تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-04-2013

آنے والا کل

قوم جزئیات میں الجھی ہے۔ بڑی تصویر کوئی نہیں دیکھ رہا۔انگارے بوئے جار ہے ہیں ۔ کسی کو خبر ہی نہیں ، کسی کو پروا ہی نہیں ۔ کل آگ کی فصل اُگے گی تو میڈیا سمیت پورا ملک چیخ رہا ہوگا۔ سلمان فاروقی وہیں براجمان ہیں اور وہی کارنامے انجام دے رہے ہیں ۔ 1996ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری ایّام میں زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر گئے تو عرض کیا کہ فاروقی برادران کے ٹخنوں پر ضرب لگائی جائے تو کچھ بہتری آسکتی ہے ۔ ان کے چھوٹے بھائی کم روشن دماغ نہ تھے اور پاکستان سٹیل ملز پر مسلّط تھے ۔ اس پر بڑے فاروقی نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو میں طرح دیتا رہا لیکن ایک ذاتی دوست کے اصرار پر آمادہ ہوگیا ۔ جب انہیں اندازہ ہوا کہ میں قائل نہیں ہو سکا تو کہا: میں اپنے بچوں کی قسم کھاتاہوں کہ کرپشن کا مرتکب نہیں ہوا۔ نواز شریف برسرِ اقتدار آئے ۔ سیف الرحمٰن کے ہاتھ میں احتساب کی تلوار تھی مگر فاروقی صاحب ملک سے فرار ہو گئے۔ شہباز شریف نے وزیر داخلہ چودھری شجاعت سے احتجاج کیا تو انہوںنے کہا : اپنے بڑے بھائی سے پوچھئے کہ کس نے اجازت دی ہے ۔ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ وہ واپس آئے اور ایوانِ اقتدا رمیں براجمان ہو گئے ۔ اب کی بار احتیاط انہوںنے یہ کی کہ اخبارات اور اخبار نویسوں سے دُور رہے ۔ جلا وطنی میں حسین حقانی کی طرح زرداری صاحب کی خدمات بجا لاتے رہے اور نوازے گئے ۔ وہ حسین حقانی جو امریکہ میں پاکستان کے خلاف وعدہ معاف گواہ تھے ، پھر واشنگٹن میں ملک کے سفیر بنائے گئے اور اب ایک بار پھر وعدہ معاف گواہ ہیں ۔ ممتاز جریدے ’فارن پالیسی‘ میں ایک بار پھر انہوںنے اپنے وطن کو عالمِ انسانیت کا مجرم بنا کر پیش کیا ہے ۔ نجومیوں کی طرح ، جن کے بارے میں اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا: تھوڑے سے سچ میں وہ بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں، حسین حقانی کا سارا زور اس پر ہے کہ پاکستان فساد کی جڑ ہے اور اسی کے گرد شکنجہ کسنا چاہیے ۔ پاکستان میں جن لوگوں سے حسین حقانی کا زیادہ رابطہ تھا ، ان میں سے ایک کیبنٹ ڈویژن کی سیکرٹری نرگس سیٹھی بھی تھیں ۔ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی سابق پرنسپل سیکرٹری ، جو ان کے بہت سے کارناموں میں شریک رہیں۔ ایفی ڈرین کیس میں جنہوںنے ’’سچی‘‘ گواہی دی ، جن کی مدد کے بغیر حسین حقانی ان ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری نہ کر سکتے جو پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے آئے اور ان میں سے ایک ریمنڈ ڈیوس تھا ۔ اسی ریمنڈ ڈیوس کے ایک وکیل نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بنے اور تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے اتفاقِ رائے سے ۔ اب تک وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن بہرحال وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو مغرب کو پاکستان کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ مغرب کے نقطہ نگاہ سے پاکستان کو دیکھتے ہیں ۔ وہ لوگ جو اعتزاز احسن کی طرح قائد اعظم کو سیکولر قرار دینے پر تلے رہتے ہیں ؛حالانکہ چالیس برس کی سیاسی زندگی میں ایک بار بھی بانی پاکستان نے یہ لفظ استعمال نہ کیا۔ ذہنی طور پر قبائلی عہد میں رہنے اور فرقہ پرستی کے مارے قدامت پسند علما اور الحاد کی تحریکوں سے متاثر مغرب پسندوں کے درمیان وہ ایک جدید اسلامی ریاست کے علمبردار تھے۔ اس نکتے کو وہ خوب سمجھتے تھے کہ اسلام میں پاپائیت کا وجود ہی نہیں اور طرزِ حکومت میں اس کا مزاج سرتاپا جمہوری ہے۔ منگل کو تقریبِ حلفِ وفاداری کے بعد نرگس سیٹھی نگران وزرا کا مذاق اڑاتی رہیں :ان کے پاس وقت ہی نہیں۔ بچوں کی سی مسرت سے وہ کہتی رہیں۔ ان کے اس غیر معمولی اعتماد کا سبب کیا ہے ؟ معتبر لوگوں سے پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا: بعض دوسرے سرکاری افسروں کی طرح ایوانِ صدر کی پشت پناہی انہیں حاصل ہے ۔ا ن میں سے ایک نے کہا: صدارتی نظام کا تسلسل اب بھی جاری ہے ۔ فیصلے اب بھی زرداری صاحب کے دربار میں ہوتے ہیں ۔ 84سالہ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر اور 85سالہ میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم بنانے کا مقصد کیا ہے ؟ الیکشن کمیشن کی تشکیل سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات محدود کیوں کردیے گئے؟ اس لیے کہ کھرے الیکشن مطلوب ہی نہ تھے ۔ چیف الیکشن کمشنر ایماندار ہی ہوں گے مگران کا حال یہ ہے کہ دو گھنٹے تک ایک ہی اجلاس میں شرکت کے باوجود وہ جنرل کیانی کو پہچان نہ سکے۔ نگران وزیر اعظم کو یہ معلوم نہ تھا کہ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ کون ہیں ۔ جعلی ڈگریوں ،کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر الیکشن کمیشن بروقت کارروائی نہ کر سکا۔ کراچی میں ، جہاں دھاندلی کی شکایت سب سے زیادہ ہوتی ہے، حلقہ بندیوں کے لیے خاردار تاریں نہ لگانی تھیں ، کاغذوں پر لکیریں کھینچنا تھیں ۔ ایسا خوف زدہ الیکشن کمیشن مگر کیوں کر بروئے کار آتا جو پیپلزپارٹی اورنون لیگ میں خفیہ مفاہمت کا نتیجہ تھا۔ ’’بے دلی سے جو بادہ کشید کرتا ہے‘‘خلیل جبران نے کہاتھا ’’وہ زہر کشید کرتاہے‘‘۔ خدا کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نگران ہے وگرنہ معلوم نہیں یہ بوڑھا اور بیمار الیکشن کمیشن کیا کرتا۔ خدا کا شکر ہے کہ بالآخر اس نے اقدامات کا آغاز کیا ہے اور افسر شاہی میں تبادلوں کا حکم صادر کیا۔ منگل کی شام وگرنہ خدشات یہ تھے کہ اگر موجودہ وفاقی سیکرٹری ہی برقرار رہے تو تباہی آئے گی ۔ تقریبِ حلفِ وفاداری کے بعد ڈاکٹر عاصم ، قائم مقام سیکرٹری خزانہ کو ڈانٹتے ہوئے دیکھے گئے کہ وہ ان کا فون کیوں نہیں سنتے ؟ انہیں یہ اختیار کس نے دیا ؟ ظاہر ہے کہ وہ ایوانِ صدر کے کھونٹے پر ناچ رہے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ پٹرولیم کا وفاقی وزیر اپنی مرضی کا انہوں نے مقرر کرا لیا ہے اور ان کا کاروبار جاری رہے گا۔ داخلہ امور کے سیکرٹری وہی ہیں جنہیں رحمٰن ملک ڈھونڈ کر لائے تھے ۔ سیکرٹری اطلاعات کی ترجیحا ت کو سمجھنا مطلوب ہو تو پی ٹی وی پر نوبجے کا خبرنامہ ایک بار ملاحظہ کر لیجئے۔ کل سارا زور اس بات پر تھا کہ تحریکِ انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلا فات سنگین ہیں ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں تو کامل ہم آہنگی ہے؟ ٹیکس وصولی کے ذمہ دار ایف بی آر کے چیئرمین علی ارشد حکیم ہیں ، جناب زرداری کے ذاتی دوست۔ جیسا کہ کل عرض کیا تھا ،آٹھ ماہ میں ہدف سے چار سو ارب کی کم وصولی۔ کوئی اس شخص سے پوچھتا کیوں نہیں ؟ کیا ہوش اس وقت آئے گا جب فوج کوتنخواہ دینے کے لیے بھی پیسے نہ ہوں گے ؟ اگر ملک بچاناہے تو ایف بی آر کو بچانا ہوگا۔ 1973ء کے دستور والے مولوی صاحب وزیر اعظم گیلانی کے پاس تشریف فرما تھے اور ان کا مطالبہ یہ تھا کہ فلاں انسپکٹر کا فوری طور پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں تقرر کیا جائے۔ کم از کم دو سابق وفاقی وزراء کے بارے میں اسلام آبا دکے سب با خبر لوگ جانتے تھے کہ ان کے اخراجات کا بوجھ ایف بی آر کے کچھ اہلکار اٹھاتے رہے۔ نذر محمد گوندل کے لیے ایک وزارت تراشی گئی ، کیپیٹل ایریا ڈویلپمنٹ ڈویژن ۔ آخری دنوں میں کروڑوں روپے کی زمین خریدی گئی ۔ الیکشن کمیشن ذرا معلوم تو کرے کہ کس نرخ پر؟ وزیر اعظم پرویز اشرف نے آخری دنوں میں ملک کے ساتھ وہ کیا جو غیر ملکی حملہ آور کیا کر تے ہیں۔ بھاشا ڈیم سمیت 100 بڑے منصوبوں سے 45ارب نکال کر سیاستدانوں کے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کر دئیے گئے ۔ ہر روز چار پانچ ارب روپے کے نوٹ چھپ رہے ہیں ۔ ملک کیا اس طرح چلا کرتے ہیں ؟ جمہوریت کیا اسی کا نام ہے؟ حکمرانی کیا اسی کو کہتے ہیں ؟ منصفانہ الیکشن کیا اس طرح برپا ہوں گے ؟ قوم جزئیات میں الجھی ہے۔ بڑی تصویر کوئی نہیں دیکھ رہا۔انگارے بوئے جا رہے ہیں۔ کسی کو خبر ہی نہیں، کسی کو پروا ہی نہیں۔ کل آگ کی فصل اُگے گی تو میڈیا سمیت پورا ملک چیخ رہا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved