تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-08-2018

غلام عباس کھاکھی، ایک اور دوست کی رخصتی

بہت سے دوستوں کے بارے میں قطعاً یاد نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی اور کیسے ہوئی۔ بس ایک دن پتا چلا کہ وہ ہمارے دوست بن چکے ہیں۔ لیکن عباس کھاکھی سے پہلی ملاقات ایسے یاد ہے کہ گویا چار چھ دن پہلے ہوئی ہو حالانکہ اس سے آخری ملاقات ہوئے بھی اب تو پچیس روز گزر چکے ہیں۔
سن تاریخ کچھ یاد نہیں۔ تاریخوں کے معاملے میں تو میں ایسا فارغ ہوں کہ بس اپنی مثال آپ ہوں؛ تاہم یہ کم از کم پچیس سال پرانی بات ضرور ہو گی۔ نوے کی دہائی کے اولین سال۔ سن انیس سو بانوے یا شاید ترانوے ۔ یا اس کے ایک آدھ سال آگے پیچھے۔ میں خالد کھوکھر کے گھر داخل ہوا تو سامنے برآمدے کے باہر خالد کھوکھر کے ساتھ ایک دو دوستوں کے ہمراہ ایک اور شخص بھی کھڑا تھا۔ ہاتھ میں بارہ بور کی پمپ ایکشن بندوق۔ مجھے دیکھتے ہی خالد کھوکھر نے نعرہ لگایا: اوہ آیا! مجھے تو سمجھ آ گئی کہ نعرہ کیوں لگایا گیا ہے مگر اس کو غالباً معاملہ سمجھ نہ آیا جو ہاتھ میں بندوق پکڑے کھڑا تھا۔ خالد نے اسے کہا کہ بندوق اس کو پکڑائو‘ اور میری طرف اشارہ کیا۔ پھر کہا کہ یہ بندوق پاس کرے گا تو بات بنے گی وگرنہ بندوق باہر سڑک پر پھینک دیں گے۔ یہ امریکن ساختہ ''موشبرگ‘‘ کی چھوٹی نالی والی پمپ ایکشن بندوق تھی۔ سیلف ڈیفنس کے لیے نہایت ہی شاندار ہتھیار۔
میں نے بندوق کو تعریفی نظروں سے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑ کر اچھی طرح جائزہ لیا۔ اس میں لیزر بھی لگی ہوئی تھی۔ سچی بات ہے‘ میں نے لیزر لگی بارہ بور کی پمپ ایکشن گن پہلی بار فزیکلی دیکھی تھی۔ ایسی بندوقوں بارے ''گن ڈائجسٹ‘‘ میں آرٹیکلز ضرور پڑھے تھے‘ تصویریں دیکھی تھیں‘ اور ان کے بارے میں آگاہی بھی تھی مگر اس طرح ہاتھ میں پکڑنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ یہ بندوق امریکہ سے لائی گئی تھی۔ یہ گیارہ ستمبر سے کہیں پہلے کا واقعہ ہے۔ تب امریکہ سے لوگ کسی نہ کسی طرح بندوقیں، پستولیں یا رائفلیں لے آتے تھے۔ میں نے ساتھ کرسی پر پڑے ہوئے کارتوسوں کے ڈبے میں سے تین کارتوس نکالے۔ بغیر پوچھے بندوق میں لوڈ کیے اور سامنے والے درخت پر لیزر سے نشانہ لے کر ایک فائر کیا اور پھر دوبارہ اندازے سے نشانہ لے کر (اندازہ اس طرح کہ بندوق کی آنکھ سے شست لیے اور کندھے کے برابر لائے بغیر) ایک فائر کیا اور پھر دوسرا۔ یہ دونوں فائر بھی عین اسی جگہ لگے جہاں لیزر سے نشانہ لے کر پہلا فائر کیا تھا۔ بندوق کے مالک نے میرے نشانے کی اور میں نے بندوق کی تعریف کی۔ یہ عباس کھاکھی سے میری پہلی ملاقات تھی۔
تب عباس کھاکھی ضلع کونسل کا ممبر تھا۔ وہ پہلی بار 1987 ء میں ضلع کونسل ملتان کا ممبر بنا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ وہ جتنی بار بھی ضلع کونسل کا الیکشن لڑا کامیاب ٹھہرا۔ دوستوں نے اس کا نام ''سدا بہار ممبر ضلع کونسل‘‘ رکھ دیا۔ عباس کا گھر جلالپور پیروالہ اور شجاع آباد کے درمیان پل کھارا پر تھا۔ رقبے کے اعتبار سے یقیناً وہ کوئی بڑا زمیندار نہ تھا اور چاروں طرف سے بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں میں گھرا ہوا تھا۔نون ، لانگ، دیوان، رانے اور سید‘ وہ ان تمام بڑے ناموں اور اونچے گھروں کے درمیان اپنا ذاتی سیاسی مقام بنائے ہوئے تھا اور سارا سیاسی قد کاٹھ اس کا ذاتی بنایا ہوا تھا اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے اس نے ذاتی طور پر بڑی جدوجہد کی تھی۔1993 ء میں اس نے پہلی بار ضلع کونسل کے بجائے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ اس الیکشن سے ملک غلام عباس کھاکھی کی صوبائی اور قومی سطح پر انتخابی سیاست کی ابتدا ہوئی اور ایک طویل سیاسی جدوجہد کا آغاز بھی۔ ایسی جدوجہد جو مسلسل ناکامی کی ایک ایسی داستان ہے جو عشروں پر محیط ہے۔ لیکن یہ ناکامیاں نہ تو اس کا راستہ روک سکیں اور نہ ہی وہ خود ان سے مایوس ہوا۔ بڑے بڑے سیاسی خانوادوں سے سر ٹکرانا شاید اب اس کا مشغلہ بن گیا تھا۔ کبھی وہ ڈیڑھ ہزار ووٹ سے ناکام ہوا اور کبھی تین ہزار ووٹ سے‘ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے اپنی شکست کا الزام دھاندلی پر دھرا ہو یا اپنی ہار کا ملبہ سسٹم پر ڈالا ہو۔ ہر بار وہ یہی کہتا کہ میں نے تو کوئی کمی نہیں چھوڑی‘ تاہم فی زمانہ سیاسی کلچر کے مطابق شاید میں اتنے پیسے نہیں خرچ سکتا جتنے پیسے میرے مخالف امیدوار خرچ کر سکتے تھے۔ وہ ہر بار اپنی ہار کا جائزہ لیتا اور ہر بار ہی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اپنی شکست کا سبب بتاتا۔ کبھی کبھار وہ ووٹروں کے شعور پر بھی طنز کرتا‘ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس نے دھاندلی کو مورد الزام ٹھہرایا ہو۔ اگر زور زبردستی سے ووٹ ڈلوانے کی بات کرتا تو کہتا اب یہی سیاسی کلچر ہے اور جو یہ نہیں کر سکتا اسے رونا نہیں چاہیے۔ یا اس کا توڑ کرنا چاہیے یا الیکشن لڑنا چھوڑ دینا چاہیے۔ جب تک سسٹم ٹھیک نہیں ہوتا اسی ماحول اور انہی حالات میں الیکشن لڑنا ہوگا۔ وہ محدود وسائل اور برے حالات میں بھی میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔
ضلع کونسل کی سیٹ اس نے اپنے بھائی کے سپرد کر دی تھی اور خود صوبائی اور قومی الیکشنوں میں زور آزمائی کرنا شروع کر دی۔ اس نے پہلا الیکشن چیئر مین یونین کونسل 1983ء میں لڑا اور جیتا۔ دو بار ضلع کونسل کا ممبر رہا پھر یہ سیٹ ذوالفقار کھاکھی کے سپرد کر دی۔ اس نے زندگی میں یونین کونسل اور ضلع کونسل کے علاوہ چھ الیکشن لڑے۔ 1993ء میں ایم این اے کا۔ 1997ئ، 2002ئ، 2008ء اور 2013ء میں لگاتار چار الیکشن ایم پی اے کے لڑے۔ 2016ء میں پی ٹی آئی کی طرف سے جلالپور پیروالہ ملتان VI سے ایم این اے کا ضمنی الیکشن لڑا۔ وہ ان چھ کے چھ انتخابات میں مسلسل ناکام ہوا لیکن کبھی حوصلہ نہ چھوڑا۔ ہم سب دوست اسے ہر بار ہارنے کے بعد چھیڑتے تھے مگر وہ کبھی مایوس دکھائی نہ دیا‘ حتیٰ کہ 2018ء کا الیکشن آ گیا۔ وہ پی پی 222 پر پی ٹی آئی کا امیدوار تھا۔ ہم دوستوں نے اسے آخری نوٹس دیا کہ یہ اس کا آخری الیکشن ہے اور اگر وہ اس میں بھی ناکام ہو گیا تو ہم اس سے اشٹام پیپر پر بیان حلفی لیں گے کہ وہ آئندہ کبھی الیکشن نہیں لڑے گا۔ وہ ہماری اس بات پر ہنستا رہا اور اس نے وعدہ کر لیا کہ اگر وہ ہار گیا تو آئندہ الیکشن نہیں لڑے گا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
میری اس سے پہلی ملاقات خالد کھوکھر کے گھر ہوئی تھی اور بندوق اس میں اہم چیز تھی۔ میں حسب معمول اس بندوق پر ''پسر‘‘ گیا۔ اس سے اس بندوق کے حوالے سے بڑا شغل لگتا تھا۔ وہ جب بھی اور جہاں بھی ملتا‘ گفتگو کا آغاز بندوق سے ہوتا۔ وہ ہر بار یہی کہتا کہ اس بارے کسی دن بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔ پھر ایک ''رولے‘‘ میں یہ بندوق ضلع میانوالی کے کسی تھانے کا تھانیدار اٹھا کر لے گیا۔ ایک دو سال کی تگ و دو کے بعد عباس یہ بندوق واپس لے آیا۔ میں نے اسے کہا کہ کیا میں اس تھانیدار سے بھی برا ہوں؟ عباس نے وہ بندوق مع لائسنس میرے پاس رکھوا دی۔ دو سال بعد وہ واپس لے گیا اور وعدہ کیا کہ اس کا فیصلہ جلد کر لیں گے کہ کس نے رکھنی ہے۔ یہ ایک مسلسل موضوع تھا اور سب دوست اس سے لطف لیتے تھے۔ 
پچیس جولائی کو وہ پچیس سال میں مسلسل چھ الیکشن ہارنے کے بعد اپنے آبائی حلقے سے بڑے مارجن سے جیتا۔ تین اگست کو خالد کھوکھر کے ہاں اس کی کامیابی کی خوشی میں کھانا تھا۔ ہم دس بارہ دوست اکٹھے تھے۔ کھانا کھانے کے دوران میں نے اسے دو مبارکیں دیں۔ وہ پوچھنے لگا دو کس بات کی۔ میں نے کہا: پہلی تمہاری کامیابی کی اور دوسری یہ کہ تم الیکشن نہ لڑنے والا اشٹام پیپر لکھنے سے بچ گئے ہو۔ سب دوست ہنسنے لگ گئے۔ اٹھتے ہوئے میں نے کہا :کھاکھی! اب بندوق والا معاملہ طے ہونا چاہیے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا: جلدی کیا ہے؟ اگلی ملاقات میں اس پر بات کریں گے اور کچھ نہ کچھ طے کر لیں گے۔ یہ اس سے آخری ملاقات تھی۔
پہلی ملاقات کہیں 1993ء میں خالد کھوکھر کے گھر ہوئی اور آخری ملاقات بھی تین اگست کو خالد کھوکھر کے گھر ہی ہوئی۔ حالانکہ ہم نے آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا اشٹام بھی نہیں لکھوایا تھا مگروہ ہمیشہ کے لیے الیکشن کی سیاست چھوڑ گیا۔ اس کا جنازہ جلالپور کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا جنازہ تھا۔ جتنے اسے ووٹ ملے تھے اس سے بھی کہیں زیادہ لوگوں نے اسے دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا رب مخلوق کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشے گا۔ اس کے ہاں دعا ضائع نہیں جاتی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved