تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-08-2018

گزری ہوئی نسلوں کا شکریہ

انسان نے جب اس کرہ ٔ خاک پہ آنکھ کھولی ‘ تو اسے wifiکا تو کیا علم ہوتا‘ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پہیہ بھی کوئی چیز ہے ‘ جس سے وزن منتقل کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے ۔ اسے کرۂ ارض کے نیچے موجود کوئلے ‘ تیل اور گیس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا ۔ خوردبینی جرثومے بیماریاں پیدا کرتے ہیں ‘ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔ آگ اس کے قابو میں نہیں تھی ۔ وہ سرد راتوں میں ٹھٹھرتا رہتا تھا۔اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین کے نیچے پانی موجود ہے ۔ اس کے پا س کھدائی کے اوزار نہیں تھے ۔ اس کے پلّے کچھ بھی نہیں تھا ۔وہ پولیو کی ویکسین اپنے بچوں کو نہ دے سکتا تھا ۔اسے فصلیں اگانی نہیں آتی تھیں ۔ اسے جال میں مچھلی قید کرنی نہیں آتی تھی ۔ اس کے پاس بخار کا علاج نہیں تھا ۔ ملیریا لا علاج تھا۔ اسے ٹی بی کے نام کا بھی علم نہیں تھا ‘ کینسر تو بہت دُور کی بات ہے ۔ 
انسان کو مردے دفنانے کا علم نہیں تھا ۔ پے بہ پے ‘الوہی رہنمائی اسے ملتی رہی ۔ جب دنیا میں سب سے پہلے ایک انسان نے اپنے بھائی کو قتل کیا اور پھر سوچنے لگا کہ لاش کا کیا کرنا ہے ۔ اس وقت دو پرندے ‘اس کے پاس آئے۔ ایک نے چونچیں مار مار کے دوسرے کو قتل کیا ‘ پھر اسی چونچ سے مٹی کھودی اور اسے دفن کر دیا ۔روٹین میں ایسا ہوتا نہیں ہے‘ بلکہ یہ خصوصی طور پر ایک انتظام تھا۔ جہاں انسان پھنس جاتا تھا‘ رک جاتا تھا‘ وہاں اسے اس طرح راستہ دکھا دیا جاتا تھا؛اگر کوئی کہے کہ پرندے تو اپنے مردوں کو نہیں دفناتے‘ تو ان سے سوال یہ ہے کہ Dung Beetleاور پہیے کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ Dung Beetleایک کیڑا ہے ۔ یہ ہاتھی اور بھینس جیسے جانوروں کے فضلے کا ایک بہت بڑا ‘ اپنے سے بھی بڑا گیند بناتاہے ‘ پھر اسے لڑھکا کے دُور اپنے بل تک لے جاتا ہے ۔ یہ ایک رات میں اپنے وزن سے 250گنا وزنی گوبر کے گولے اکھٹے کر سکتاہے ؛ اگر آپ انسانوں سے اس کا موازنہ کریں‘ تو یہ ایسا ہی ہے ‘ جیسا کہ ایک 70کلو کا آدمی ایک رات میں سترہ ہزار کلو کا سامان اکھٹا کر لے ‘ بغیر کسی مشین کے ۔ Dung Beetleفضلے کے جو گولے بناتا ہے ‘ وہ پہیے کی طرح گول ہوتے ہیں ۔ یہ عین ممکن ہے کہ انسان نے پہیہ بنانے کا منصوبہ اسی کیڑے سے لیا ہو۔ یہاں یہ یاد رہے کہ Dung Beetleکے تین کروڑ سال پرانے فاسلز موجود ہیں ‘ جبکہ مراکش سے ملنے والی ہومو سیپینز (انسان) کی قدیم ترین باقیات صرف تین لاکھ سال پرانی ہیں ۔
انسان جب کرہ ٔ ارض پہ آیا‘ تو اس نے زمین کے اوپر اور اس کے نیچے موجود ذخائر ڈھونڈے اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے زمین کھودی‘ پانی نکالااور کوئلہ بھی۔ اس نے لوہا نکالا اور اس سے آلات بنائے۔ اس نے زمین پر پہلے سے موجود لکڑی سے آگ جلائی اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے آواز کو لہروں میں تبدیل کر کے کر ۂ ارض کے کونے کونے تک پہنچایا ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ان گزری ہوئی نسلوں کے ہم پہ کس قدر احسانات ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کرہ ٔ ارض پہ موجود اربوں انسان انٹر نیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں ۔ دنیا بھر میں موجود لاکھوں سائنسدان اپنی تحقیقات ایک دوسرے تک پہنچا رہے ہیں ۔ چند سال تک موٹاپے اور ذیابیطس کاعلاج بھی دوا کے ذریعے کیا جائے گا۔ 
ہم توصرف میڈیکل سائنس کو یہاں تک پہنچانے والوں کاشکربھی ادا نہیں کر سکتے۔ آج سے صرف ایک صدی پہلے 1900ء میں دنیا میں انسانوں کی اوسط عمر صرف31برس تھی ۔آج یہ دُو گنا سے بھی زیادہ ہے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں امریکہ کے ہسپتال پولیوکے شکار بچوں سے بھرے ہوئے تھے۔ 1952ء میں 58ہزار امریکی اس سے متاثر ہوئے ‘ جن میں اکثریت بچوں کی تھی ‘ پھر Jonas Salkنام کا ایک بندہ آیا۔ اُس نے اس وائرس کی شناخت کی۔ اس کی ویکسین بنائی۔ آج ہماری اولادیں‘ اس خوفناک بیماری سے محفوظ ہیں ۔ 
جدید انسان کی چالیس پچاس ہزار سالہ تاریخ میں محقق اگر عدسے دریافت نہ کرتے تو کمزورنظر والے ایک productiveزندگی نہ گزار سکتے ۔ پتھر کے زمانے میں لوگوں کی عمریں اسی لیے تو کم تھیں کہ جن کی نظر کمزور ہوتی یا اس طرح کے دوسرے مسائل ہوتے‘ وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتا۔ انسانوں میں سر بڑا ہونے اور کولہے کی ہڈی کم چوڑی ہونے کی وجہ سے بچّے کی پیدائش ایک انتہائی خوفناک مرحلہ ہے ۔زمانہ ٔ قدیم میں بے شمار عورتیں اس دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتیں اور اکثر کیسز میں بچّے بھی ۔ آج جو صورتِ حال ہے ‘ وہ آپ کے سامنے۔ نارمل ڈلیوری کی نوبت ہی نہیں آتی۔ آدھے گھنٹے میں کٹ لگا کر بچّہ ماں باپ اور رقم ہسپتال والوں کے حوالے ۔ 
کبھی میں سوچتا ہوں کہ چند صدیاں قبل‘ اگر کسی کے ٹانسلز خراب ہو جاتے ہوں گے‘ تو آخری چارہ ِ کار کے طور پر انہیں نکال باہر کرنے کی کوئی آپشن تو تھی نہیں ۔عمر بھر گوشت کے ان خراب لوتھڑوں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی۔ اسی طرح Acid Refluxکا مسئلہ ہے ۔ کچھ کیسز میں یہ اتنا شدید ہوتاہے کہ نمازمیں سجدہ کرتے ہوئے سارا کھانا منہ میں آجاتاہے ‘ جبکہ کھانا کھانے کے بعد بندے کی اپنے آپ سے ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ خوراک اور معدے کا تیزاب ڈکار کے ساتھ اچھل اچھل کر منہ میں آرہا ہوتاہے ۔ اب آخری چارہ ِ کار کے طور پر اس کی بھی سرجری کر دی جاتی ہے ۔ 
گنٹھیا اور ٹی بی کا علاج دریافت ہو چکا ہے ۔ ظہیر الدین جیسا فاتح مبینہ طور پر ٹی بی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا تھا ۔ اب فلاحی ہسپتالوں سے بے شمار غریب افراد بھی صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔ ویسے یہاں پر یہ کہتا چلوں کہ وہ میڈیکل سائنس ‘جس میں ہزاروں سالہ انسانی تجربے کو سائنسی بنیادوں پر پڑھایا اور پریکٹس کیا جاتاہے ‘ وہ ایلو پیتھی ہی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جسے بھی سرجری کروانی پڑے تو ایلو پیتھی پڑھے ہوئے شخص (سرجن ) کے پاس ہی جانا پڑتاہے ۔ اس میڈیکل سائنس میں specialization ہوتی ہے ۔ کینسر کا معالج الگ ہے ‘ نظامِ انہضام اوردل کا الگ۔ 
خدا کا شکر تو ادا کرنا ہی ہے کہ اس نے انسان کو دماغ دیا ‘ عقل دی اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے اندر اور اپنے باہر کی کائناتوں میں جھانک سکے ۔ ہیرے جواہرات کھود نکالنے سے لے کر اپنے جسم کے اندر کیمرہ ڈال کے مرض کا جائزہ لے سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گزری ہوئی نسلوں کا بھی بہت بہت شکریہ کہ جنہوں نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں ۔ ہمیں بجلی‘ اے سی ‘ گاڑی ‘ موبائل فون اور انٹرنیٹ سے نوازا ۔ظاہر ہے کہ اگر ہم زمین پر ایجادات کا وسیلہ بننے والے انسانوں کا شکر ہی ادا نہ کریں گے‘ تو ان دیکھے خدا کا شکر کون ادا کرے گا!

خدا کا شکر تو ادا کرنا ہی ہے کہ اس نے انسان کو دماغ دیا ‘ عقل دی اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے اندر اور اپنے باہر کی کائناتوں میں جھانک سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گزری ہوئی نسلوں کا بھی بہت بہت شکریہ کہ جنہوں نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں ۔ ہمیں بجلی‘ اے سی ‘ گاڑی ‘ موبائل فون اور انٹرنیٹ سے نوازا ۔ظاہر ہے کہ اگر ہم زمین پر ایجادات کا وسیلہ بننے والے انسانوں کا شکر ہی ادا نہ کریں گے‘ تو ان دیکھے خدا کا شکر کون ادا کرے گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved