تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     26-08-2018

اٹل بہاری واجپائی

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرکردہ رہنما اور اپنے ملک کے تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے والے اٹل بہاری واجپائی چند دن پیشتر انتقال کر گئے۔ ان کی سیاسی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی موت کا سوگ منانے والوں میں صرف ان کی پارٹی ممبران یا بھارت میں ان کے مداح ہی شامل نہیں تھے، بلکہ جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس عظیم سیاستدان کی موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے پاکستان کی نگران حکومت کے نمائندے اور وفاقی نگران وزیر قانون علی ظفر نئی دہلی پہنچے، جہاں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ملاقات کی۔ ان کی موت پر اظہار افسوس کرنے والوں میں وزیراعظم عمران خان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی شامل تھے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں واجپائی کی موت پر کئے جانے والے افسوس کی وجہ یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کا لیڈر ہونے کے باوجود واجپائی اعتدال پسند اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنما تھے۔ وہ اگرچہ آر ایس ایس کے رکن بھی رہے اور رام مندر کی تعمیر اور بھارت میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے حق میں تھے۔ اس کے باوجود انہیں بی جے پی کے علاوہ دیگر سیاسی حلقوں میں بھی احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ ایک دانشور اور شاعر ہونے کے علاوہ سحر انگیز مقرر بھی تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے بی جے پی ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں ملک کی ایک بڑی پارٹی بن گئی جس نے کانگرس کو بھی بالآخر شکست دے دی۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی آج جس پارٹی (بی جے پی) کے بل پر بھارت کی مرکزی اور بیشتر ریاستوں پر حکومت کر رہے ہیں اسے اس مقام تک لانے میں اٹل جی کا بہت بڑا کردار ہے۔ 2002ء میں جب بھارت کی ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے، تو واجپائی ریاست کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم مودی کو معزول کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 2014ء کے انتخابات میں وہ نریندر مودی کی بطور وزیراعظم نامزدگی کے خلاف تھے۔
پاکستان کے حوالے سے ان کی اہم خدمات دہلی لاہور بس سروس کا اجرا اور فروری 1999ء میں اسی بس سے دہلی سے امرتسر تک سفر کرنے کے بعد لاہور آمد تھی۔ اس وقت میاں محمد نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ لاہور میں دونوں رہنمائوں کی ملاقات اور فریقین کے درمیان بات چیت کے نتیجے میں تاریخی اعلان لاہور جاری کیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ تنازعات بشمول کشمیر کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کا عہد کیا۔ بھارت کے مشہور کالم نویس کلدیپ نیئر کے مطابق لاہور میں ناشتے کی میز پر نوازشریف اور واجپائی کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے ایک روڈ میپ پر اتفاق ہوگیا تھا، جس کے تحت واجپائی کی وطن واپسی کے بعد دہلی اور اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان بات چیت کا انعقاد ہونا تھا۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک کے مطابق اس روڈ میپ کے مطابق ستمبر 1999ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مستقل حل پر اتفاق کی امید کی جا رہی تھی، لیکن مئی 1999ء میں پاکستان کے اس وقت کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل مشرف کی جانب سے کارگل میں فوجی آپریشن کی وجہ سے سارا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ واجپائی نے کارگل آپریشن کو بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ تاہم کارگل آپریشن سے پیدا ہونے والی تلخیوں اور بدگمانیوں کے باوجود 2003ء میں اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور دوستی کیلئے ایک اور پیش کش کی گئی۔ 18 اپریل 2003ء کو سری نگر میں انہوں نے ایک تاریخی تقریر کی جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو کشمیریت یا انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی تجویز پیش کی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل مشرف صدر اور میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے۔ ان کی طرف سے واجپائی کی پیش کش کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ وزیراعظم جمالی نے تو فوری طور پر تین شعبوں یعنی سپورٹس، تجارت، ثقافت اور عوامی سطح پر رابطوں میں پیش قدمی کی تجویز پیش کر دی۔ اٹل بہاری واجپائی اور بھارت کے دیگر رہنمائوں میں یہ فرق تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات میں کشمیر کی مرکزیت کو تسلیم کرتے تھے۔ پاکستان کی ایک معروف صحافی نسیم زہرہ کے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا : اب تک یہ مسئلہ اسی لئے حل نہیں ہوا کہ اس پر کبھی ''جم کر‘‘ بات نہیں کی گئی۔ واجپائی کی سری نگر کی تقریر کے بعد نومبر 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے آر پار سے دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ ختم کر کے امن اور سکون قائم کرنے کا وہ تاریخی معاہدہ ہوا جسے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے کامیاب اعتماد سازی کا اقدام (CBM) قرار دیا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک لائن آف کنٹرول پر امن رہا اور اس کے دونوں طرف رہنے والوں نے سکھ کا سانس لیا۔
واجپائی کی سری نگر تقریر اور لائن آف کنٹرول پر قیام امن کے معاہدے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا فوری طور پر آغاز نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں طرف سے ان مذاکرات کے احیا کو مشروط بنایا جا رہا تھا۔ پاکستان کی طرف سے شرط تھی کہ پہلے کشمیر پر بات ہوگی اور اس کے بعد دیگر معاملات مثلاً تجارت اور آنے جانے کی سہولتوں پر معاہدوں کی بات ہوگی۔ تاہم جنوری 2004ء میں جب واجپائی جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کی 12 ویں سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے تو مشرف کے ساتھ ملاقات میں یہ تعطل بھی ختم ہوگیا۔ 6 جنوری 2004ء کو دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ اعلان جاری کیا، جس میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کی صورت میں پاک بھارت امن مذاکرات کے سلسلے کو شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ مذاکرات مارچ 2004ء میں شروع ہوئے اور ماہرین، سیکرٹریوں اور وزیر خارجہ کی سطح تک مئی 2008ء تک اس کے چار رائونڈ ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوئی، تجارت میں اضافہ ہوا، دونوں ملکوں میں سفری سہولتوں میں آسانی پیدا ہوئی، ریل اور روڈ کے نئے روٹ کھل گئے۔ ان میں تھر پارکر ریلوے اور مظفر آباد، سری نگر بس سروس قابل ذکر ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تقسیمِ ہند کے بعد پہلی مرتبہ لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا آغاز ہوا۔ 
اٹل بہاری واجپائی اپنی امن کوششوں کی وجہ سے پاکستانی اور بھارتی عوام میں ہی مقبول نہیں تھے بلکہ کشمیری عوام بھی ان کے ممنون احسان ہیں کیونکہ وہ پہلے بھارتی رہنما تھے جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کیلئے انہوں نے کشمیری عوام کی نمائندہ جماعت آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ 2005ء میں انہیں پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورہ کرنے کی بھی اجازت دی۔ اس سے مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے رہنمائوں سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف رابطوں میں وسعت پیدا ہوئی بلکہ دونوں ملکوں میں اعتماد بھی بڑھا، اور آہستہ آہستہ ایسی فضا پیدا ہو رہی تھی جو پاک بھارت تنازعات بشمول کشمیر کے حتمی حل کیلئے ساز گار ثابت ہوسکتی تھی۔
اٹل بہاری واجپائی ایک ویژنری لیڈر تھے۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن ،دوستی اور تعاون کے بغیر اپنے ملک اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی ویژن کو عملی جامہ نہیں پہنا سکیں گے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے نہ صرف 1999ء میں پاکستان کا دورہ کیا بلکہ مینار پاکستان پر حاضری بھی دی۔ اس سے قبل جب 1970ء کی دہائی میں جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے تو بھی وہ پاکستان تشریف لائے تھے اور حکومت پاکستان کو پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ بھارت کو راہداری کی سہولت کی درخواست کی تھی۔ اس وقت پاکستان نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی، لیکن آج ترکمانستان، افغانستان پاکستان اور انڈیا (TAPI) کی شکل میں گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے میں پاکستان کے ساتھ بھارت کی شرکت ان کے ویژن کی ایک عملی شکل کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved