غیظ و غضب میں ڈھلے لوگ سچّے بھی ہوں تو سرخرو نہیں ہو سکتے۔ یہ قرآنِ کریم کہتا ہے۔ صداقت شعاری ہی نہیں صبر و حکمت کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کے نقوشِ قدم کی پیروی کا۔ سنتے ہو‘ تحریکِ انصاف والو‘ سنتے ہو؟
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو پہ بہت سے ذہن الجھے پڑے ہیں۔ یہ ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ حقائق تلاش کرنے کی بجائے‘ جذباتی ردّ عمل۔ جو پسند ہو‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے‘ تب بھی تاویل تراشتے ہیں۔ جو نا پسند ہو‘ محو عبادت بھی ہو تو ہمارے لیے ریا کار۔
تمام انحراف علمی ہوتے ہیں اور فکری ہوتے ہیں۔ ہماری انا‘ ہمارے تعصبات‘ محبّت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتے۔ بارہا عرض کیا کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ جبلتوں کے حصار میں گھری‘ کسی منفی یا مثبت جذبے کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ صرف اللہ کی کتاب‘ صرف سرکارﷺ کی سیرت سے رہنمائی پا کر ہم نجات حاصل سکتے ہیں۔ پیہم خود احتسابی کے ذریعے‘ اس راہ پہ چل سکتے ہیں‘ قرآن کریم جسے صراط مسقیم کہتا ہے۔
ہر روز‘ ہر نماز میں‘ ہر رکعت میں ہم دعا مانگتے ہیں لیکن غور کبھی نہیں کرتے۔ ''ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان کا راستہ جن پہ تو نے کرم فرمایا نہ کہ ان کا جن پہ تیرا غضب نازل ہوا‘‘۔ کتاب کہتی ہے ''کسی گروہ کی دشمنی‘ تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ ناانصافی کرو۔ انصاف کرو‘ پرہیز گاری کا راستہ یہی ہے‘‘۔
وزیر اعظم کی تقریر میں تاریخی مقدمے کی گونج تھی‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جو ایک یہودی کے خلاف دائر کیا تھا۔ آپؓ کی زرہ اس کے پاس پائی گئی۔ میدانِ جنگ‘ غالباً صفین سے لوٹتے ہوئے‘ شب کی تاریکی میں شاید گر پڑی تھی۔
کارروائی شروع ہوئی تو امیرالمومنینؓ سے قاضی نے کہا کہ وہ گواہ پیش کریں۔ کارخانے میں ڈھلی‘ ایک زیرِ استعمال زرہ کون پہچان سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا مالک یا اہلِ خاندان اور دوست۔ امام حسنؓ اور امیرالمومنینؓ کا ایک خادم‘ گواہی دے سکتے تھے۔ قاضی نے کہا: صاحبزادے اور غلام کی گواہی شرعاً قبول نہیں۔ قاضی صاحب جانتے تھے کہ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ غلط بیانی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ اصول مگر اصول ہے اور قانون سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ چیز اس کی ہوتی ہے جس کے قبضے میں ہو‘ الاّ یہ کہ کوئی اپنی ملکیت ثابت کر دے۔ شک کا فائدہ دے کر یہودی کو بری کر دیا گیا۔
عدالت سے نکل کر چند قدم وہ چلا۔ یہ تو وہ جانتا تھا کہ زرہ اس کی نہیں۔ تب اس نے ایک عجیب بات کہی: اس طرح کے فیصلے تو انبیاء کے عہد ہی میں ہو سکتے ہیں۔ ملک کا حکمران‘ اپنے عہد کا نجیب ترین آدمی قانون کے سامنے اس قدر بے بس ہو۔ پھر اس قدر خوش دلی سے عدالت کا فیصلہ قبول کر لے؟ امیرالمومنینؓ کو اس نے پکارا اور اعتراف کیا کہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا۔ غالباً خلوص کی کوئی رمق‘ اس آدمی میں موجود تھی۔ خدا کی رحمت اسے گھیر لائی تھی۔ اس نے کلمہ پڑھا اور زرہ آپؓ کی خدمت میں پیش کر دی۔ بشاشت کی ایسی کیفیت میں‘ سخی نے وہی کیا‘ جس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تحفے کے طور پر زرہ نومسلم کو پیش کر دی۔ عدل کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ احسان چیز ہی ایسی ہے۔ اسی طرح زندگی سرخرو اور ثمربار ہوتی ہے۔
اب عملاً ہمیں انصاف سے کوئی تعلق ہے اور نہ رحم و کرم سے۔ اسی لیے ہماری زندگیاں ریگِ صحرا کی طرح بے وقعت ہیں۔ وہ صحرا جس میں کچھ نہیں اگتا‘ جس میں موت‘ ویرانی اور مایوسی کے سوا کوئی چیز نہیں پنپتی۔ جس میں کوئی دریا نہیں بس سراب ہی سراب ہیں۔
صدیاں گزریں‘ عدل‘ تحمّل اور تقویٰ کو مسلم معاشرے نے خیرباد کہہ دیا ہے۔ اب ہم جذبات اور ہیجان کے بندے ہیں۔ چیخنے چلّانے‘ الزام تراشی کرنے اور حریف کو پامال کرنے پر تلے ہوئے۔ اسی لیے ہم پسپا اور پامال ہیں۔
وزارتِ خارجہ کا موقف‘ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا موقف ہے۔ یوں تو سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ‘ مائیک پومپیو اور عمران کے درمیان ہونے والی گفتگو کی براہ راست شاہد ہیں۔ ظاہر ہے کہ قاعدے اور قانون کے مطابق اسی لیے گفتگو میں گواہ سرکاری افسر کو بنایا جاتا ہے کہ کوئی الجھن پیدا ہو تو وہ مددگار ثابت ہو سکے۔ باایں ہمہ وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر یہ بیان جاری نہ ہو سکتا تھا۔
ہماری حکومت کہتی ہے کہ امریکی دفتر خارجہ نے جو بیان جاری کیا‘ حقائق سے مختلف ہے۔ دفتر خارجہ کے پاکستانی ترجمان کے بعد‘ خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی یہی بات کہی۔
عجیب بات ہے کہ ہمارے‘ میڈیا کے بعض بزرجمہر اس بات کو لے اڑے۔ کسی شہادت‘ کسی ثبوت اور قرائن و شواہد کے بغیر‘ اپنی ہی حکومت کو وہ قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ اسے جھوٹ کا مرتکب کہتے ہیں یا یہ کہ پاکستان کو یہ جسارت نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں نہیں کرنی چاہیے؟ ایک بات اگر غلط ہے اور شائستگی سے اس کی نشاندہی کی جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ امریکیوں کا کھیل ہی یہ ہے کہ نفسیاتی دبائو ڈال کر ناجائز مطالبات پاکستان سے منوائے جائیں‘ خاص طور پر افغانستان میں۔ امریکی جنرل ناکام ہیں‘ قصوروار ہمیں ٹھہراتے ہیں۔ تاریخ میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی قوم نے ایک جنگ جیت کر کسی دوسری قوم کو دی ہو؟ تاریخی شعور سے بے بہرہ بزدل امریکی افغانستان کو فتح نہیں کر سکتے۔ دلوں اور دماغوں کو تو ہرگز نہیں۔ ہمیں وہ بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عشروں سے اقتصادی طور پہ انحصار پذیر‘ ہم ان سے لڑ نہیں سکتے۔ مگر بلیک میل بھی کیوں ہوں؟
مزید برآں حبِّ وطن کا تقاضا کیا ہے؟ ایسے میں اپنی حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں یا اسے ہدف بنایا جائے؟ یہ سوال آج اس ناچیز نے سوشل میڈیا پہ اٹھایا۔ خیر‘ اس کی تو سینکڑوں لوگوں نے تائید کی لیکن پھر وہی مسئلہ۔ حکومت سے اختلاف کرنے والے اخبار نویسوں‘ طلعت حسین‘ ابصار عالم‘ حتیٰ کہ سلیم صافی کے لیے گالی گلوچ کا طوفان‘ جس کا کوئی تعلق ہی اس معاملے سے نہیں۔
ایک صاحب نے لکھا: ایک طرف تو ان لوگوں کے موقف کو آپ غلط قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ان کی مذمت کرنے سے ہمیں روکتے ہیں۔ عرض کیا: میری نظر میں ایک موقف اگر نا درست ہو تو اسے غلط ثابت کرنے کے لیے دلیل دی جاتی ہے۔ کبھی لہجہ سخت بھی ہو سکتا ہے‘ مگر گالی کا کیا مطلب؟ دشنام اور الزام سے کیا حاصل؟ اللہ کی کتاب میں یہ لکھا ہے: جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ جو جیا وہ دلیل سے جیا۔
ابصار عالم کا معاملہ مختلف ہے۔ نون لیگ سے ان کے تعلقات کی نوعیت اور مالی معاملات کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں؛ اگرچہ کھری تحقیق اور تفتیش ہی سے سچائی کا تعین ممکن ہے۔ رہے طلعت حسین اور سلیم صافی‘خال ہی ان کی رائے سے اتفاق ہوتا ہے۔ یہ بہرحال صریح غلط بیانی ہے کہ وہ شریف خاندان کے کارندے ہیں‘ یا یہ کہ نون لیگ ان کی مالی سرپرستی فرماتی ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا اللہ‘ یوم آخرت‘ اللہ کے آخری پیغمبرؐ اور قرآنِ کریم پر کیا واقعی ہمارا ایمان ہے؟ اگر ہے تو کبھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا ہمیں خیال کیوں نہیں آتا؟ ہم سب خطا کار ہیں۔ لیکن اس ڈھٹائی سے ایک غلط راستے پہ چلتے چلے جانا؟
لگتا ہے کہ عمران خان مدنی ریاست کی جب بات کرتے ہیں تو ان کی مراد صرف سماجی اور معاشی انصاف ہوتا ہے۔ اس کی روحانی جہت پہ کبھی انہوں نے غور کیا ہی نہیں۔
مدینہ کی ریاست ہمہ جہتی علمی‘ اخلاقی اور روحانی تربیت کی پیداوار تھی۔ وہ اہل توکل جن کے قول و فعل میں ہرگز کوئی تضاد نہ تھا۔ اپنے دشمنوں سے بھی جو انصاف کر سکتے تھے۔ یہی نہیں ان پہ عنایات کر سکتے تھے۔
غیظ و غضب میں ڈھلے لوگ سچّے بھی ہوں تو سرخرو نہیں ہو سکتے۔ یہ قرآنِ کریم کہتا ہے۔ صداقت شعاری ہی نہیں وہ صبر و حکمت کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کے نقوشِ قدم کی پیروی کا۔ سنتے ہو‘ تحریک انصاف والو‘ سنتے ہو؟