تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-08-2018

شاہ کلید

وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو حکمت اور صبر سے کام لینا ہو گا۔ بارہا عرض کیا کہ فقط ریاضت نہیں بلکہ ریاضت اور صبر کامیابی کی شاہ کلید ہوتی ہے۔ The master key
زمانہ کروٹ بدلتا ہے تو ایک ہڑبونگ مچتی ہے۔ حکمران بدلتے ہیں تو پیمانے بھی۔ لاکھوں آدمیوں کو فائدہ پہنچتا ہے تو لاکھوں کو نقصان۔ یمن کی ملکہ بلقیس کے سالاروں نے اس سے کہا تھا‘ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا وہ مقابلہ کریں گے۔ اس نے جواب دیا: بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے معززین کو حقیر بنا دیتے ہیں۔
اسی سے استدلال کرتے ہوئے‘ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے ارشاد کیا تھا: اپنے دلوں میں مال و دولتِ دنیا کے جو محل تم نے استوار کر رکھے ہیں‘ انہیں گرا کر ویرانہ بنا دو۔ اس ویرانے میں یادِ خدا کا چراغ روشن ہو گا تو ہمیشہ جلتا رہے گا۔ جناب شیخ کو تصوّف کی تاریخ کے چار عظیم ترین اکابر میں شمار کیا جاتا ہے۔ سیدالطائفہ جناب جنید بغدادؒ عہد تبع تابعین کے بعد‘ وہی عظیم ہستی‘ حسین بن منصور حلاّج سے جنہوں نے ارشاد کیا تھا: حسین‘ میں لکڑی کے ایک ٹکڑے کو دیکھتا ہوں‘ جسے تم اپنے لہو سے سرخ کرو گے۔ امام شاذلیؒ‘ جو امام ابن تیمیہؒ کے ہم عصر تھے۔ ابن تیمیہؒ بدعات کے شمشیر بکف دشمن تھے‘ انہیں گھور کے دیکھا تو ایک خط میں انہوں نے ذکر الٰہی کی فضیلت‘ دلائل سے واضح کی۔ بعد میں ان کا تذکرہ وہ اکرام سے کیا کرتے۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے طفیل‘ اس نواح کے ہندو قبائل مسلمان ہوئے۔ عہد آئندہ کے اہل علم نے ان سے فیض پایا اور ہمیشہ ان کی عظمت کا اعتراف کرتے رہے۔ پھر ان کے شاگرد کے شاگرد‘ مگر اپنی جگہ ایک ممتاز اور مسلّمہ معلّم اور مفکر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ۔ شیخ نے اپنی راہ الگ تراشی۔ کہا جاتا ہے کہ اس راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ وہ جبلّت کو اکساتے اور ابھرنے دیتے‘ اسے قابو میں کیے رکھتے اور آخر کار اس پہ غلبہ پا لیتے۔ مثلاً اظہار کیے بغیر غصے کو بڑھنے دیا اور آخر کار کہا: اب تو چلا جا‘ اب تو کبھی نہ آئے گا۔ غیر معمولی مجاہدہ اور حیرت انگیز توکّل۔
اپنی قسمت پہ شاکر رہنا‘ اہلِ صفا کا شعار ہے۔ حادثات کو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھنا اور صبرِ جمیل۔ اس طرزِ عمل کے لیے قرآن کریم کی آیت کو وہ رہنما کرتے ہیں: ایک چیز سے تمہیں کراہت ہوتی ہے‘ حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر چھپا ہوتا ہے۔ ایک چیز کو تم برا سمجھتے ہو‘ حالانکہ اس میں تمہارے لیے شر ہو سکتا ہے۔
ظلم پہ احتجاج ایک چیز ہے مگر حادثات پہ برہم‘ بیزار اور مشتعل ہو جانے والے‘ ناشکرگزار ہوتے ہیں۔ تقدیرِ الٰہی سے نالاں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے‘ وہیں سے شیطنت آغاز کرتی ہے۔ قرآنِ کریم شکر گزاری کو ایمان کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ فرمایا: اچھے اور برے رجحانات‘ ہم نے تمہارے ذہن میں الہام کر دیئے‘ اب چاہو تو شکر کرو اور چاہو تو پروردگار کا انکار ہی کر دو۔
عمران خان بادشاہ نہیں‘ وزیر اعظم ہے۔ انقلابی تبدیلیاں نہیں‘ وہ محض اصلاح کا علم بردار ہے۔ اداروں کی تشکیل و تعمیر اور نظامِ انصاف کا قیام۔ اہلیت پہ تقرر اور لوٹ مار کی بیخ کنی۔ خان صاحب میں فہم کتنا ہے اور معاشرے کو بہتر بنانے کی کتنی صلاحیت‘ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ حد سے بڑھا ہوا اعتماد‘ اپنی برگزیدگی کا احساس‘ مخالفین کو حقیر سمجھنے کا روّیہ اور حکمت عملی کی غلطیاں واضح ہیں۔
مخالفین بھی برحق نہیں۔ عمران خان کے مقابلے میں دونوں ہاتھوں سے ذاتی فوائد سمیٹنے والے مولانا فضل الرحمن‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے؟ الیکشن پہ بحث کا جواز موجود ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہانہ بنا کر ہنگامہ آرائی کی دلیل کوئی نہیں۔ مثلاً ہیلی کاپٹر کا استعمال۔ کئی دن سے بزرجمہر بتا رہے تھے کہ اس پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوں گے۔ بی بی سی نے منگل کی شام واضح کیا کہ چند ہزار روپے روزانہ سے زیادہ نہیں۔ اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ گاڑیوں پہ ہو گا۔ خطرات اور عام لوگوں کی پریشانی اس کے سوا۔ روزانہ ہیلی کاپٹر استعمال ہی نہ ہو گا۔ 365 دن کا حساب کیوں جوڑ لیا؟ 
رضا ربانی کا شکوہ یہ ہے کہ سینیٹ سے خطاب کے بعد‘ عمران خان ایوان میں کیوں موجود نہ رہے۔ اچھا ہوتا اگر دوسروں کو سنتے لیکن اگر زیادہ ضروری کام ہو؟ رضا ربانی کا مسئلہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور چند دوسرے سیاستدانوں کے سوا‘ ہر ادارے اور ہر شخص میں انہیں عیب ہی عیب دکھائی دیتے ہیں۔ آنجناب کے ایک خطاب پہ بحث جاری تھی۔ مشاہداللہ خان بولے: چھوڑو یار‘ وہ ایک رنجیدہ ‘ناراض اور شکوہ سنج آدمی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ کے ارکان کو ہیلی کاپٹر کی سہولت مہیا کی جائے۔ ضرور‘ بلکہ ہر سینیٹر کے لیے ایک ہیلی کاپٹر خریدا جائے۔ اسی لیے ان لوگوں کو تو ہم چنتے ہیں کہ سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کریں۔
عبدالغفور حیدری کا مسئلہ بھی وہی ہے۔ ان کی اہمیت کا انحصار‘ مولانا فضل الرحمن کی اندھی پیروی پہ ہے۔ حضرت مولانا کی فتوحات پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ لاہور کے چنبہ ہائوس جانا ہوا تو پتہ چلا کہ دو کمرے‘ مستقلاً مولانا کے لیے مختص رہتے ہیں۔ خود مولانا عبدالغفور حیدری کے اپنے بھی کچھ کارنامے ہیں‘ ان کا ذکر پھر کبھی۔
کوئی غیر جانبدارانہ آدمی‘ عمران خان کے طرزِ سیاست کا مکمّل طور پہ حامی نہیں ہو سکتا۔ صرف تعمیر ہی نہیں‘ اس میں تخریب کا عنصر بھی کارفرما ہے‘ جذباتیت اور خود پسندی بھی۔ یہ ناچیز اس سے بیزار ہے بلکہ سیاست ہی سے۔ اس پر وہ لکھنا ہی نہیں چاہتا۔ بہانے بنا کر چیخ و پکار کرنے والے مجبور کرتے ہیں کہ اس کی تائید کی جائے۔ ایک جاگیردار کے نام‘ سرکاری خزانے سے استفادہ نہ کرنے والے‘ اورنگ زیب عالمگیر نے لکھا تھا: جو اہتمام (PROTOCOL) بادشاہ اور گورنروں سے مخصوص ہے‘ دوسرے حکومتی عہدیدار اس کے حق دار نہیں ہو سکتے۔
جو سہولتیں ملک بھر کے لیے جوابدہ وزیر اعظم کے لیے رکھی گئیں‘ ایک سینیٹر ان کا سزاوار کیسے ہو سکتا ہے؟ اختیارات فرائض کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہر دفتر حتیٰ کہ نجی اداروں میں‘ کچھ افسروں کے لیے بڑی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ زیادہ تنخواہ اور مہمانوں کی تواضع کے اخراجات۔ حکمرانوں کو سادگی اختیار کرنی چاہئے‘ مگر کتنی؟
احسن اقبال نے درست کہا تھا: وزیر اعظم کو خصوصی طیارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بیرون ملک سفر کے لیے نہیں کہ اس میں وقت نہ بچے گا‘ مگر اندرون ملک‘ ہنگامی صورت حال میں تو بہرحال۔ وزراء اعلیٰ اور سپہ سالار کو بھی۔ ملک کے طول و عرض میں‘ ہر روز کئی مقامات کا قصد کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ سے‘ کیا کار میں سفر کرنے کا مطالبہ کیا جائے؟ وزیرستان اور گوادر تک؟ ڈیڑھ صدی پہلے تک بادشاہ بھی زیادہ سے زیادہ بگھی پہ سوار ہوا کرتے۔ اب یہ بدلی ہوئی دنیا ہے اور اس سے ہم آہنگ ہو کر ہی ظفرمندی ممکن ہے۔
رہا کراچی کے ناراض رکن اسمبلی کا واویلا اور ایف بی آر میں نئے چیئرمین کی تقرری پہ اخبار نویسوں کی فریاد۔ آدمی اس پر کیا کہے۔ شورش پسند کو رکن اسمبلی بنا دیا‘ وزیر بنانا کیوں ضروری ہے؟ اس کی خواہش پر کھربوں روپے کے مارٹن کوارٹرز قابضین کو کیسے دئیے جا سکتے ہیں؟ 
فیصلہ تو کارکردگی پہ ہو گا‘ جہاں زیب خاں کے بارے میں تاثر مثبت ہے۔ وہ ایک ریاضت کیش اور قابلِ اعتماد افسر مانا جاتا ہے۔ اس کے سوا بھی بہت سے اچھے افسر ہیں۔ ممکن ہے کوئی اس سے زیادہ لائق بھی ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ایوانِ وزیر اعظم میں افسروں کی کارکردگی پہ حقائق (Data) کی تفصیل مہیا نہیں۔ پاکستان میں صرف پاک فوج ہی ایک جدید ادارہ ہے‘ باقی فرسودہ۔ نتیجہ ظاہر ہے۔
اپوزیشن کی حکمت عملی یہ لگتی ہے کہ استحکام پیدا ہونے نہ دیا جائے۔ ایسا نہ ہوکہ عمران خان کچھ کر دکھائیں۔ ان کا بوریا بستر ہمیشہ کے لیے گول نہ ہو جائے۔
وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو حکمت اور صبر سے کام لینا ہوگا۔ بارہا عرض کیا کہ فقط ریاضت نہیں بلکہ ریاضت اور صبر کامیابی کی شاہ کلید ہوتی ہے۔ The master key

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved