تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-08-2018

پہلا ’’دنگل‘‘

وزیر اعظم عمران خان کو امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو کی فون کال کے حوالے سے جو مناقشہ پیدا ہوا ہے‘ اُسے دیگ کا پہلا چاول قرار دیا جارہا ہے‘ یعنی اندازہ لگالیجیے کہ مستقبل قریب میں امریکی قیادت کیا کرنے والی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس ٹیلی فونک گفتگو میں مائک پومپیو نے پاکستان کی سرزمین پر فعال اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا‘ جو افغانستان کی سرزمین پر حملوں میں اتحادی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے اس بیان کو پاکستان نے یکسر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مائک پومپیو نے دو طرف تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کو وسعت دینے کی بات ضرور کہی‘ تاہم دہشت گردی کے خاتمے یا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہی موقف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی دہرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اب امریکا کو محبوب نہیں رہا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 30 اگست کو ایرانی اور 8 ستمبر کو چینی وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ 
امریکی محکمۂ خارجہ پاکستانی دفتر خارجہ کے اس تردیدی بیان کے باوجود اپنی بات پر قائم ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ امریکی قیادت بزعمِ خود محسوس کرتی ہے کہ جو کچھ بھی وہ کہے اُسی کو برحق تسلیم کیا جائے اور اُس کے مطابق افکار و اعمال بدل بھی لیے جائیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کوشش نے نئے قضیے کو جنم دیا ہے‘ جو میڈیا والوں کے لیے نعمت ِ غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ امریکا نے ایسی بات کہی کیوں اور اب تک اُس پر اڑا ہوا بھی کیوں ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کئی محرکات اور حالات و واقعات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ امریکا اب پاکستان سمیت کئی نام نہاد ''حلیفوں‘‘ کے حوالے سے شدید بدگمانی اور بے اعتمادی کی فضاء میں جی رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس کی بدگمانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ بدگمانی اور بے اعتمادی بنیادی طور پر تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی بھی ملک امریکا کی مرضی کے مطابق چلنے سے انکار کردیتا ہے یا ''امریکا گریز‘‘ رویے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ امریکا ‘چونکہ سپر پاور ہے‘ اس لیے اس کی خواہش ہے کہ ہر کام اس کی مرضی کے مطابق ہو اور اسی کے مفادات کو سب سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے والا ہو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان یا کوئی اور ملک امریکی مفادات کو کب تک تقویت بہم پہنچاتا رہے؟ حاشیہ برداری لازم ہو‘ تب بھی اس کی ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ 
امریکا نے آٹھ دس ماہ سے پاکستان کو ''بیک برنر‘‘ پر رکھا ہوا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان نے ڈبل گیم کیا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ڈو مور کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے بلا جواز طور پر انکار کیا جارہا ہے۔ امریکا نے مالی (عسکری اور معاشی) امداد میں بھی کٹوتی کی ہے اور عسکری تربیت کے پروگرامز کی تعداد بھی گھٹادی ہے۔ 
عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے جو کچھ کہا‘ وہ بھی حیرت انگیز نہیں اور جو کچھ پاکستان کہہ رہا ہے ‘اُس میں بھی استعجاب کا کوئی پہلو نہیں۔ دونوں طرف بدگمانیوں کی فصل لہلہا رہی ہے۔ بھارت کے موقر روزنامے ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں‘ پاکستان کو ایک طرف ہٹانے یا پھر یوں کہیے کہ دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یکم جنوری 2018ء کو اپنے ایک ٹوئٹ میں پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام عائد کرتے ہوئے اب تک دی جانے والی 33 ارب ڈالر کی امریکی امداد کو اوّلین درجے کی حماقت سے تعبیر کیا تھا۔ اُن کے غیر متوازن لہجے والے ٹوئٹ نے دونوں ممالک کے درمیان رہا سہا اشتراکِ عمل بھی الجھنوں کی نذر کردیا۔ دو طرفہ تعلقات کو درست کرنے کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر کی جانے والی کوششوں کی راہ مزید مسدود ہوکر رہ گئی۔ 
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بننے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دی اور پاکستانی معاشرے کا سیاسی و معاشرتی رنگ تبدیل ہونے لگا ‘ تو امریکا نے بھی رنگ بدلنا شروع کردیا۔ جو حکومت ابھی بنی بھی نہیں تھی ‘اس پر پہلا وار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کی مخالفت کے ذریعے کیا گیا۔ امریکا چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہ کرے۔ امریکی قیادت اور پالیسی میکرز بظاہر پاکستان کو ''غداری‘‘ کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ 
ویسے تو خیر ہر دور میں بین الاقوامی سیاست و معیشت میں کچھ کر دکھانا بچوں کا کھیل نہیں تھا ‘مگر آج کی دنیا میں یہ سب کچھ انتہائی پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ تمام خطوں اور ممالک کے مفادات آپس میں بُری طرح جُڑے ہوئے ہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں ‘یعنی الگ تھلگ رہ کر جی نہیں سکتا۔ 
عمران خان نے اپنے مزاج کے مطابق اب تک جو زبان استعمال کی ہے اور جو رویّہ اختیار کیا ہے‘ اُس کی روشنی میں بیشتر تجزیہ کار اور بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس یہ کہے بغیر نہیں رہ پارہے کہ ایوانِ اقتدار میں عمران خان کی آمد سے کسی نہ کسی سطح پر تبدیلی آئے گی ضرور۔ ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ عمران خان بظاہر امریکا سے خوفزدہ ہونے اور دب کر بات کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ انہوں نے اب تک جو اشارے دیئے ہیں اُن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ امریکا سمیت ہر مغربی طاقت سے ڈٹ کر بات کرنے کے موڈ میں ہیں۔ امریکا کی جانب سے واضح منفی اشارے ملنے پر بھی عمران خان نے ایسا کچھ نہیں کہا جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ اپنے موقف سے ہٹنے اور کوئی بے جا شرط ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ترکی کی بھرپور حمایت کرکے انہوں نے جتادیا ہے کہ ہر معاملے میں امریکی موقف کو تسلیم کرنا اور اُس کی طے کردہ راہ پر گامزن ہونا لازم نہیں۔ 
امریکا بظاہر بے صبری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایشیا میں اُس کے مفادات کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت نے اُس کے لیے میدان چھوٹا کردیا ہے۔ مفادات اور اثرات کے دائرے کا سکڑنا امریکی پالیسی میکرز کے ذہن کو مزید سکڑنے کی راہ دکھا رہا ہے۔ پاکستان اور دیگر نام نہاد حلیفوں کو ناراض کرنے کی پالیسی اس بات کی غمّاز ہے کہ امریکی پالیسی میکرز نے تعقل اور تحمل دونوں کو خدا حافظ کہنے کی راہ اپنالی ہے۔ رہی سہی کسر ڈونلڈ ٹرمپ کی مُہم جُو طبیعت نے پوری کردی ہے۔ 
عمران خان نے ابھی ڈھنگ سے ابتداء بھی نہیں کی ہے اور امریکا انتہاء تک پہنچنے کو اُتاؤلا ہوا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جو انداز اپنایا ہے وہ معاملات کو بنانے سے کہیں بڑھ کر بگاڑنے والا ہے۔ پاکستان چھوٹا ملک سہی مگر قومی مفادات کو نظر انداز کرنے کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہی ہے۔ پاکستان کے معاملے میں وہ حد آگئی ہے۔ عمران خان کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اگر وہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے سامنے سوچے سمجھے بغیر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں تو اُن کے سیاسی کیریئر کی فلم کا ''دی اینڈ‘‘ ابھی سے آجائے گا۔ دعا کی جانی چاہیے کہ اِس دنگل میں وہ محض ڈٹے نہ رہیں‘ بلکہ چند ایک اچھے داؤ پیچ بھی آزمائیں۔ بین الاقوامی و بین الریاستی تعلقات میں اس بات کی بھی بہت اہمیت ہے کہ کوئی کسی کو کس حد تک چونکا سکتا ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved