کسی بھی ملک میں ہونے والے انتخابات میں عالمی دلچسپی ہمیشہ سے ایک معمول رہی ہے کیونکہ اس سے انتخابات کی شفافیت پرکھی جا سکتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال اگر پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ دلچسپی خلاف معمول ہو اور سفارتی ضابطۂ اخلاق کے مطا بق نہ ہو تو بہت سے خیالات اور خدشات کا ابھرنا ایک قدرتی بات ہے اور پاکستان میں اس طرح کی اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ ملکوں کے سفارت کار سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں سیا سی جوڑ توڑ میں اس حد تک مصروف ہیں کہ سوچنا پڑتا ہے یہ انتخابات پاکستان میںہو رہے ہیں یا امریکہ اور برطانیہ کی کسی کالونی میں؟ ان سفارت کاروں کا یہ طرز عمل پاکستان کی خود مختاری کو تو مشکوک بنا ہی رہا ہے لیکن افسوس ان سیا ستدانوں پر بھی ہے کہ ان کی دیکھا دیکھی ہماری بیوروکریسی بھی امریکیوں اور برطانوی سفارت کاروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے شترِ بے مہار ہوتی جا رہی ہے اور یہ اطلاعات ملنا شروع ہو گئی ہیں کہ کچھ افسران کی مہربانیوں سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تیار کردہ انتخابی اندازوں کی رپورٹیں بھی ان سفارت کاروں کو مہیا کی جا رہی ہیں۔ 23 فروری2013 ء کو برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد سے کچھ لوگ ایک ہنگامی دورے پر لاہور تشریف لائے اور یہاں جماعت اسلامی کے احسان اﷲ وقاص، لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ سے علیحدگی میں ایک تفصیلی ملاقات کی۔ ان سے ملاقات کے بعد یہ سفارت کار میاں منظور وٹو، عاصمہ جہانگیر، میاں عمران مسعود، نجم سیٹھی، اسحاق ڈار اور جہانگیر بدر سے ملنے کے بعد واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ امریکی سفارت کاروں کے اس طوفانی ،ہنگامی اوراچانک دورے کے مقاصدکیا تھے ؟یہ ابھی تک پردئہ اِخفا میں ہے ۔ کچھ ایسی اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ تحریک انصاف کے عمر سرفراز چیمہ ، مسلم لیگ نواز کے رانا مشہود اور پیپلز پارٹی کے چوہدری فواد بھی کچھ سفارت کاروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اب یہ تو ان سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ہی بہتر طور پر بتا سکتی ہے کہ ان تینوں حضرات کے رابطے پارٹی کی سطح پر ہیں یا ذاتی؟ اور کیا انہوں نے اپنی ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات کبھی اپنے قائدین سے شیئر کی ہیں؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ملک کی مختلف سیا سی جماعتوں کے لیڈران کی غیر ملکی سفارت کاروں‘( بالخصوص امریکی، برطانوی )اور بھارتیوں سے بار بار کی علانیہ یا خٖفیہ ملاقاتیں مناسب ہیں؟۔ کیا یہ سب حضرات مختلف سفارت خانوں سے قریبی رابطے ذاتی حیثیت سے کر رہے ہیں یا اپنے قائدین کی مرضی سے؟ اس کی تصدیق تو ان جماعتوں کے قائدین ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں لیکن بعض حلقوں میں ان کی ’’ کچھ سفارت کاروں‘‘ سے تسلسل سے ہونے والی ملاقاتوں کی خبریں بہت گرم ہیں جو مختلف قسم کے شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہیں۔ کیا ہماری وزارت خارجہ نے ان سفارت کاروں کو سفارتی آداب کی حدود میں رہنے کی کبھی یاد دہانی کرائی؟ اور احتجاج کیا؟ یہ درست ہے کہ انتخابات کو مانیٹر کرنے کے لیے دنیا بھر سے میڈیا کے افراد کی آمد ایک معمول ہے لیکن سفارت کاروں اور میڈیا میں بہت فرق ہے۔ سفارت کاروں کے اس طر ز عمل کو ملکی معاملات میں مداخلت کا نام دیا جا تا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں سب سوئے ہوئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ آزاد ملک نہیں بلکہ خدا نخواستہ کوئی ’’بنانا‘‘ اسٹیٹ ہے۔ انتخابات کی کوریج کے لیے غیر ملکی میڈیا کی ایک بہت بھاری تعداد پاکستان پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ میڈیا تو ایک طرف اب مختلف اور نت نئے ناموں سے این جی اوز اور سوشل سوسائٹی کے طور پر کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں کے لوگوں کا بھی تانتا بندھ رہا ہے۔ کیا ان تنظیموں سے منسلک لوگوں کو ویزے جاری کرتے ہوئے ان کی سکیورٹی کلیئرنس کرائی گئی ہے؟ جواب یقیناََ نفی میں ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ ایک بار پھر بغیر جانچے پرکھے تھوک کے حساب سے ویزے جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر جھانکنے کی اجازت نہ دینے والے غیر ملکی سفارتکار بالخصوص امریکہ اور برطانیہ تو اس حد تک مداخلت پر اتر آئے ہیں کہ انہوں نے یہاں تک کھوج لگانا شروع کردیا ہے کہ کن کن جماعتوں کے آپس میں اتحاد بن رہے ہیں؟ ’’ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں ہونے والے اتحاد کو نینا ماریا اور اسلام آباد سے آئی ہوئی امریکی سفارت خانے کی ایک ٹیم کے مسٹر رک نے سبو تاژ کیا۔ میڈیا اگر یہ معلومات فراہم کرے کہ کون کون سی سیاسی پارٹیاں کن کن نشستوں پر ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ کر رہی ہیں تو یہ ان کے فرائض میں شامل ہے‘ لیکن سفارت کاروں کو اس حد تک نہیں جا نا چاہیے۔ امریکہ کے ایک اعلیٰ وفد نے‘ جس میں سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینڈس،امریکی سفیر رچرڈ اولسن اور نینا ماریا شامل تھے‘ دو دفعہ مسلم لیگ نواز کے قائد ین میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان ملاقاتوں میں انہیں خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کرنے کا کہا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے لاہور میں تعینات سیاسی امور کی امریکی قونصلیٹ کو خصوصی پروٹوکول دینے کا حکم بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسا صرف ایک ہی ملک کی سیا سی امور کی سفارت کار کو کیوں؟۔ اور امریکی قونصلیٹ نینا ماریا کو دی جانے والی اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ماتحت سفارتی اہل کاروں کی طرف سے پنجاب کی اعلیٰ بیورو کریسی اور سیاسی لیڈران سے ان کے گھروں‘ فارم ہائوسوں اور ہوٹلوں میں علیحدگی میں ملاقاتوں کا اہتمام کیا جا نے لگا ہے۔ لاہور میں امریکی قونصلیٹ نینا ماریا، سیا سی کونسلر مائیکل گرے، پولیٹیکل ایڈ وائزر ظاہر شاہ درانی اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے خصوصی طور پر لاہور آئے ہوئے سیا سی امور کے ماہر مسٹر رک پنجاب کے مختلف حصوں میں مخصوص سیا ستدانوں سے رابطے کرنے کے علا وہ ان اضلاع میں تعینات اعلیٰ سول اور پولیس افسران کو بھی اعتماد میں لے رہے ہیں۔ اس وقت امریکی پولیٹیکل آفیسر کی رہائش گاہ پر ہونے والی سیا ستدانوں کی بے تحاشا ملاقاتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی الیکشن کمیشن کا دفتر ہے اور سب سے حیران کن اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان ملاقاتوں کی خبریں عوام سے چھپانے کے لیے دونوں طرف سے کوششیں کی جارہی ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved