تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     26-08-2018

عید کے بعد

مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خوشی کے دو تہوار عطا فرمائے ہیں‘ جن میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر بڑی تعداد میں مسلمان جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بکرے‘ چھترے‘ گائے اور اونٹ کو بڑے ذوق وشوق سے خریدا جاتا اور بعد ازاں اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں قربان کیا جاتا ہے۔ قربانی کی ایک لمبی تاریخ ہے اور ہر اُمت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قربانی کو مقرر کیاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قربانی کی تاریخ میں ایک منفرد اور انقلابی رنگ بھرنے والی شخصیت ہے۔ آپ ؑپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج میں باقاعدہ طورپر ارشاد فرمایا:''تم (قائم رہو)اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کردار ہر اعتبار سے ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے جوانی میں بت کدے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ ڈالا۔ اور اتمام حجت کے لیے ایک بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ بستی والے جب بت کدے میں آئے تو انہوں نے بتوں کو ٹوٹے ہوئے دیکھا تو اُن کے ذہن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خیال آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا اور ان سے اس بارے استفسار کیا گیاتو آپ علیہ السلام نے اس موقع پر الزامی جواب دیتے ہوئے کہا ''ایسا کرنے والا بڑا (بت)ہو گا اور ان سے پوچھ لو اگریہ بات کر سکتے ہیں۔ ‘‘ بستی والے جانتے تھے کہ بتوں کے پاس قوت گویائی نہیں ہے‘ چنانچہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بات کہی کہ آپ کو پتا ہے کہ یہ بولنا نہیں جانتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسے عالم میں توحید کی وضاحت کی اور ان کے باطل عقیدے کے تاروپود کو بکھیر کر رکھ دیا اور ان کو شرم دلاتے ہوئے کہا: تم پر اُف ہے‘ تم اللہ تعالیٰ کے سوا اِن کو کیوں پوجتے ہو ‘کیا تم عقل نہیںرکھتے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحید کے ساتھ وابستگی اور بتوں کے ساتھ عداوت کو ایک جرم قرار دیا گیا اور اس جرم کی پاداش میں آپ کو بڑھکتی ہوئی آگ میں اتارنے کا فیصلہ کیاگیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بڑھکتی ہوئی آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے گل وگلزار بنا دیا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام اجرام سماویہ کی پوجا کا بھی ردّ کیا اور سورج ‘ چاند‘ ستاروں کے ڈوب جانے اور زوال پذیر ہوجانے کے بعد اس امرکا اعلان فرما دیا بے شک میں نے رخ کیا‘ اپنے چہرے کا‘ اس ذات کے لیے‘ جس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے‘یکسو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دربار نمرود میں بھی صدائے توحید کو بلند فرما دیا اور نمرود کو یہ بات کہی کہ میرا رب وہ ہے‘ جو مارتا بھی اور زندہ بھی کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جملے کا مقصود اور مطلوب یہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی پیدا کرنے والے اور مارنے والے ہیں۔نمرود نے آپ علیہ السلام کی بات کی غلط تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ‘ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اُتار دیااور ایک موت کے مستحق کو آزاد کر دیا اور کہا میں بھی مارتا اور زندہ کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی تاویل باطل سے سمجھ گئے کہ یہ بستی والوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُس موقع پر یہ بات کہی کہ پس بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تو سورج کو مغرب سے لے کر آ! تو کافر کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء نے اپنی بستی والوں کو مخاطب ہو کر یہ بات بھی کہی تھی کہ ہم تم سے بھی برأ ت کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سواپوجا کرتے ہو ‘ ہم تمہارا انکار کرتے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض کی بنیادیں ڈل چکی ہیں ؛حتیٰ کہ تم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان نہیں لے آتے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی اور اس کی وحدانیت کے لیے نہ صرف یہ کہ دباؤ کا مقابلہ کیا‘ بلکہ جب بھی کبھی اللہ نے آپ کو پیار اور محبت کے حوالے سے آزمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش پر بھی پورا اترے۔ آپ نے حضرت ہاجرہ کو اللہ کے حکم پر وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا ۔ آپ نے نہ تو اپنے نوزائیدہ بچے کی پروا کی اور نہ ہی حضرت ہاجرہ سے اپنی رفاقت کی پروا کی۔ اللہ نے آپ کواس امتحان میں بھی کامیاب فرما دیا اور اس ویرانے میںسیدہ ہاجرہ کے لیے چاہ زم زم کو جاری فرما دیااور آپ کی رفاقت کے لیے وادیٔ بے آب وگیاہ میں ایک قبیلے کو بھی آباد فرما دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دوبارہ تشریف لائے تو آپ نے سیدہ ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ویرانے کی بجائے ایک تکریم والے شہر میں آباد پایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل خانہ کے حال واحوال دریافت کرنے کے لیے گاہے بگاہے تشریف لاتے رہے۔ جب سیدنا اسماعیل علیہ السلام کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے‘ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا گیاکہ آپ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری کو چلا رہے ہیں۔ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے استفسار کیا کہ اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تیرے گلے پر چھری کو چلا رہا ہوں‘ پس تو دیکھتا ہے تیرا کیا خیال ہے ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو جواب دیا: اے میرے بابا! آپ اس چیز پر عمل کر گزریے‘ جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ا نشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو لٹایا اور آپ کے گلے پر چھری کو چلانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ندا دی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا فرما دیا ۔ اللہ نے جنت کے مینڈھے کو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر قربان فرما دیا۔
سیرت ابراہیم علیہ السلام عبدا ور معبود کی لازوال اور والہانہ محبت کا ایک خوبصورت باب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اللہ کے بندوں کو ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ وتیار ہو جانا چاہیے۔ آج جب ہم جانوروں کو ذبح کرتے ہیںتو ہمیں اس بات پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اخلاص اور عبادت کے اُس جذبے سے سرشار ہو کر جانوروں کو ذبح کر رہے ہیں‘ جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ جانور کی خریداری کا ایک بڑا مقصد اپنی مالی اور سماجی حیثیت کا اظہار ہے۔ لوگ اللہ کی رضا کی بجائے گردوپیش کے لوگوں پر اپنی مالی حیثیت کا رُعب جمانے کے لیے بڑے بڑے جانوروں کو لے کر آتے ہیں اور ذبح کرنے کے بعد بھی غریبوں کی ہمدردی کے احساس سے عاری رہتے ہوئے گوشت کا بیشتر حصہ ریفریجریٹر زاور فرجوں میں ڈال کر ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور جب عید قربان کے موقع پر کسی دعوت کا انعقاد کیا جاتا ہے ‘تو اس دعوت میں بھی صاحب ِاثرورسوخ اور نامور لوگوں کو بلایا جاتا ہے ‘ اور غریبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 
قربانی عہد حاضر میں فقط خون بہانے اور گوشت کاٹنے کا نام ہے‘ جبکہ اللہ نے سورہ حج میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ '' ہرگز نہیں پہنچتااللہ تبارک وتعالیٰ کو ان کا گوشت اور خون اور‘ لیکن ا س کوپہنچتا ہے تقویٰ تمہاری طرف سے ۔‘‘ہمیں عید قربان سے حاصل ہونے والے درس کو اس انداز سے اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے پر آمادہ وتیار رہیں اور اس کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے اپنی پوری زندگی کو اس کی تابعداری اور اس کے حکموں کے مطابق گزارنے والوں میں شامل ہو جائیں۔اگر ہم نے ایسا کیا تو قربانی کو روح کو پالیا او اگر ایسا نہ کیا تو قربانی کو فقط ایک رسم سمجھا اور اس کی اصل روح کو پانے میں ناکام ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیںصحیح معنوںمیں بصیرت والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved