ارض مقدسہ فلسطین پر اسلام دشمن قوتوں نے صہیونی ریاست قائم کی تو ہر باشعور مسلمان تڑپ اٹھا۔ یہ ناجائز ریاست ظلم کی بدترین مثال ہے۔ شیخ احمددیدات‘ اُمت مسلمہ کے ہر سلگتے ایشوز پر قلمی و لسانی جہاد کے لیے کمر بستہ رہتے تھے۔ انہوںنے عرب اسرائیل تنازعے پر بھی کئی لیکچر دیے اور کتابچے مرتب کیے۔ ان میں مڈل ایسٹ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اسلام اور یہودیت کے اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہودیوں کی بری خصلتیں اور تاریخ میں ان کا گھنائونا کردار‘ مسلمان فاتحین کا تاریخی عفوو درگزر اور رعایا کے ساتھ حسن سلوک کتاب میں اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب یہودیوں کی رذیل حرکتیں‘ ظلم و ستم اور اسرائیلی ریاست کے ناجائز ہونے کے دلائل دیے گئے ہیں۔ صفحات62 ہیں‘ کتاب کا نام :"Arabs and Israel: Conflict or conciliation?" ہے۔
اللہ نے شیخ احمد دیدات کو ذہنِ رسا عطا فرمایا تھا۔ وہ بلا کے ذہین اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ انہوں نے ڈربن میں‘ جو عظیم الشان دعوتی و مرکزی اور ابلاغیاتی مرکز بنایا ہے‘ اسے دیکھ کر بے ساختہ دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے قائم کردہ کئی ادارے ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔
شیخ احمد دیدات نے ایک تحقیقی و تعلیمی ادارہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے نام سے 1958ء میں برائمار (جنوبی افریقہ) میں قائم کیا‘ جہاں سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے اور عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تعلیم حاصل کی۔ بلاشبہ اس ادارے کی بڑی خدمات ہیں۔ ڈر بن میں ایک جامع مسجد اور اسلامک پروپیگشن سنٹر کا قیام بھی مرحوم کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ہزاروں تقاریر کی وڈیو اور آڈیو کیسٹس دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دو درجن کے قریب ان کی کتب کئی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں سفر کیا۔ کئی ممالک نے ان کو ویزا دینے سے بھی انکار کیا۔ انہوں نے ویٹی کن میں پوپ جان پال سے ملاقات کی اور امریکا میں کئی عیسائی مناظرین سے مباحثے کیے۔ امریکا میں جمی سوا گرٹ کے ساتھ ان کا مناظرہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔
تبلیغ اسلام میں خدمت کے اعتراف کے طور پر مرحوم کو1986ء میں کنگ فیصل عالمی انعام ملا۔ انہوں نے اسلامی ممالک میں جاکر جو لیکچر دیے‘ ان کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کا ہیرو نیلسن منڈیلا ان کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ میں سفید فام سر پر غرور جنگِ آزادی کے نتیجے ہی میں سرنگوں ہوا‘ مگر اس پر اولین چر کے احمد دیدات ہی نے لگائے تھے۔ منڈیلا اپنے دورِ صدارت میں شیخ دیدات سے قریبی رابطہ رکھتا تھا۔
شیخ دیدات پر 1996ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ان کا نچلا دھڑ قریباً مکمل طور پر جامد ہوگیا تھا‘ زبان بھی بند ہوگئی‘ مگر وہ ایک خاص مشین کے ذریعے اشاروں سے بات چیت کرتے تھے۔ مئی 1997ء میں جب میں جنوبی افریقہ گیا‘ تو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات سے بھی پہلے سے تعارف تھا۔ انہوں نے استقبال کیا اور فوراً شیخ کے کمرے میں لے گئے۔ انہوں نے پہچان لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے کئی سوالات کیے۔ میں نے مرحوم سے اپنی اس آخری ملاقات کا تذکرہ اپنے سفرنامے ''حضرت بلال کے دیس میں‘‘ میں کیا تھا۔ وہاں سے چند سطور نذر ِقارئین کی جا رہی ہیں:
ڈربن ان چانگا (Inchanga) سے تقریباً آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ڈاکٹر محمد سلوا‘ جس علاقے میں رہتے ہیں‘ اسے ویسٹ ول کہا جاتا ہے۔ دوپہر کا کھانا ان کی ہمشیرہ کے گھر ہے۔ یہ مکان ٹیلہ نما پہاڑی کے اوپر ہے۔ نہایت حسین و جمیل مناظر میں گھرا ہوا خوب صورت بنگلہ ادبی ماحول پیدا کر رہا ہے۔ یہاں ہمارا قیام مختصر ہے۔ یہاں سے ہمیں ڈربن کے اس حصے میں جانا ہے‘ جہاں مشہور مبلغ اور مناظر شیخ احمد دیدات رہتے ہیں۔ شیخ احمد دیدات کی عمر اسی سال کے قریب ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دعوت و تبلیغ میں صرف کر دی ہے۔ آج کل بے چارے مکمل طور پر مفلوج ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلوا کے والد بھی ڈربن ہی کے ایک اور علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور احمد دیدات صاحب کے بچپن کے ساتھی اور دوست ہیں۔ ڈاکٹر سلوا کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ ڈربن میں مختصر قیام کے دوران جناب احمد دیدات صاحب کی عیادت کے لیے وقت ضرور نکالنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے والد یہاں کے ماحول میں پاکستان کے بہت بڑے مداح اور غیر مشروط حمایتی ہیں۔ وہ پاکستان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ سن کر مجھے انتہائی مسرت ہوئی اور ان سے ملاقات کا شوق بھی پیدا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ انہیں بھی ساتھ لیے چلتے ہیں۔ میں نے کہا :ضرور لے چلنا چاہیے۔ ایک تو وہ اپنے بچپن کے ساتھی کو دیکھ لیں گے اور دوسرے ہم ان سے استفادہ کریں گے؛ چنانچہ سلوا صاحب نے ان کو فون کرکے میرے بارے میں بھی بتایا اور دیدات صاحب کے ہاں جانے کی بھی اطلاع دی اور درخواست کی کہ وہ تیار رہیں۔
ڈاکٹر سلوا صاحب کے والد ما شاء اللہ بہت تندرست و توانا ہیں اور واقعتاً پاکستان کے سپاہی ہیں۔ یہاں اکثر لوگ پاکستان کی قدرو قیمت نہیں جانتے‘ مگر یہ بزرگ اس کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں۔ شیخ احمد دیدات ایک قابل شخص ہیں اور عظیم روایات کے امین۔ شیخ احمد دیدات نے خود ہی مطالعہ کرکے اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کیا۔ ان کی روایتی تعلیم بالکل واجبی سی تھی۔ عیسائیت پر ان کو جو عبور حاصل تھا اور تورات و انجیل کو جس طرح انہوں نے لفظ بلفظ حفظ کیا‘ یہ انہی کا حصہ ہے۔ ان کا انداز مناظرانہ ہوا کرتا تھا‘ مگر میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت کی حد درجہ رعونت اور دوسرے لوگوں سے شدید حقارت آمیز رویوں کی وجہ سے شیخ کے ذہن میں شدید رد عمل پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اس معاملے میں ہارڈ لائن اختیار کرلی۔ ان کے اس جارحانہ انداز کو بعض مسلمان پسند کرتے تھے‘ جبکہ بہت سے اس سے نالاں تھے۔ بہرحال کچھ بھی ہو اس سے انکار نہیں کہ شیخ احمد دیدات نے دنیائے عیسائیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے مناظروں اور لیکچرز کے نتیجے میں دنیا بھر میں کئی لوگ حلقہ ٔبگوش اسلام ہوئے۔
عصر کی نماز سے قبل ہم لوگ دیدات صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات نے ہمارا استقبال کیا۔ کئی لوگ شیخ کی عیادت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ شیخ کا معالج اس وقت فزیو تھراپی کر رہا تھا۔ اس لیے لوگ انتظار میں تھے۔ ہم نے قریبی مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ میں نے اپنے یار اور کسی دور میں افریقہ کی مسلم یوتھ کے روح رواں برادرم ابراہیم جدوت کو فون کر دیا تھا کہ میں عصر کے قریب دیدات صاحب کے ہاں حاضر ہوں گا۔
نماز پڑھ کر آئے ‘تو ابراہیم جدوت بھی موجود تھا۔ شیخ دیدات اور جدوت سے اس قدر پرانے تعلق اور اتنی یادیں ہیں کہ اگر انھیں لکھنے لگوں تو مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔ جدوت آج کل مکمل طور پر بزنس مین بن چکا ہے۔ میں نے اسے خوب چھیڑا‘ مگر اس پر کہاں اثر ہونا تھا۔ یہ وہ جدوت نہیں ‘جو بیس سال قبل تھا۔ اپنی توجیہات پیش کرتا رہا‘ مگر ان میں زیادہ وزن نہیں تھا۔ دعوت اسلامی کا کام چھوڑ کر روپیہ پیسہ اکٹھا کرنے کا شغل اپنانے والے لوگوں کے دلائل اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔
شیخ دیدات سے ملاقات ہوئی ‘تو میں حزن و ملال کے ساتھ ماضی میں کھو گیا۔ گلے سے نیچے شیخ صاحب کا دھڑ بے حس اور جامد و ساکت ہے۔ اس سے اوپر کان‘ آنکھیں‘ دماغ بالکل ٹھیک ہیں۔ قوت گویائی سلب ہوچکی ہے۔ مجھے پہچان لیا اور رقت طاری ہوگئی۔ رونے لگے اور سب حاضرین کو بھی رلایا۔ بات سن لیتے ہیں۔ بول نہیں سکتے ؛البتہ انگریزی حروف کے چارٹ بنائے گئے ہیں۔ آنکھ کے اشارے سے حروف منتخب کرتے ہیں‘ جن سے الفاظ اور فقرے بنتے ہیں‘ مجھے مخاطب کر کے فرمایا:
''تم سے بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے ۔ جب آخری بار ملے تھے‘ تو تمہاری ڈاڑھی اتنی سفید اور اتنی لمبی نہ تھی...‘‘ میں نے کچھ باتیں کیں‘ پرانے واقعات اور شیخ کی خدمات اسلامی کا مختصر تذکرہ کیا‘ ان کے حق میں دعا کی اور اجازت چاہی۔ شیخ میری باتوں پر اپنی آنکھ کے اشاروں سے رد عمل ظاہر کرتے رہے۔ اس دوران وہ ہنسے بھی اور روئے بھی۔ ایک مشین جو ان کے بیٹے کے بقول ‘اپنی نوعیت کی واحد مشین ہے‘ سعودی حکومت کے تعاون سے حاصل کی گئی ہے۔ اسی کے ذریعے شیخ کو خوراک وغیرہ دی جارہی ہے۔ بعض معالجین کا خیال ہے کہ شیخ انشاء اللہ تندرست ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عافیت عطافرمائے۔ دیدات صاحب ایک عظیم تاریخ ہیں۔ ان کے ہاں عیادت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے۔ میں نے شیخ دیدات کے ساتھ کینیا‘ تنزانیہ‘ پاکستان اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان میں کچھ وقت گزارا تھا۔ وہ سارے واقعات انہیں یاد تھے۔ 9 سال تک اس تکلیف دہ مرض کے ساتھ وہ زندہ رہے اور87 سال کی عمر میں8 اگست 2005ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ پاکستان میں یہ خبر سن کر بہت صدمہ ہوا اور مرحوم کی حسین یادوں نے تڑپا دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔