تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     30-08-2018

سیاسی مخاصمتیں

2006ء میں چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران وزیرآباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔پہلے مرحلے میں مجوزہ طور پر 200بستروں پر مشتمل اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع‘ بلکہ اس ڈویژن سے ملحقہ اضلاع میں بھی دل کے مریضوں کو طبی سہولیات میسر آنی تھیں۔منصوبے کے خدوخال کچھ یوں تھے کہ اس کی تکمیل سے 15اضلاع کے قریباً ایک کروڑ افراد کو فائدہ پہنچنا تھا۔اس سے پہلے ملتان ‘ فیصل آباد اور لاہور ڈویژزمیں کارڈیک ہسپتال فعال ہوچکے تھے ‘تو وزیرآباد ہسپتال منصوبے کی تکمیل سے تقریباً پورا پنجاب کور ہوجاتا۔
ہسپتال پر کام شروع ہونے کے ایک سال بعد پرویز الٰہی کی حکومت ختم ہوگئی‘تب تک اس کا ڈھانچہ بھی مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے‘ تو منصوبے کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا۔وجہ بہت سیدھی اور صاف تھی کہ کوئی بھی ایسا منصوبہ ‘جو سیاسی مخالفین کی طرف سے شروع کیا گیا تھا‘ اسے مکمل کرنا نئی حکومت کی ترجیحات میں کہیں بھی سٹینڈ نہیں کرتا تھا۔اس معاملے پر گاہے بگاہے آوازیں بھی اٹھتی رہیں ‘لیکن جب کوئی ‘ کسی آواز کو سننا ہی نہ چاہے‘ تو پھر اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟ چاہے‘ ایسا کرنے سے مریض رل ہی کیوں نہ جائیں۔چاہے‘ ایسا کرنے سے منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات ضائع ہی کیوں نہ ہوجائیں یا پھر ایسا کرنے سے دل کے مریضوں کو اپنی جانوں سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑیں۔ مخالفت یا مخاصمت اسی کا تو نام ہے‘ لیکن کوئی بھی ذی شعور اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا۔سیاسی مخالفت اپنی جگہ‘ لیکن ایسا بھی کیا کہ سیاسی مخالفت کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ اس سے مریض تک متاثر ہونے لگیں۔لوگ دہائیاں دیتے رہے‘ لیکن کسی کے کام پر جوں تک نہ رینگی۔وہ تو بھلا ہو اعلیٰ ترین عدلیہ کا‘ جس کے حکم پر 2016ء میں اس پر دوبارہ کام شروع کیا گیا‘ جس کے بعد اب یہ کم از کم 15اضلاع کو طبی سہولیات فراہم کررہا ہے۔
اب تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں:16ایکٹر رقبے پر محیط پنجاب اسمبلی کی موجودہ عمارت 1935ء میں تعمیر کی گئی تھی۔دومنزلہ عمارت کا سنگ بنیاد پنجاب کے اس وقت کے وزیرزراعت سردار جوگندر سنگھ نے رکھا تھا۔اپنی تکمیل کے بعد یہ وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار قرار پائی‘ جو اچھی طرح دیکھ بھال ہونے کے باعث آج بھی اپنی چمک دمک برقرار رکھے ہوئے ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ممبران کی تعداد زیادہ اور سیٹوں کی گنجائش کم ہوتی چلی گئی۔بدلتی صورت حال کے پیش نظرگاہے بگاہے اس میں توسیع بھی کی جاتی رہی‘ لیکن بالآخرکم ہوتی ہوئی گنجائش کے پیش نظر اسمبلی کی نئی عمارت تعمیرکرنے کا ڈول ڈالا گیا۔13سال قبل چوہدری پرویز الٰہی کی ہی وزارت اعلیٰ کے دور میں اس پر ایک ارب 30کروڑ روپے کی لاگت سے کام شروع کیا گیا۔عمارت کا ڈھانچہ مکمل ہوگیا اور اس کے خدوخال بھی بڑی حد تک واضح ہوگئے‘ لیکن پھر چوہدری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ اختتام پذیر ہوگئی۔میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے ‘تو اس منصوبے پر فوراً کام روک دیا گیا۔منصوبے پر کام کرنے والوں کو ادائیگیاں روک دی گئیں اوررفتہ رفتہ منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتاگیا‘جو اس وقت 4ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔وقت کے ساتھ حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک مرتبہ پھر اس منصوبے کی سنی گئی ہے‘ جس پر دوبارہ کام شروع کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔پنجاب اسمبلی کے منتخب ہونے والے سپیکر پرویز الٰہی کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ آئندہ سال اس عمارت کی تعمیر مکمل کرلی جائے گی۔منصوبے کی تکمیل کے بعد پنجاب اسمبلی میں اراکین کے لیے جگہ کی تنگی کی شکایت دور ہوجائے گی۔دومنصوبوں کی بابت یہ مثالیں ہماری سیاسی برداشت اور کلچر کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں‘ لیکن بات یہاں تک پہنچ جائے کہ سیاسی مخالفین کے اچھے کاموں کی بابت سننا بھی ناگوار گزرنے لگے ‘تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
چلئے تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیںکہ دور کوئی بھی ہو‘ سوچیں ہیں کہ تبدیل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔2018ئ: لاہور میں واقع ریلوے ہیڈکوارٹر میں نئے وزیرریلوے شیخ رشید ایک اجلاس کے دوران افسران سے بریفنگ لے رہے تھے۔بریفنگ کے دوارن سگار پیتے ہوئے شیخ صاحب کے چہرے پر ناگوار ی کے اثرات واضح طور پرمحسوس کیے جاسکتے تھے۔کیوں؟اس لیے کہ بریفنگ دیتے ہوئے ریلوے کے چیف کمرشل منیجر حنیف گل سے تھوڑی سی گستاخی سرزد ہورہی تھی۔گستاخی صرف اتنی سی تھی کہ حنیف گل نئے وزیرریلوے کو اپ ڈیٹ کرنے لیے بتا رہے تھے کہ جب خواجہ سعدرفیق نے وزیرریلوے کا عہدہ سنبھالا ‘تو محکمہ تقریبا ًڈوب چکا تھا۔اب پانچ سال کے بعد محکمے کی آمدنی 18سے بڑھ کر 55ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔25سے زائد بند روٹس بھی کھل چکے ہیں ‘تو ساتھ ہی ساتھ ٹرینوں کی رفتار میں بھی اضافہ کیا جاچکا ہے۔بند ہونے والے مال بردار گاڑیوں میں سے متعدد بحال کی جاچکی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔درمیان میں شیخ صاحب بے چینی سے پہلو بدلتے رہے‘ لیکن حنیف گل حالات کو بھانپنے میں ناکام رہے۔ہروقت اخلاقیات کا درس دینے والے شیخ رشید صاحب کی قوت برداشت جواب دے گئی‘ تو دھاڑ کر بولے: گل صاحب !رضیہ بٹ کا ناول سنانا بند کریں۔شنید تو یہ بھی ہے کہ اس دوران شیخ صاحب نے خواجہ سعد رفیق کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے۔اس سے ایک روز پہلے بھی ریلوے کے افسران نئے وزیر کے طنطنے کی کچھ جھلکیاں دیکھ چکے تھے‘ لیکن دوسرا دن پہلے دن سے زیادہ کڑا گزرا۔شیخ صاحب کی لعن طعن پر چیف کمرشل منیجر نے احتجاج کیا‘ تو جواباً شٹ اپ جیسے الفاظ سننے کو ملے ۔جواب آں غزل کے طور پر حنیف گل نے یو شٹ اپ کہہ دیا اور اجلاس ختم ہوگیا۔اس صورت حال کا فی الحال یہی نتیجہ نکلا ہے کہ حنیف گل کی 2سال کی رخصت کی درخواست نامنظور کرتے ہوئے انہیں اوایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
یہ ہیں ‘وہ سوچیںاور یہ ہیں ‘وہ رویے‘ جن کا سامنا ہمیں ہردور میں ہی کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ شیخ رشید اور عمران خان کے ایک دوسرے کے اتحادی بننے سے پہلے کیسے تعلقات تھے؟ دونوں ایک دوسرے کو کن الفاظ میں پکارتے تھے۔اب شیخ رشید وقت کے ہیر پھیر کے باعث عمران خان کے اتحادی بننے کے بعد وزیرریلوے بھی بن گئے ہیں‘ لیکن کیا کسی بھی وزیر کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے محکمے کے افسران کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرے۔نئی حکومت کے وزراء سے تو خصوصاً اس طرح کے رویوں کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی ‘کیونکہ نئی حکومت تبدیلی کا نعرہ لے کر برسراقتدار آئی ہے۔ عوام نے اس کو موجودہ نظام سے چھٹکارے کے نام پر ووٹ دئیے ہیں‘ لیکن اگر یہی رویے برقرار رہے‘ تو پھر نئے آنے والے وزیر شیخ رشید کا نام لینے پر بھی پابندی عائد کردیں گے۔ان کے اچھے کاموں پر بھی بات کرنے کو ممنوع قرار دے دیا جائے گا‘ تو پھر شیخ صاحب کو گلہ نہیں ہونا چاہے۔ بات عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ اچھاکام پرویزالٰہی کریں یا پھر سعدرفیق یا کوئی اور اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘ تاکہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے۔ چوہدری پرویزالٰہی دور میں شروع کیے جانے والے جن دومنصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ کیا انہیں روکے جانے کی کوئی وجہ پیش کی جاسکتی ہے یا اگر سعد رفیق نے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے جو کام کیا‘ اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟بلاشبہ کوریا سے 10کھٹارہ انجن خریدنے سمیت کچھ ایسے فیصلے بھی ہوئے‘ جن کے باعث ریلوے کو قریباً ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر کا ٹیکہ لگا‘ لیکن اس کے باوجود ؛اگر ایک ڈوب جانے والے ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا گیا ہے‘ تو اس کی تحسین بھی ہونی چاہیے۔
یہ توسیاسی مخاصمت کی صرف چند ایک ہی مثالیں ہیں‘ ورنہ توہر جگہ یہی کچھ دیکھنے میں آتا ہے۔ اس وقت‘ جبکہ نئی حکومت سے عوام کی بے تحاشہ توقعات وابستہ ہوچکی ہیں‘ ایسے میں نئی حکومت کے ذمہ داران کو ہرقدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔بولتے ہوئے الفاظ کا محتاط چناؤ کرنا ہوگا‘ورنہ پہلے سے ہی پھیلی ہوئی بے یقینی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔بے تحاشہ بولنے کی عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔یہاں تو یہ عالم ہے کہ وزیرخارجہ بھی گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنس کرتے ہیں ‘جس دوران بہت سی باتیں ایسی بھی سامنے آجاتی ہیں‘ جس پر لے دے ہونا شروع ہوجاتی ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر نئی حکومت بھی اپنے وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی‘ تو پھر سیاستدانوں پر رہے سہے اعتماد کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved