تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-08-2018

اشیاء کی حقیقت کا علم

سرکارِ دو عالمﷺ نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا فرما۔ ہمارے دور کا انسان اگر اشیاء کی حقیقت کے علم میں سے ایک ذرّہ بھی حاصل کر سکے ‘تو اس کی زندگی مکمل طور پر بدل سکتی ہے ‘ اگر انسان اپنے جسم کو دیکھے تو ایک گرینڈ ڈیزائن ہر جگہ موجود ہے ‘لیکن ڈیزائن بنانے والا نظر نہیں آرہا۔ انسانی جلد کی مثال لے لیجیے ۔ دنیا دھوکے کی جگہ ہے اور اس دھوکے میں ایک بہت بڑا کردار ہماری جلد ادا کرتی ہے ۔ اگرجانداروں پر ایک خوبصورت جلد نہ چڑھا دی جاتی ‘تو ان میں محبت پیدا نہ ہوتی ۔ ایک دوسرے کے قریب جانے کی خواہش پیدا نہ ہوتی ۔ خوبصورتی skin deepہوتی ہے ۔ یہ skin deepخوبصورتی انسان کو کس طرح سے خوار کرتی ہے ۔ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ بڑے بڑے جرنیلوں سے لے کر حکمرانوں تک ‘ بل کلنٹن سے لے کر سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس تک‘ عبرت کے واقعات بکھرے پڑے ہیں ۔چہرے پر آکر یہ جلدنفاست کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔ اس کا ایک ایک خم ‘ ایک ایک اتار چڑھائو خوبصورتی کے ان معیارات کو جنم دیتاہے ‘ بادشاہوں نے جن کے لیے آپس میں جنگیں لڑیں ۔ انسانوں پر اگر یہ جلد نہ چڑھی ہوتی‘ تو ان کے چہرے گوشت کے لوتھڑوں کے سوا اور کیا ہوتے ۔ گوشت کے لوتھڑوں سے گھن کھائی جا سکتی ہے ‘ ان سے محبت نہیں کی جا سکتی ۔اگر تو زندگی اس سیارے پر اپنے آپ وجودمیں آئی ہوتی‘ توگوشت کے لوتھڑوں ہی ہوتے‘ جلد نہ ہوتی ۔اب تو روبوٹس پہ بھی جلد چڑھائی جار ہی ہے ۔ 
پھر یہ جلد صرف دکھاوے کی چیز نہیں ۔ اس میں سنسرز ہیں ۔ touchاور درد کے احساسات کو یہ پلک جھپکنے میں دماغ تک پہنچاتی ہے ۔ جلد کے نیچے ہر طرف تاریں (Nerves)موجود ہیں ‘ جو ریڑھ کی ہڈی سے دماغ تک جاتی ہیں ۔وصل کی ساری سائنس ان nervesپر استوار ہے ۔ 
اگر یہ جلد اتار لی جائے ‘تو اس کے نیچے موجود گوشت‘ ہڈیاں ‘ آنتیں اور دیگر اعضا بہت بدنما لگتے ہیں ۔ دوسری طرف نظامِ انہضام خوراک کی نالی‘ بلکہ دانتوں اور زبان سے شروع ہوتااور بڑی آنت پہ جا کر ختم ہوتاہے ۔ یہ پورا نظام فضلے اور بدبو سے بھرپور ہے ۔ اگر کبھی ایک بکراآپ اپنے سامنے ذبح کرائیں ‘ اس کی کھال اتروائیں اور صفائی ہوتی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کس قدر گند کو کس قدر خوبصورتی سے چھپایا گیا ہے ۔ اگر کبھی نظامِ انہضام میں خرابی پیدا ہو اور اگر یہ کھانا معدے سے آنتوں میں جانے کی بجائے خوراک کی نالی میں واپس چڑھنا شروع ہو جائے ‘ قے ہو جائے تو کس قدر گھن آتی ہے ۔ خدا نے خوراک کو واپس جانے سے روکنے کے لیے ایک خصوصی ڈھکن خوراک کی نالی اور معدے کے سنگم پر لگا رکھاہے ۔ جسے LESکہتے ہیں ۔ یہ خراب ہو جائے‘ تو خوراک ڈکار کے ساتھ با آسانی منہ میں لوٹ آتی ہے ۔ اگر یہ والو ٹھیک ہو تو الٹا لٹکنے سے بھی ایسا نہیں ہوتا ۔ 
اسی طرح بال ہیں ‘ جو خوبصورتی پیدا کرتے ہیں ۔بال ٹرانسپلانٹ کرنے والے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سر کے ہر حصے پر بال ایک ڈیزائن کے مطابق خدا نے پیدا کیے ہیں ۔ انہیں کس رخ سے جلد سے پھوٹنا ہے اور کس طرف بڑھنا ہے ‘ یہ باقاعدہ ایک ڈیزائن کے تحت نہ ہوتا تو یہ بال خوبصورتی کی بجائے بد صورتی پیدا کرتے ۔ یہ بال کس قدر خوبصورتی پیدا کرتے ہیں ‘ اس کا اندازہ لگانا ہوتو جن سیاستدانوں نے بال لگوائے ہیں ‘ ان کی پرانی اور موجودہ تصویریں دیکھ لیں ۔ زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ؛حالانکہ ٹرانسپلانٹ سے بمشکل چار پانچ ہزار بال ہی لگائے جا سکتے ہیں ۔ 
انسان کے جسم میں ‘ جانداروں کے جسم میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ‘ سو فیصد سائنسی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے ۔ چاہے آپ کے معدے سے بھوک کا احساس دماغ تک جانا ہو یا ٹانگ سے درد کا سگنل‘ یہ ان تاروں کے ذریعے جاتاہے ‘ جنہیں ہم nervesکہتے ہیں ۔ یہ nervesبجلی کی تاروں کے اصول پر کام کرتی ہیں ۔ یہ پلک جھپکنے میں بھوک ‘ درداور لذت کا احساس دماغ تک بھیجتی ہیں ۔ دماغ سے جواباً حرکت کرنے کا یا کوئی بھی دوسرا حکم بھی ایسی ہی تاروں کے ذریعے بھیجا جاتاہے ۔ 
جب دماغ جسم کو حرکت کا حکم دیتا ہے تو یہ حکم nervesکے ذریعے مسلز تک پہنچتاہے۔ مسلز سکڑتے ہیں اور پھر پھیلتے ہیں ‘ پھر سکڑتے ہیں ‘ پھر پھیلتے ہیں ۔ ان کے بار بار سکڑنے اور پھیلنے سے انسان چلتاہے ‘ بولتاہے ‘ رفع ء حاجت کرتاہے ‘ پیشاب روک کے رکھتا ہے ۔ کھانا کھاتاہے ‘ دوڑ لگاتا ہے ۔ یہ سب کچھ سو فیصد سائنس ہے ۔ 
اسی طرح دماغ کے اندر کے عجائبات ہیں ۔ اپنے بچوں سے محبت انسان کو کس قدر مسرت سے گزارتی ہے ۔ اولاد کی خاطر انسان اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتاہے ۔ اور یہ محبت درحقیقت ہے کیا؟ دماغ کے اندر کیمیکلز کا ایک بیلنس ‘ سو فیصد سائنس ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ خدا کہتاہے کہ یہ محبت تو میں نے تمہارے دلوں میں ڈالی ہے ۔ میں چاہوں تو اسے اٹھا لوں ۔ جب وہ یہ محبت اٹھالے گا تو انسان اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں اور اولاد کو پہچاننے سے انکار کر دے گا ۔ اس دنیا میں بھی جب وہ یہ محبت اٹھاتا ہے‘ تو بلی اپنے بچّے چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے ۔ 
آپ دوڑ لگاتے ہیں ‘ کسرت کرتے ہیں ‘ انسان خوشی محسوس کرتاہے ۔ اس دوران ہوتا کیا ہے ؟ مخصوص کیمیکلز کا اخراج اور ان کا ایک unique بیلنس ؟ اوروہ عشق‘ جس میں انسان اپنے ہاتھ سے اپنی جان لے لیتاہے ‘ وہ کیا ہے ؟ صرف اور صرف مخصوص کیمیکلز کا اخراج اور ان کیمیکلز کا ایک uniqueبیلنس ۔ کسی کو اگر اپنے محبوب کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ کچھ دن گزارنا پڑیں تو وہ ناک پہ کپڑا رکھ کے‘ قے کرتا ہوا اسے جنگل میں پھینک آتا ہے ۔
مزے کی بات ان کیمیکلز کا اخراج ہے ۔ جب ایک پانچ چھ سال کے لڑکے کو سائیکل خرید کر دی جائے تو اسے اس قدر مسرت ملتی ہے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہی لڑکا جب ادھیڑ عمر ہو جائے تو پھر اسے گاڑی ملنے پر بھی اتنی مسرت نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایک غریب شخص موٹرسائیکل لے کر خوش ہو جاتاہے ۔ امیر کو اتنا خوش ہونے کے لیے مرسڈیز کا ماڈل تبدیل کرنا پڑے گا ۔ جوشخص چوٹ اور معذوری کی وجہ سے چل نہیں سکتا‘ اگر علاج سے چند قدم اٹھانے کے قابل ہو جائے تواسے مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ جس کی ٹانگیں ٹھیک ہیں ‘ وہ پیدل چلنے سے اکتا یا ہوا رہتاہے ۔ 
تو پھر یہ کیا ہورہا ہے ہمارے اردگرد ؟ ہڈیوں اور گوشت پہ خوبصورت جلد چڑھا کر ‘ دماغ میں کیمیکلز کا اخراج اور خواہشات رکھ کر چند مخصوص situationsسے بار بار ہمیں گزارا جا رہا ہے ۔ ایک ہی کہانی کھربوں دفعہ دہرائی جا چکی ہے ۔ دنیا کی یہ زندگی کیا ہے ؟ آزمائش‘ آزمائش اور آزمائش ۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ 
ہ دنیا دھوکے کی جگہ ہے ۔ یہاں قدم قدم پہ ہمیں دھوکے سے گزارا جا رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو عقل سے نوازا گیا ہے ۔ سو کچھ خوش قسمت ‘ جن کے پاس اشیا کی حقیقت کا علم ہوتاہے ‘ وہ تو عقل سے کام لیتے ہوئے دھوکوں سے بچتے ہوئے گزر جاتے ہیں ‘ جبکہ اکثر ہماری طرح قدم قدم پہ لٹتے چلے جاتے ہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved