تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-08-2018

مجوزہ سواں ڈیم

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور میڈیا سمیت ہر کوئی ملک بھر میں پانی اور بجلی کی کمی کا ذکر کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب ‘مخالفین کی بے جا تنقیدکو نظر انداز کرتے ہوئے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے درکار بھاری فنڈز کیلئے اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔دوسری طرف ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ بھارتی اثر و رسوخ تلے ورلڈ بینک سمیت تمام مالیاتی اداروں نے بھاشا ڈیم کے لیے قرضہ اور مالی امداد دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اب ہمارے سامنے یہی ایک راستہ رہ گیا ہے کہ ہم اپنے ملک کے ایک ایک فرد سے اس کیلئے مدد مانگیں‘ لیکن یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہو گی۔بھاشا ڈیم کی بات کی جائے‘ تو اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم پوٹھو ہار میں '' مجوزہ سواں ڈیم‘‘ پر کام شروع کر دیں‘ تو اس پر ایک تو ہماری لاگت بھی کم آئے گی اور دوسرا ورلڈ بینک سمیت کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے کو اس کے لیے امداد دینے میں کوئی اعتراض بھی نہ ہو گا‘لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا‘ جب وزیر اعظم عمران خان سمیت ‘ وطن عزیز کی معزز عدلیہ ملک میں پانی ا ور بجلی کے خوفناک بحران اور مستقبل میں غذائی کمی کوپورا کرنے کیلئے واقعی ہی سنجیدہ ہوں۔ پاکستان میں سیلابی پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بہترین مقام پوٹھو ہار میں وادیٔ سواں ہے۔ یہاں 38-48 ملین ایکڑ فٹ پانی سما سکتا ہے‘ جو کہ تربیلا‘ کالا باغ ڈیم اور دیامر بھاشا کے ذخیروں سے آٹھ گنا بڑا ہے۔ تلہ گنگ سے ڈھلیاں کے درمیان ڈھوک پٹھان کے قریب منگلا ڈیم جتنی بڑی سد تعمیر کرکے یہ ذخیرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے‘ جس سے پاکستان کی تقدیر بدل کر رہ جائے گی۔تربیلا سے سرنگوں اور غازی بروتھا‘ جیسی معمولی زیادہ ڈھلوان کی نہر سے پانی منتقل کیا جائے گا ۔سواں ڈیم سے چونکہ ٹیکنیکل طور پر کوئی نہر نہیں نکل سکتی‘ اس لیے اسے تربیلا کی توسیع بھی کہہ سکتے ہیں۔
جولائی تا ستمبر پاکستان کا ہر صوبہ جتنا چاہے‘ اپنے حصے کے پانی کا رخ تربیلا سے اس ذخیرے کی طرف موڑ لے ‘اس سے ایک طرف پشاور میں سیلابی پانیوںکا نکاس بہتر ہو جائے گا ‘تو دوسری طرف زیریں پنجاب اور سندھ میں انتہائی درجے کے سیلابوں کا مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا‘اسی طرح بلوچستان میں ناڑی ‘بولان‘ خیبر پختونخوا میں وارسک سے پرے‘ سندھ میں بھٹ شاہ گیس فیلڈ کے قریب‘ دریائے ناڑا پر ساون کے مقام پر اور پنجاب میں روہتاس کے قریب ‘ذخیرہ آب کے بڑے بڑے منصوبے بن سکتے ہیں ‘جو علا قائی سیلابوں کا رخ موڑنے کے ساتھ ساتھ آ بپاشی اور پن بجلی میں مدد دیں گے۔علاوہ ازیں ہائی وارسک ڈیم کی جھیل کو بارہ میل دور منڈا ڈیم سے سپل وے سرنگ کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ان ذیلی منصوبوں کا مجموعی حجم بھی چالیس ملین ایکڑ فٹ سے بھی زیا دہ بآ سانی بڑھ سکتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ اس سے صوبوں کی حسب ِضرورت محفوظ علا قائی ذخیروں کا متبادل موجود ہے۔
ایک با وثوق اطلاع کے مطا بق۔فیلڈ مارشل ایوب خان کی ہدایت پر 1960ء میں ورلڈ بینک نے اس پر فزیبلٹی سٹڈی بھی تیار کی تھی‘ جو واپڈا کے ریکارڈ میں ہونی چاہئے ‘ جسے اب نئے حالات میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔58 برس قبل اگرچہ تربیلا سے سرنگوں کا بنانا بہت مہنگا اور کٹھن کام تھا‘ لیکن اب جدید ترین تکینیک کی وجہ سے TBM سے متعلقہ پراجیکٹس کیلئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں رہ گیا ۔ پاکستان کا ایک ہونہار سپوت انجینئر انعام الرحمن جو حالات سے دل برداشتہ ہو کر کینیڈا منتقل ہو چکا ہے اور جنہیں عمران خان بہت اچھی طرح جانتے بھی ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ صرف6 بلین ڈالر کی لاگت سے مجوزہ سواں ڈیم سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی اگلے چار سال میںحاصل کر سکتے ہیں ۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات کی بات کی جائے اور اس کے ڈیزائن اور سائز کو سامنے رکھا جائے‘ تو اس سے متعلق نہروں کی کھدائی پر بھاری اخراجات آئیں گے‘ لیکن اس کے با وجود اس کی کل لاگت بھاشا ڈیم کا نصف ہو گی۔انجینئرانعام الرحمن کے تیار گئے اس تمام منصوبے کی تفصیلات پڑھنے کے بعد یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ نے بقول وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے بھر پور طریقے سے نوازرکھا ہے۔ بہترین دماغ اور اعلیٰ صلاحیتوں کے لوگوں کی بھی کسی شعبے میں کمی نہیں۔ ہاں! اگر کمی ہے‘ تو درست فیصلہ کرنے والوں کی اس ملک کے وسائل کو اپنے خاندانوں کی بجائے انسانوں کے استعمال میں لانے والوں کی ہے ۔
پاکستان کے چاروں طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں ‘تو اﷲ کے حضور سجدہ شکرادا کرنے کے علا وہ اور کوئی خیال نہیں آتا کہ اس نے پاکستان کے محدود جغرافیہ میں فطرت کے ہر رنگ ہر موسم کا جہاں آباد کر رکھا ہے۔ دیکھا جائے‘ تو کشمیر کی وادیوں سے دشت خاران تک‘ روہی سے پنجاب کے زرخیز میدانوں تک‘پوٹھو ہار کے پتھریلے جمال سے کیچ کے بیابانوں تک‘ مہران کے جنگل بیلوں سے تھر کے خانہ بدوش ٹیلوں تک‘ بدین کی مسحور کن ڈھانڈوں سے سوات اور کالام کے برف زاروں تک‘ قراقرم کی سنگلاخ برف پوش چوٹیوں سے مکران کے ساحلوں تک‘ اس پر اتنے موسم سجائے ہیں کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔ ایک رپورٹ کے مطا بق پاکستان کا قریباًآدھا پانی ہمالیہ‘قراقرم اور ہندو کش کے پگلتے برف زاروں سے حاصل ہوتا ہے‘ جبکہ باقی نصف بارشوں سے جن کا زیا دہ جوبن صرف برسات کے دنوں میں ہوتا ہے ۔اس طرح سال کا تین چوتھائی جولائی سے ستمبر تک ہمارے دریائوں سے گزرتا ہے‘ جن کی بدولت شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال بنتی ہے اور اضافی پانی چاروں صوبوں میں تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے‘ تو قطعاً غلط نہ ہو گا کہ پاکستان بننے سے اب تک نا اہلی اور وطن کے مفادات سے لا تعلقی رکھنے کی وجہ سے سال بھر میں سمندر میں گرنے والے پانی کی اوسط قیمت70 کھرب روپے ہے‘ جو کہ ملک کے 66 سال کے مجموعی قرضوں سے بھی زیا دہ ہے اور ہر سال آنے والے سیلاب سے قیمتی جان و مال کی تباہی الگ۔ اگر ہم صرف اپنے دریائوں کی طغیانی پر ہی قابو پا لیں‘ تو ایک طرف عوام کے جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے‘ تو دوسری طرف اضافی پانی ذخیرہ کر کے ملک و قوم سستی بجلی کے علا وہ بھر پور پانی سے زرعی اجناس کی بر آمد سے بھاری زر مبادلہ بچانے کے علاوہ کما بھی سکتے ہیں۔ 
سواں ڈیم سے یہ بھی ہو گا کہ تربیلا سے اوپر مجوزہ نئے پن بجلی گھروں کی کار کردگی بھی بڑھ جائے گی اور ساتھ ہی تربیلا کا کردار صرف برسات میں پانی موڑنے سیلاب روکنے اور بہتے پانی سے بجلی بنانے کا رہ جائے گا‘ جس سے اس کی کار آمد عمرمیں بھی اضافہ ہو گا' جبکہ اس سے پانی ذخیرہ کرنے کی سو سال تک کی تمام ذمہ داری سواں ڈیم سنبھال لے گا اور ساتھ ہی دریائے سندھ کے بہائو میں موجو دہ رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی اور تربیلا میں رکنے والی گار( سلٹ) بہائو کے ساتھ ٹھٹھہ اور بدین تک پہنچنا شروع ہو جائے گی ‘جس سے سمندر کا رسائو اور پیش قدمی رک جائے گی۔ سندھ ڈیلٹا کیلئے چھ سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی کا مختص کوٹہ پورے سال کے دوران دستیاب ہو گا ‘ جس سے تھر کے جنگلات‘بحری اور دریائی حیات اور ماحولیات کو بھر پور فائدہ پہنچنے سے سندھ خوش حالی کی طرف بڑھے گا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved