تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-08-2018

یہ دن تو وہی کل سا دوبارہ نکل آیا

ایمانداری کی بات ہے کہ سوشل میڈیا نے جہاں خبر پر اعتبار ختم کیا ہے‘ وہیں خبر کو وہاں تک پہنچانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے، جہاں پہلے خبر کبھی نہیں پہنچ پاتی تھی؛ تاہم یہ بات بھی طے ہے کہ سوشل میڈیا پر خبریں کم اور بے پر کی زیادہ اڑائی جاتی ہیں۔ اور عالم یہ ہے کہ لوگ کان کو چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ لیکن اصل مصیبت یہ ہے کہ اب خبر اور افواہ کے درمیان کیسے معاملہ کسی کروٹ بیٹھے؟ حقیقت اور خواہش میں کیسے تفریق کی جائے۔ خبر میں سچ کتنا ہے اور چسکے کی خاطر ڈالے جانے والے مصالحے کی مقدار کتنی ہے؟ اس کا تعین کون اور کیسے کرے؟ سنجیدہ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا دراصل ''بندر کے ہاتھ میں بندوق‘‘ والا معاملہ ہے۔ میرے جیسا عام آدمی حقیقتاً کنفیوز ہے کہ وہ کہاں جائے؟ کسے خبر جانے اور کسے افواہ۔ کسے سچ جانے اور کسے محض پراپیگنڈہ۔ ویسے بھی جب سے سیاسی پارٹیوں نے سوشل میڈیا کے لیے باقاعدہ ٹیم بھرتی کر کے مخالفین کا تختہ کرنے کی مہم شروع کی ہے‘ تب سے اس بے اعتباری میں مزید اضافہ اور گند میں وہ بڑھوتری ہوئی ہے کہ الامان۔
تحریک انصاف کی حکومت کے سو دن۔ ابھی محض بارہ دن گزرے ہیں۔ بارہ دن بھی آج کا یعنی کالم شائع ہونے والا دن ڈال کر۔ لہٰذا سو دن والے پلان کو ابھی سے نیزے کی نوک پر رکھنا ہرگز مناسب نہیں کہ ابھی اس سب پر عملی کام شروع ہونے میں بھی وقت لگے گا کجا کہ نتائج کی توقع کی جائے۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، عدل و انصاف، دس ارب درخت، پولیس، پٹوار، سکول اور ہسپتال کا نظام بہتر کرنے میں دن اور ہفتے نہیں بلکہ مہینے اور سال درکار ہیں۔ اگر اس سلسلے میں معمولی سی بہتری بھی ہوتی ہوئی نظر آئے تو تنقید کے بجائے شکر ادا کرنا چاہئے کہ ایسے وقت میں جب ادارے نہ صرف بری طرح تباہ و برباد ہو چکے ہیں بلکہ ہر آنے والا دن ان میں مزید خرابی کی ''نوید‘‘ دے رہا تھا‘ اگر صرف یہ بربادی اور خرابی رک جائے تو سمجھیں اصلاح احوال کا عمل شروع ہو چکا ہے اور بہتری کی طرف پہلا قدم اٹھایا جا چکا ہے۔ لیکن وہ معاملات جن میں بہتری کے لیے بارہ دن کیا ایک دن کافی ہوتا ہے اگر اس میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی اور تبدیلی کا کوئی معمولی سا شائبہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تو پھر وہ لوگ کہاں جائیں جو تبدیلی کے منتظر ہیں اور صبحِ نو کا انتظار کر رہے ہیں؟
ایک پاکستان، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ‘ سادگی اور پروٹوکول سے نجات، اس کے لیے کیا بارہ دن کم ہیں؟ میرا خیال ہے اس کے لیے محض ایک دن ہی کافی تھا۔ اس حساب سے گیارہ دن زیادہ گزر چکے ہیں۔ معاملہ وہیں نظر آ رہا ہے۔ وزیراعظم‘ وزیراعظم ہائوس میں بھی نہیں رہ رہے اور حسب دعویٰ ابھی تک نہ منسٹر انکلیو میں شفٹ ہوئے ہیں اور نہ ہی خبر کے مطابق وزیراعظم ہائوس میں ملٹری سیکرٹری کے مکان میں قیام پذیر ہوئے ہیں۔ دو نوکروں اور دو کمروں کے ساتھ دو گاڑیوں والا دعویٰ بھی ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا اور وزیراعظم صاحب روزانہ بنی گالہ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر وزیراعظم سیکرٹریٹ تشریف لے جا رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر روزانہ ہیلی پورٹ سے‘ جو کہ سپورٹس کمپلیکس کے پاس واقع ہے‘ اڑتا ہے اور بنی گالہ جاتا ہے۔ وہاں سے عمران خان صاحب کو لے کر وزیراعظم سیکرٹریٹ جاتا ہے‘ اور پھر اسی طرح روزانہ واپس آتا ہے اور رات ہیلی پورٹ پہ آرام کرتا ہے۔
صفائی یہ دی جا رہی ہے کہ وزیراعظم کی نقل و حرکت پر جو روٹ لگتا ہے اس سے مخلوقِ خدا کو تنگی سے بچانے کے لیے یہ ہیلی کاپٹر والا اہتمام کیا گیا ہے۔ بندہ پوچھے اگر پروٹوکول ختم ہو گیا ہے تو پھر روٹ کیسا؟ اگر روٹ لگتا ہے تو پھر پروٹوکول کا خاتمہ کہاں ہے؟ خیر ان دونوں سوالات کو چھوڑیں۔ اگر خان صاحب حسب وعدہ وزیراعظم ہائوس میں نہ سہی وہاں ملٹری سیکرٹری کے گھر ہی شفٹ ہو جائیں تو اس روٹ سے مخلوق خدا کی تنگی سے‘ سکیورٹی کے مسائل سے اور ہیلی کاپٹر پر سواری کی بدنامی سے نجات مل جاتی مگر بقول شاہ جی عمران خان صاحب کو کے پی کے والے ہیلی کاپٹر کی بد مزہ سواری سے اب اتنا مزہ آنے لگ گیا ہے کہ وزیراعظم کے لیے مختص لینارڈو AW139 ہیلی کاپٹر کے بغیر بنی گالہ میں رہنے کا سواد ہی نہیں آ رہا۔
اوپر سے وزیر اطلاعات قبلہ فواد چودھری کا فرمانا ہے کہ عمران خان کی ہیلی کاپٹر پر سواری وی آئی پی کلچر کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وی آئی پی کلچر کا تعلق ہیلی کاپٹر کی سواری، چارٹرڈ جہاز کے سفر، حسب سابقہ والے روٹ لگنے وغیرہ سے نہیں بلکہ بندے سے ہے۔ اگر یہ سب کچھ شو باز شریف کرے تو پھر یہ وی آئی پی کلچر ہے لیکن یہی چیز عمران خان کریں تو اس کا تعلق وی آئی پی کلچر سے قطعاً نہیں ہے۔ اوپر سے فواد چودھری نے ہیلی کاپٹر کا فی کلومیٹر خرچہ بھی پچپن روپے فرما دیا ہے۔ لگژری گاڑی بھی تقریباً اسی بھائو کرائے پر ملتی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ صرف ہیلی کاپٹر کو سٹارٹ کرنے کا خرچہ پچپن سو روپے سے زیادہ آتا ہے کجا کہ فی کلومیٹر خرچہ پچپن روپے آئے۔ جب اس پر تنقید شروع ہوئی تو وزیر صفائی (میرا مطلب ہے فواد چودھری) نے فرمایا کہ انہوں نے دراصل یہ معلومات گوگل سے لی تھیں۔ اگر مملکت کی نمائندگی کرنے والے اور سب سے زیادہ با خبر تصور کیے جانے والے وزیر اطلاعات و نشریات کا یہ عالم ہو کہ اس کا اپنا ذریعۂ معلومات گوگل ہو تو ان سے زیادہ علم کے حامل ''گوگل‘‘ کو ہی یہ منصب سونپ دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ ویسے ہم کو بھی اس وزیرِ اطلاعات سے رابطہ کرنے میں خاصی آسانی رہے گی۔
ادھر یہ عالم ہے کہ اخبار ایک روز خبر لگاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈھابے پر بیٹھ کر چائے پی۔ عوام سے گھل مل گئے اور بل بھی محض دو سو روپے بنا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ سن کر جی خوش ہوا۔ اگلے روز خبر ملی کہ وزیراعلیٰ موصوف خادم اعلیٰ بنے بغیر ہیلی کاپٹر پر چڑھ کر پاکپتن شریف حاضری کے لیے تشریف لے گئے ہیں۔ ان کے دورے کے دوران شہر میں سکیورٹی کے نام پر دکانیں بھی بند کروائی گئیں اور دربار بابا فرید گنج شکر کو بھی زائرین سے خالی کروا لیا گیا۔ 
یہ چند روزہ حکومت کا وی آئی پی کلچر ختم کرنے، پروٹوکول نہ لینے اور بچت کرنے کے اعلانات کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم روزانہ ہیلی کاپٹر پر گھر سے وزیراعظم سیکرٹریٹ تک آ جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے گھر بجلی نہیں (جو ان کی نالائقی ظاہر کرتی ہے) اور وہ گزشتہ چھ، سات روز سے ہیلی کاپٹر پر چڑھے پھر رہے ہیں۔ اوپر سے یہ عالم ہے کہ اب لوگ بنی گالہ کی حاضری کے بعد دوسری حاضری دربار پاکپتن شریف میں دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس چوکھٹ پر وزیراعظم خود سجدہ ریز ہو چکے ہوں بھلا وہاں ہما شما کی کیا مجال کہ حاضری نہ دیں۔
میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! یہ کیا کھلا تضاد ہے کہ وزیراعلیٰ ایک طرف ڈھابے پر بیٹھ کر دوسو روپے کی چائے پیتے ہیں اور وی آئی پی کلچر کا تختہ کرتے ہیں دوسری طرف وہ ڈھابے سے اٹھ کر ہیلی کاپٹر پر چڑھ جاتے ہی۔ شاہ جی زور سے ہنسے اور سرائیکی میں کہنے لگے: بھائی صیب! چاہ اینہاں نیں پلوں پیتی ہائی تے ہیلی کاپٹر دی سواری سرکاری خرچے تے ہائی (چائے انہوں نے پلے سے پی تھی اور ہیلی کاپٹر کی سواری سرکاری خرچے پر کی تھی) اس دوران یعنی بارہ روزہ حکومت میں ڈی پی او پاکپتن کی رات ڈیڑھ بجے فوری ٹرانسفر، بلکہ او ایس ڈی بنایا جانا، ریلوے کے افسر حنیف گل کی معطلی، شیخ رشید کا تنگ بازار میں رکاوٹ بننے والی موٹر سائیکلوں کے مالکان کو دھمکیاں اور اس سے ملتی جلتی کہانیاں۔ بارہ دن میں صرف اتنی کہانیاں ہی ممکن تھیں اب وہی بات کہ اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا سوشل میڈیا کا چسکے دار اضافہ۔ اس بارے یہ عاجز فیصلہ نہیںکر پا رہا۔ تاہم ان آخری کہانیوں پر تفصیل سے لکھنے پر فی الحال دل آمادہ نہیں‘ مگر ہیلی کاپٹر والا معاملہ کہانی نہیں۔ شوکت فہمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ 
ہم خوش تھے بہت رات گزر جانے پہ لیکن
یہ دن تو وہی کل سا، دوبارہ نکل آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved