تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     29-08-2018

دوستی کے حقوق وفرائض

کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسان خاندانی تعلقات اور رشتہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھی استوار رکھتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزارا ہوا وقت‘یکساں مفادات اور سوچ وفکر کا اشتراک ہوتا ہے؛ چنانچہ ہم ذہن لوگ ایک دوسرے کے ساتھ قربت اور مختلف ذہن رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوری محسوس کرتے ہیں؛ چنانچہ دنیا میں دوستوں کے اچھے اور برے واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران ہر حد کو عبور کر جاتے ہیں۔ کئی لوگ شراب نوشی‘ قتل وغارت گری اور بدکرداری کے حوالے سے بھی اپنے دوستوں کے کام آنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ دینی‘ روحانی اور نظریاتی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ اسلام نے اس حوالے سے اپنے ماننے والوں کی بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی ہے اور دوستی کے اصول وضوابط کو اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے؛ چنانچہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 71میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ان کے بعض دوست ہیں بعض کے (یعنی ایک دوسرے) وہ حکم دیتے ہیں‘ نیکی کا اور روکتے ہیں برائی سے اور وہ قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی۔ یہی (لوگ ہیں کہ) عنقریب اللہ ان پر رحم فرمائے گا ‘بے شک اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے۔‘‘
آیت مذکورہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔اسی طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ گویا کہ وہ نیکی کے تمام کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی وجہ سے نیکی کے ان تمام کاموں کی تکمیل میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ کلام حمید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف تقویٰ کی بنیاد پر استوار ہونے والی دوستی کام آئے گی اور شر کی بنیاد پر استوار ہونے والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور عداوت پر منتج ہو گی۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زخرف کی آیت نمبر 67میں یوں فرمایا: ''سب ولی دوست اس دن ان میں سے بعض بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے) دشمن ہوں گے سوائے متقیوں کے (کہ وہ باہم دوست ہی رہیں گے)۔‘‘ 
اللہ کا قرآن ہمیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ دنیا میں بسا اوقات غلط دوستی کے چناؤ کی وجہ سے انسان کل کلاں جہنم کی آگ میں چلا جائے گا اور سیدھے راستے سے بھٹکنے کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی غلط صحبت ہوگی؛چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر میں 27‘28 اور 29 اس امر کا اعلان فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو کہے گا: اے کاش! میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ (اس ) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقعہ پر) چھوڑ جانے والا(یعنی دغا دینے والا ہے)۔‘‘
آیت مذکورہ سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قیامت کے دن غلط صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے گا اور ندامت کے آنسو بہائے گا‘ لیکن اس وقت نادم ہونے کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا؛ چنانچہ ہمیں دنیا ہی میں ان لوگوں کی صحبت کو اختیار کرنا چاہیے کہ جن کی وجہ سے ہمارے ایمانی اور اسلامی معاملات کو تقویت حاصل ہو؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر 28میں اعلان فرمایا: ''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام کو وہ چاہتے ہیں اس کی خوشنودی اور نہ تجاوز کریں آپ کی آنکھیں ان سے‘ آپ چاہتے ہیں دنیوی زندگی کی زینت کو اور نہ اطاعت کریں (اس کی) جسے ہم نے غافل کر دیا اس کے دل کو اپنے ذکر سے اور اس نے پیروی کی اپنی خواہش کی اور ہے اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا۔‘‘ 
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد کہ دوستی کی بنیاد اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہونی چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے نافرمانوں سے اہل ایمان کو اعراض کرنا چاہیے۔ ہم سب کو دوستی کے حوالے سے بعض اہم باتوں کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ اپنے دوست کے لیے وہ پسند کرنا‘ جو انسان اپنے لیے پسند کرے: انسان کو ہمیشہ مادی ‘اخلاقی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے دوست کے لیے اسی چیز کو پسند کرنا چاہیے‘ جس کو وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے‘ تو اس کو اپنے دوست کی بھی عزت کرنی چاہیے‘ اگر وہ طنز ‘ طعن وتشنیع کو اپنی ذات کے لیے نا پسند کرتا ہے ‘تو اس کو اپنے دوست کے لیے بھی ان چیزوں کو ناپسند کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر وہ کھانے پینے ‘ لباس ‘ رہن سہن اور اور دیگر حوالوں سے کسی چیز کو اپنے لیے پسند کرتا ہو‘ تو اس کو اپنے دوست کے لیے بھی ان چیزوں کو پسند کرنا چاہیے۔ اپنے لیے بہتر چیزوں کو پسند کرنے اور دوسروں کے لیے کم تر چیزوں کو پسند کرنے والے شخص کوا پنے ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حدیث پاک میں اس حوالے سے نبی کریمﷺ کا فرمان واضح ہے: حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے ‘جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
2۔نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون: اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور تعاون کیا کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں۔ـ‘‘چنانچہ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے تمام کاموں میں تعاون کرنا چاہیے۔ ان کاموں کا تعلق اگر دینی امور سے ہو‘ تو اس صورت میں بھی اُسے اپنے بھائی سے تعاون کرنا چاہیے اور اگر ان معاملات کا تعلق دنیاوی امور سے ہو اور وہ کام جائزہوں‘ تو ایسی صورت میں بھی اپنے دوست کے کام آنا چاہیے۔ بعض لوگ استطاعت اور وسائل رکھنے کے باوجود بھی بخل اور ذاتی مصر وفیت کی وجہ سے اپنے دوست احباب کے کام آنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ 
3۔برائی اور گناہوں کے کاموں سے اجتناب: سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2 میں ہی اعلان ہوا ''اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو ‘گناہ اورزیادتی کے کاموں میں۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل ایمان کو دوستی کے باوجود بھی اپنے دوست کے ان معاملات میں اس کا معاون نہیں بننا چاہیے‘ جن کا تعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ ہو؛ چنانچہ اگر مخلص دوست بھی کسی مخلوط مجلس میں جانے کے لیے کہے ‘تو اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر وہ گانے بجانے کی کسی محفل میں شرکت کی دعوت دے‘ تو اس کی معاونت نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ظلم وبربریت کے کسی بھی معاملے میں اپنے دوست کا معاون نہیں بننا چاہیے۔ بعض لوگ دوستی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہر جائز اور ناجائز کام میں اپنے دوست سے تعاون کیا جائے۔ یہ مفہوم کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں کے ساتھ تعاون ان معاملات میں ضرور کرنا چاہیے‘ جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا ‘ خوشنودی اور مخلوق کا فائدہ ہواور ان تمام کاموں میں اپنے دوستوں کی معاونت سے اجتناب کرنا چاہیے‘ جن میں اللہ کی ناراضی اور مخلوق کا نقصان ہو۔ 
4۔ دکھ اور مشکل میں دوست کے کام آنا: انسانوں کو دکھ‘ تکلیف‘ مشکل میں اپنے دوستوں کے کام ضرور آنا چاہیے۔ دوستوں کی بیمار پرسی کرنا ‘ ان کے اعزء واقارب کے جنازوں میں شرکت کرنا ‘مالی نقصانات کی صورت میں ان کے ازالے کی کوشش کرنا اور بھوک کی صورت میں ان کے گھر خوراک پہنچانا ‘مخلص دوستوں کی نشانیوں میں سے ہے۔ بعض لوگ اچھے وقت میں دوست ہوتے ہیں ‘لیکن مشکل وقت میں وہ اپنے دوستوں کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں انصاریوں کے کردار کا ذکر کیا کہ جنہوں نے مہاجر صحابہ کرام ؓکی ہر اعتبار سے خاطر مدارت کی اور اس سلسلے میں اگر انہیں اپنے نفس سے ایثار بھی کرنا پڑا‘ تو وہ اس سے بھی پیچھے نہ رہے۔ 
5۔موت کے بعد:موت کے بعد بھی انسان کو خیر خواہی کرتے ہوئے دوستوں کے جنازوں میں شریک ہونا چاہیے اور ان کے اہل وعیال کی جس حد تک ممکن ہو خبر گیری کرتے رہنا چاہیے۔ بعض لوگ اپنے قریبی دوستوں کے جنازے پڑھنے کے بعد اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور اُن کی اولادوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ بات بہت نمایاں تھی کہ وہ اپنے دوست احباب کی نسبت سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا کرتے تھے اور ان کی خبر گیری میں کبھی بھی کوتاہی نہ کرتے تھے۔ 
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے اور اپنے دوستوں کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دوستی کے فرائض اور حقوق کوسمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے!۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved