انتہا پسندوں کو کِھسیانی بلّی کی طرح کھمبا نوچنے کے بجائے حقیقت پسندی کی دنیا میں جیتے ہوئے معاشرے کی بقاء کے لیے سوچنا چاہیے۔ ووٹ بینک کی سیاست کرتے کرتے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانا کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ اور قابلِ برداشت بات نہیں۔ نفرت کے بازار کی رونق ماند پڑنی ہی چاہیے۔ بھارت کے پالیسی میکرز کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایک بہت بڑی اقلیت کو نشانے پر رکھ کر پورے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کہاں تک اجازت دی جاسکتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved