تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     29-08-2018

راج نیتی کے ایک گرو کا قول!

2013ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست ہو چکی تھی‘ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی سے درجن سے زائد خفیہ ملاقاتیں رنگ دکھا چکی تھیں‘ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا بھی دو تین دفعہ نوکری میں توسیع لے چکے تھے‘ جنرل کیانی کو بھی وزیر اعظم گیلانی نے قوم سے خطاب میں براہ راست توسیع دے دی تھی۔ پیپلز پارٹی کا حکومت کرنے کا اصول سیدھا تھا‘ کسی ادارے سے پنگا نہیں لینا۔ وہ اپنی مرضی کریں‘ ہم حکومت میں اپنی مرضی سے لٹ مار کریں گے۔ ان دنوں مجھے یاد ہے بیک وقت چار پانچ حکومتیں چل رہی تھیں‘ چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک حکومت چلا رہے تھے‘ دوسری جنرل کیانی تو تیسری طالبان‘ چوتھی زرداری ایوان صدر سے تو پانچویں وزیر اعظم گیلانی وزیراعظم ہاؤس سے۔ اس کے بعد وہی ہونا تھا جو بھان متی کے کنبے کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ قوتوں کو سوٹ کرتا تھا کہ پیپلز پارٹی دوبارہ آئے‘ کیونکہ اسے دبانا بہت آسان تھا۔ تھوڑا سا دبائو ڈالیں تو گیلانی‘ زرداری گر پڑتے تھے؛ تاہم پیپلز پارٹی کرپشن کرکے بدنام ہو چکی تھی اور اسے دوبارہ پاور میں لانا مشکل لگ رہا تھا۔ نواز شریف کا سوچ کر ہی مقتدر حلقے سوچ میں پڑ جاتے‘ کیونکہ وہ لڑنے کے لیے مشہور تھے۔ عمران خان پر نظر پڑی تو موصوف نے الیکشن سے چند دن پہلے اعلان کر دیا کہ اگر وزیر اعظم بن گئے تو حکم دیں گے کہ امریکی ڈرون گرا دیں۔ سب ڈر گئے کہ ملا عمر اور صدام حسین والا کام پاکستان کے ساتھ نہ ہو جائے۔یوں جنرل کیانی اور نواز شریف کے درمیان خفیہ سلسلے شروع ہوئے جو آخرکار ان کی الیکشن وکٹری پر جا کر ختم ہوئے۔ عمران خان نے شروع میں جہاں دیگر لوگوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے وہیں جنرل کیانی کا بھی براہ راست ایک جلسے میں نام لیا تھا۔ سمجھدار دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ آرمی چیف کا نام لینے سے باز رہیں۔ اپنے مزاج کے برعکس عمران خان اس معاملے پر باز آ گئے‘ حالانکہ وہ نجی محفلوں میں کھل کر جنرل کیانی کے الیکشن رول پر تنقید کرتے تھے۔ ان کے سابقہ دوست ہارون الرشید انہیں سمجھاتے رہتے کہ اس طرح کھلے عام باتیں کرکے وہ خواہ مخواہ ایک سرونگ آرمی چیف کو اپنے خلاف کر رہے ہیں‘ کیونکہ یہ سب باتیں جنرل کیانی صاحب تک بھی پہنچ رہی تھیں۔ 
شریفوں کا ایک سٹائل ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ کس کو کیا گولی دینی ہے‘ جو وہ فوراً نگل جائے گا اور ان کا کام ہو جائے گا۔ انہوں نے بھی جنرل کیانی کو گولی دیے رکھی۔ وہ چھ سال آرمی چیف رہے۔ پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم رہے‘ انہوں نے کبھی ان کو اپنی گاڑی پر بٹھا کر خود ڈرائیو کرتے ہوئے آرمی کی سلامی نہیں دلوائی تھی‘ لیکن اپنی سروس کے آخری دنوں میں انہوں نے نواز شریف کو جیپ میں بٹھایا اور خود ڈرائیو کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جنرل کیانی کے لیے ایک رول تشکیل دیا جا رہا تھا‘ تاہم شریف خاندان اپنا کام نکلوانے کے بعد لوگوں کو بھول جانے میں کمال رکھتا ہے۔ یوں آخری گولی یہ دی گئی کہ جنرل صاحب بتائیں‘ نیا آرمی چیف کس کو بنائیں۔ وہ ہر آرمی چیف سے یہ نام لیتے‘ لیکن اس نام کو چھوڑ کر دوسرے کو آرمی چیف بنا لیتے ہیں۔ جنرل کیانی نے جو نام دیا اسے آرمی چیف نہ بنایا گیا۔ شریف لوگ ایک اور کام بھی کرتے ہیں‘ نئے آرمی چیف کو بتا بھی دیتے ہیں اس کا سابق باس اس کے آرمی چیف بننے کے حق میں نہیں تھا‘ یہ تو ہم تھے جنہوں نے اسے چیف لگایا‘ تاکہ وہ ان کا وفادار رہے۔ اس کے باوجود نواز شریف صاحب گرفتار ہو جاتے ہیں یا جیل پہنچ جاتے ہیں۔ 
خیر نواز شریف حکومت بن گئی تھی۔ ایک دن ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق کو خیال آیا کہ اسلام آباد کے صحافیوں کو بلا کر ریلوے پر ایک بریفنگ دی جائے‘ اور بتایا جائے کہ ان کے ذہن میں کیا کیا پروگرام ہیں اور وہ کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اپوزیشن کے دنوں سے صحافیوں کے قریب تھے۔ وہ اچھے طریقے سے ملتے اور عزت دیتے تھے‘ لہٰذا ان کے بارے صحافیوں میں احترام موجود تھا۔ انہوں نے جس جس صحافی کو بلایا کہ وہ ایک بریفنگ دینا چاہتے ہیں تو تقریباً سب لوگ وہاں پہنچے۔ خواجہ سعد رفیق کی ٹیم نے صحافیوں کو ایک لمبی چوڑی بریفنگ دی‘ پورا پلان شیئر کیا گیا اور بتایا گیا کہ اب تک وہ کیا کر چکے ہیں اور ان کے ذہن میں مزید کیا ہے۔ ہم سب چپ کرکے یہ سنتے رہے۔ خواجہ سعد رفیق کے ساتھ گپ شپ اور مذاق بھی چلتا رہا۔ خواجہ صاحب بھی صحافیوں کے چہرے کے تاثرات سے خوش تھے کہ چلو سب مطمئن ہیں کہ ریلوے اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ غلام محمد بلور کے بعد اب ریلوے کچھ بہتر ہوگی۔ اچانک ایک ساتھی نے گلہ صاف کیا اور بولے: خواجہ صاحب وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن ایک بات بتائیں‘ یہ جو آپ کی ریلوے نے کوریا کے دس کھٹارہ انجن خرید لیے ہیں ان کی کیا کہانی ہے؟ خواجہ صاحب کچھ چونکے اور بولے: کیا مطلب؟ وہ دوست بولے: ایک طرف ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ آپ ریلوے کو جدید بنا رہے ہیں‘ دوسری طرف آپ نے کوریا سے ایسے انجن خرید لیے ہیں جو کسی کام کے نہیں۔ کوریا نے اپنی ریلوے کو جدید بنانے کے لیے جدید الیکٹرک انجن متعارف کرائے ہیں اور ہم ان کا کباڑ خرید کر پاکستان لے آئے ہیں‘ جس پر کروڑوں ڈالرز کی ادائیگی کی گئی ہے‘ اس ڈیل میں کس نے کیا کچھ کمایا ہے؟ ایک لمحے کے لیے پورے بریفنگ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ خواجہ صاحب‘ جو اب تک اچھے اچھے سوالات سن رہے تھے‘ پہلے کچھ دیر چپ رہے‘ پھر بولے: وہ کوریا کے پرانے انجن ہم نے نہیں خریدے‘ ایک غیر سویلین ادارے نے خریدے۔ ہم سب خاموشی سے تفصیلات سنتے رہے۔ پتہ چلا کوریا نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ آلودگی کو ختم کرنے کے لیے پرانے سٹیم انجنوں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ الیکٹرک انجن چلائے گا۔ یہ سب دھواں نکالتے انجن انہوں نے نکال کر ایک طرف کباڑ خانے میں پھینک دیے۔ اسی اثنا میں اس ادارے نے کوریا سے ان دس پرانے انجنوں کی ڈیل پر دستخط کیے‘ جس کے تحت ان انجنوں کے بدلے کوریا کی ریلوے‘ جس کا نام Korail ہے‘ کو ایک کروڑ گیارہ لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی جانی تھی۔ یہ معاہدہ اس ادارے اور کوریا نے براہ راست خود کیا‘ جس کا ریلوے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اب کس سمجھدار افسر نے ڈیل کی وہ کباڑ لانے کی‘ کسی کو علم نہیں۔ وہ ڈیل مذکورہ ادارے نے خود کی لیکن پھر ریلوے کو کہا گیا کہ وہ بوجھ اٹھائے۔ اس پر سعد رفیق نے اکتوبر 2013ء میں ریلوے کی ایک ٹیم تشکیل دی جس میں ریلوے کے سینئر افسران شامل تھے۔ وہ سیئول گئے۔ اب کوریا سے ہونے والی اس ڈیل میں کس کس کے ہاتھوں میں کتنا مال گیا‘ اس کی تفصیل تو اس ادارے کے پاس ہو گی جس نے پنڈی سے سفارش اور دبائو ڈلوا کر وہ انجن ریلوے کو بکوا دئیے تھے۔ ریلوے نے آگے سے یہ کہانی بیچی کہ جناب اگر نیا انجن لیں گے تو وہ چالیس کروڑ روپے کا پڑے گا۔ ہم ایک کروڑ گیارہ لاکھ ڈالرز سے کباڑ سے دس انجن کوریا سے خرید لیے ہیں‘ جس کا معاہدہ مذکورہ ادارہ پہلے ہی کر چکا تھا۔ ایڈوانس ادائیگی بھی کورین ریلوے کو کر دی گئی تھی۔ کورین ریلوے حکام خود حیران تھے کہ وہ تو یہ دھواں نکالتے انجن کباڑ میں پھینک رہے تھے‘ جس کے انہیں اب پاکستان سے ایک کروڑ گیارہ لاکھ ڈالرز مل رہے ہیں۔ ریلوے کی جیب پر ڈاکہ مارا گیا۔ اب اسی ادارے کو شیخ رشید ریلوے ٹریکس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے رہے ہیں۔ 
ہاں آپ کو یہ بتانا بھول گیا جب ان کھٹارہ دس کورین انجنوں کو پاکستان لایا گیا اور ریلوے انجینئرز نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو پاکستانی ریلوے ٹریکس پر چلنے کے قابل ہی نہیں۔ ان کا سسٹم پاکستانی ریلوے سے مختلف تھا۔ جنہوں نے ایک کروڑ گیارہ لاکھ ڈالرز کی ڈیل میں مال بنانا تھا‘ وہ بنا لیا تھا۔ پاکستان کے حصے میں کباڑ آیا ‘ ڈالرز کوئی اور لے اڑے۔ 
آپ افسردہ نہ ہوں۔ یہ سب راج نیتی کا کھیل ہے۔ اس میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو بڑی باریک بینی‘ مکاری‘ عیاری اور سمجھداری سے عوام کو پرچون کا سودا عوام کی جیب پر ڈاکہ مار کر عوام کو ہی بیچنے کے بعد عوام سے ہی تالیاں بجوانے کا فن آنا چاہیے۔
ر اج نیتی کے گرو کہتے ہیں: اس کھیل کو ایسا کھیلو کہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved