خان صاحب انگور بیچ رہے تھے۔ ٹھیلا بھرا ہوا تھا۔ ایک کار آکر رکی۔ صاحب باہر آئے۔ ٹھیلے پر رکھے ہوئے انگوروں پر ایک نظر ڈالی‘ پھر خان صاحب سے نرخ پوچھے۔ جواب ملا :ڈیڑھ سو روپے کلو۔ کار والے صاحب بولے :سارے انگور تول کر کار کی ڈِکی میں رکھ دو۔ خان صاحب نے کچھ سوچا‘ پھر بولے جاؤ جاؤ‘ ہم تم کو انگور نئی دے گا؟۔ کار والے صاحب نے حیران ہوکر سبب پوچھا تو جواب ملا :اگر سارا انگور تم کو بیچ دے گا‘ تو باقی دن ہم کیا کرے گا! ع
اتنے مانوس صیّاد سے ہوگئے‘ اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے!
قوم کا اِس وقت کچھ ایسا ہی حال ہے۔ قدم قدم پر مسائل کے انبار ہیں مگر بعض مسائل ایسے ہیں کہ قوم اُن کا حل نہیں چاہتی! کیوں؟ بھئی اِس لیے کہ انسان جب کسی چیز کا عادی ہو جاتا ہے تو اُس سے بچھڑنے کے تصور ہی سے دکھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کبھی کبھی عرصۂ دراز سے دل کے کسی کونے میں پڑی ہوئی تمنّا پوری ہونے لگے تو دل میں یہ تمنّا ابھرنے لگتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہو۔ گویا ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی!
بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے اجتماعی مزاج و نفسیات کا حصہ بن چکا ہے اور ہمیں مسلسل پریشان بھی رکھتا ہے‘ مگر اس کے باوجود ہم اُس سے چھٹکارا نہیں چاہتے۔ دل چاہتا ہی نہیں کہ تکلیف دینے والا ہر مسئلہ حل ہوجائے۔ یعنی ؎
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مِرا نام ہی آئے
آئے تو سہی‘ برسر الزام ہی آئے
یوں تو خیر ہم نے بہت کچھ پال رکھا ہے۔ عادات و اطوار میں بہت کچھ ایسا ہے کہ اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھ دینے والی ہر عادت یا طور کو خدا حافظ کہنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ‘تو ہمیں یکسر تہی دست ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا!
فرید جاویدؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
وہ دن ہوا ہوئے جب معاملہ گفتگو کی منزل میں رہا کرتا تھا۔ زمانہ کروٹیں بدلتے بدلتے اُس مقام تک آگیا ہے ‘جہاں لوگ بات کرنے کے نام پر منجن‘ چُورن بیچنے لگے ہیں! بات کرنا ہماری‘ آپ کی یعنی سب کی بنیادی اور یومیہ ضرورت ہے۔ روز بہت سوں سے بات کرنا پڑتی ہے کہ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں ‘مگر الجھن کی بات یہ ہے کہ ایک بنیادی اور یومیہ ضرورت کو یاروں نے مستقل دردِ سر میں بدل لیا ہے۔ کسی سے کچھ استفسار کیجیے تو وہ مطلوبہ نکتہ یا نکات بیان کرنے کی بجائے بالکل وہی انداز اختیار کرنے لگتا ہے‘ جو بڑی بسوں میں منجن اور چُورن بیچنے والے اختیار کیے رہتے ہیں!
محترم انورؔ مسعود فرماتے ہیں ؎
اک بات آگئی ہے بہت کُھل کے سامنے
ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا
اک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا
قِصّہ کچھ یوں ہے کہ ٹیڑھے مزاج کا معاملہ ہر گھر یا گھرانے تک محدود نہیں رہا۔ مزاج میں کجی اور لہجے میں تلخی رکھنے والے قوم کا جُزوِ لاینفک ہوکر رہ گئے ہیں۔ قوم کا المیہ یہ ہے کہ ٹیڑھا مزاج رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اضافے کی رفتار بھی اچھی خاصی ہے۔ صورتِ حال ایسی تشویشناک ہے کہ دیکھ دیکھ کر ذہن کی پیچیدگی کا گراف بلند تر ہوتا جاتا ہے۔
مزاج کی کجی اور لہجے کی تلخی تک تو معاملہ ایسا ہے کہ گزارا ہوسکتا ہے‘ مگر اس سے ایک قدم آگے جاکر مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بولنے کے نام پر ''موقف‘‘ بیان کرنے لگے ہیں۔ ایسی حالت میں ہر لفظ ع
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
کی منزل پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ میں کہوں اور کچھ آپ کہیں‘ یعنی ایک دوسرے کی بات سُنی جائے اور سمجھی بھی جائے ‘تاکہ غلط فہمی دور ہو‘ معاملات سمجھ میں آنے لگیں۔ گفتگو نام ہے خیالات کے تبادلے کا۔ جب تک ایک دوسرے کے خیالات سُنے اور سمجھے نہ جائیں تب تک کوئی بھی معاملہ شفافیت کی منزل تک نہیں آ پاتا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ جب کچھ کہنا چاہتے ہیں ‘تو خطاب شروع کردیتے ہیں اور خطاب بھی اس طور جیسے کسی نے بٹن دبا دیا ہو! موقع ملنے پر بندہ شروع ہوتا ہے تو رکنے کا‘ سانس لینے کا نام نہیں لیتا۔ ذہن میں جو ہو وہ بھی اور جو نہ ہو وہ بھی بیان کرچکنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ کسی کے دل پر قیامت گزرتی ہے‘ تو گزر جائے‘ جسے جو کہنا ہے وہ تو بس کہنا ہی ہے اور وہ بھی تقریر کے پیرائے میں۔
ایک دور تھا کہ شائستگی معاشرے کا غالب رجحان تھی۔ بیشتر معاملات میں اعتدال اور توازن اِس قدر عام تھا کہ اس ڈگر سے ذرا سا بھی ہٹنے پر انسان عجیب سا دکھائی دینے لگتا تھا۔ تب شائستگی کا تعلق اِس بات سے نہیں تھا کہ کون کتنا پڑھا لکھا ہے یا کتنا بے پڑھا رہ گیا ہے۔ یہ معاملہ گھر اور خاندان کے اندر دی جانے والی تربیت کا تھا۔ بزرگوں کی سخت نگرانی میں پروان چڑھنے والے بچے عادات و اطوار کے اعتبار سے انتہائی مثالی ہوا کرتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر پورے خاندان کی مجموعی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ تربیت کا معاملہ یوں تو خیر تمام ہی معاملات پر محیط ہوا کرتا تھا ‘تاہم زور طرزِ بیاں پر ہوا کرتا تھا‘ یعنی سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جاتی تھی کہ کیا کہنا ہے اور کس طرح کہنا ہے۔ بچوں کو خاص طور پر بتایا اور سکھایا جاتا تھا کہ جو کچھ بھی کہنا ہے ٹھہر ٹھہر کر‘ سکون اور توازن کے ساتھ کہنا ہے‘ تاکہ سُننے والے ہیجان میں مبتلا نہ ہوں اور بات سمجھنے کی حالت میں رہیں۔ بچوں کو خاصی چھوٹی عمر سے شعوری اور تحت الشعوری طور پر باور کرادیا جاتا تھا‘ بہت کچھ بہت تیزی سے اور تقریباً چیخنے کے انداز سے کہنا بات کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران پاکستانی قوم نے اور کچھ نہ سہی‘ اتنا ضرور سیکھ لیا ہے کہ ہر بے ڈھنگی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنی ہے تاکہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی سُننے پر مجبور ہوں اور جب سُن ہی لیں ‘تو ماننے میں کیا ہرج ہے! اب کسی کو گفتگو میں شریک کرنے کا مطلب ہے ‘اپنے حواس اور بالخصوص سماعت کی موت کو دعوت دینا۔ لوگ بات کرنے کا موقع ملتے ہی ‘جس تیزی سے خطابت اور پھر یاوہ گوئی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اُس کے لیے غالبؔ کے خطوط میں آیا ہے ؎
پُر ہوں میں درد سے یُوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے‘ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
بسا اوقات کیفیت یہ ہوتی ہے کہ کسی کا بٹن دب جائے اور وہ شروع ہوجائے ‘تو پھر بے حواسی کے عالم میں کسی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اُسے روکنے کا بٹن کہاں ہے!
اور آخر میں امریکا سے عارفؔ امام کا گِریہ ؎
ہائے وہ حلقۂ اربابِ فراست کہ جہاں
گفتگو ہوتی تھی‘ تقریر نہیں ہوتی تھی