خواتین و اطفال کی ترقی سے متعلق بھارت کی مرکزی وزیر مونیکا گاندھی نے خوش خبری سنائی ہے کہ بھارت بہت جلد ''روایتی‘‘ گوشت سے نجات حاصل کرکے ''غیر روایتی‘‘ گوشت کو اپنالے گا۔ 24 اگست کو آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد (دکن) میں کو پروٹین والی خوراک تیار کرنے والی ٹیکنالوجی کی صورت میں ابھرنے والے انقلاب کے مستقبل پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مونیکا گاندھی نے بتایا کہ ایک ملک گیر سروے میں 66 فیصد رائے دہندگان نے ''آرگینک میٹ‘‘ یعنی لیباریٹریز میں ''اگائے‘‘ جانے والے گوشت کو اپنانے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ 46 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ صاف ستھرا‘ بیماریوں سے پاک گوشت باقاعدگی سے حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ 53 فیصد بھارتیوں کا کہنا تھا کہ وہ ''روایتی‘‘ (یعنی مویشیوں کو ذبح کرکے حاصل کیے جانے والے) گوشت کو ترک کرکے لیباریٹریز میں پروان چڑھائے جانے والے گوشت کو اپنانے میں خوشی محسوس کریں گے۔
مویشیوں کو ذبح کرکے گوشت حاصل کرنے کے بجائے لیباریٹریز میں اسٹیم سیلز ٹیکنالوجی کی مدد سے پروان چڑھائے جانے والے گوشت کو اپنانے کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ جانوروں کے گلے پر چُھری پھیرنے کی شکل میں کیے جانے والے ''تشدد‘‘ یا نام نہاد بے رحمانہ سلوک کی راہ مسدود کرنے کی خاطر انتہا پسند ہندو اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ لیباریٹریز میں اسٹیم سیلز ٹیکنالوجی کی مدد سے خوب گوشت تیار اور عام کیا جائے۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران مونیکا گاندھی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے بہت سے بڑے ادارے لیباریٹریز کے ذریعے صاف ستھرے گوشت کے حصول کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر ''کلین میٹ ٹیکنالوجی‘‘ کا شعبہ بھرپور ٹیک آف کی تیاری کرچکا ہے۔
لیباریٹریز میں گوشت تیار کرنے والی ٹیکنالوجی کے ایک بڑے ادارے ''نیو ایج میٹ‘‘ کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر براین اسپیئرز کہتے ہیں ''گوشت خوری کا تعلق بنیادی طور پر ثقافت سے ہے۔ کہیں یہ رجحان قوی تر ہے اور کہیں بہت کمزور۔ 'کلین میٹ‘ (لیباریٹریز میں تیار کیا جانے والا گوشت) بہت لذیذ‘ صحت بخش اور پائیدار (یعنی بڑے پیمانے پر دستیاب) ہوگا۔‘‘
''کلین میٹ کلچر‘‘ کو فروغ دینے کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے بھی اپنے حصے کا کام شروع کردیا ہے اور کلین میٹ کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ بھارتی ادارے ہیومین سوسائٹی انٹر نیشنل کے مینیجنگ ڈائریکٹر این جی جیہ سِمہا کہتے ہیں ''بھارت کی فوڈ اینڈ بایو ٹیکنالوجی انڈسٹری کو پروٹین (لحمیات) کے شعبے میں غیر معمولی جدت و ندرت کا مظاہرہ کرنا ہے۔‘‘
بھارت میں ''غیر روایتی‘‘ گوشت کے فروغ پر اس قدر زور کیوں دیا جارہا ہے؟ یہ سوال قابلِ غور ہے ‘کیونکہ اس کے جواب کی تلاش میں اس وقت بھارتی معاشرے میں پائے جانے والے انتہا پسندی کے رجحان کو بھی کریدنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ بہت حد تک ووٹ بینک کی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُس کی چَھتر چھایا میں پلنے والے انتہا پسند گروپ چاہتے ہیں کہ ہر وہ اقدام کیا جائے جو عام‘ قدرے غیر سیاسی اور سادہ لوح ہندو کو یہ باور کرائے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں اُن کے مذہبی‘ روحانی‘ معاشرتی‘ ثقافتی اور تہذیبی مفادات کی ''رکشا‘‘ کوئی کرسکتا ہے تو صرف انتہا پسند ہندو!
عام ہندو گائے کا بے حد احترام کرتا ہے اور کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا کہ اُسے ذبح کرکے کھایا جائے۔ یہ الگ بات کہ ہندوؤں کے مقدس صحائف (وید اور اُپنشد) کے تسلیم شدہ مندرجات سے ثابت ہے کہ ہر دور میں رِشی‘ مُنی اور عام ہندو بھی گائے کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔ گوشت خوری کا کلچر محض مسلمانوں کا لایا ہوا یا پھیلایا ہوا نہیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے ووٹ بینک کی سیاست چمکتی رکھنے کے لیے گائے کی حفاظت کا معاملہ حد سے بڑھادیا ہے۔ اِس کی آڑ میں مسلمانوں کو کسی جواز کے بغیر نشانے پر لینا بھی نہ صرف یہ کہ بہت آسان ہوگیا ہے بلکہ فیشن میں تبدیل ہوچکا ہے! یہ فیشن اِس لیے تیزی سے فروغ پارہا ہے کہ ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے میں مسلم دشمن رویّہ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل جنوبی ریاست آندھرا پردیش نے ڈیری کی صنعت کو فروغ دینے کی غرض سے ایک خصوصی منصوبے کے تحت ہر کسان گھرانے کو ایک گائے کا تحفہ دینا شروع کیا تھا۔ کچھ مدت بعد معلوم ہوا کہ بیشتر گائیں مذبح پہنچ گئیں۔ انتہا پسند ہندو اس پر اب تک سیخ پا ہیں۔ دودھ دوہنے کے لیے دی جانے والی گائیں فروخت کردیئے جانے پر کسانوں کی گوش مالی ہونی چاہیے تھی‘ مگر ''کرے کوئی‘ بھرے کوئی‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے یہ منصوبہ بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ کسانوں کو دی جانے والی گائیں اگر سلاٹر ہاؤسز میں پہنچادی گئیں تو اِس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ اِس نکتے پر غور اور تحقیق کی زحمت کسی نے گوارا نہیں کی کہ گائے کا گوشت صرف مسلمان نہیں کھاتے بلکہ خود ہندوؤں میں کئی نسلیں اور برادریاں روایتی طور پر گائے کا گوشت پسند کرتی آئی ہیں! اب جنوبی ریاست تلنگانہ میں کسان گھرانوں کو بھیڑیں دی جارہی ہیں‘ تاکہ دودھ کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ مونیکا گاندھی نے تلنگانہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ آندھرا پردیش کے تجربے سے سبق سیکھے‘ قیمتی وسائل ضائع نہ کرے یعنی کسان گھرانوں میں بھیڑیں بانٹنے سے گریز کرے کیونکہ یہ بھیڑیں بھی آندھرا پردیش کی گایوں کی طرح بالآخر ''سلاٹر ہاؤس‘‘ پہنچادی جائیں گی۔ دنیا بھر میں چھوٹے اور بڑے جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں جدید ترین سلاٹر ہاؤس کام کر رہے ہیں ‘جن میں جانور کو مشینوں کے ذریعے ذبح کیا جاتا ہے۔ بھارت اور دوسرے بہت سے ممالک میں غیر مسلم قصائی جانوروں کو جھٹکے سے ختم کرنے کے بعد اُن کے ٹکڑے کرتے ہیں۔ مسلمان اور یہودی باضابطہ مہذب ذبیحہ کرتے ہیں۔ ماہرین تجربات کی روشنی میں ثابت کرچکے ہیں کہ جانور کو ذبح کرنے کا وہی طریقہ درست ہے ‘جو مسلمان اور یہودی اختیار کرتے ہیں۔
جانوروں کو باضابطہ ذبیحے سے بچانے کے لیے لیب میں تیار کیے جانے والے گوشت کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا فی الحال کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی ہے۔ لاگت زیادہ ہے اور ''میٹ بریوریز‘‘ بھی بہت بڑے پیمانے پر قائم کرنا پڑیں گی۔ متعلقہ ٹیکنالوجی میں اب تک اِتنی پیش رفت نہیں ہوئی کہ کروڑوں‘ اربوں افراد کو باقاعدگی سے گوشت کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔ اور اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ اس طور تیار کیا جانے والا نام نہاد گوشت کس حد تک جراثیم سے پاک اور صحت بخش ہوگا۔ ''کلین میٹ‘‘ کو کلین رکھنا ‘یعنی جراثیم سے آلودہ ہونے سے بچانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ لیب یا بریوری میں بھی اسٹیم سیل ٹیکنالوجی سے گوشت کی تیاری بہر حال خطرے سے خالی نہیں۔ یہ تمام نکات نظر انداز کرکے انتہا پسند ہندو غیر روایتی گوشت کا کلچر لانا چاہتے ہیں۔ بہت سے ہندو محض اس خیال سے بے مزا ہو جانے کے باعث گوشت نہیں کھاتے کہ گوشت کے حصول کے لیے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے۔ لیب میں تیار کیا ہوا گوشت کھانے میں وہ کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے۔ یوں صارفین کی تعداد میں کروڑوں کا اضافہ ہوگا۔ انتہا پسند ہندو غیر روایتی گوشت کو فروغ دے کر اُن ہندوؤں کو بھی گوشت خوری کی راہ پر گامزن کریں گے جو اب تک اس عمل سے مجتنب رہے ہیں۔ شاید ایسے ہی مواقع کے لیے کہا گیا ہے: ع
پاؤں رکھتا ہوں کہیں ... اور کہیں پڑتا ہے!