تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-08-2018

ضیا الحق‘ نواز شریف ‘ مشرف اور عمران

کیا فواد چوہدری نے نادان دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے حوالے سے 55 روپے کا مضحکہ خیز بیان جاری کر کے متحدہ اپوزیشن کو پی ٹی آئی حکومت کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم نہیںکیا؟ 1997ء سے اب تک پاکستان تحریک انصاف کا ہر ایک ورکر اور سوشل میڈیا کا ہر یوزر یہ جانتا ہے کہ راقم نے ہمیشہ کس طرح پی ٹی آئی کا دفاع کیا ہے اور کس طرح پاکستان تحریک انصاف کے لیے اپنے قلم کو استعمال کیا ہے۔ اس لئے اگر کوئی مجھ سے ناراض ہو کر زرداری اور نواز شریف والا رویہ رکھے گا‘ تو مجھے اس کی پروا نہیں ۔
جنرل ضیاالحق‘ میاں نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری اور پھر جنرل پرویز مشرف اور عمران خان‘ پاکستان کی سیا ست کے ان چھ کرداروں میں ضیاالحق ‘ بے نظیر‘ زرداری اور میاں نواز شریف میں ایک قدر مشترک ہے کہ انہیں اپنے حق اور مخالفت میں لکھی جانے والی ہر تحریر کی خبر ہوتی تھی ۔یہ سب جانتے تھے کہ کون سا صحافی‘ ان کی حمایت میں کس حد تک ہے اور ایسے لوگوں کی عزت و احترام کا وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔جنرل ضیاالحق کی تو عادت تھی کہ وہ اخبارات میں لکھے گئے تبصروں اور تجزیوں کو پڑھنے کے بعد اپنے لئے اچھے الفاظ استعمال کرنے والوں کو جب تک ذاتی طور پر فون کرتے ہوئے‘ بھر پور شکریہ ادا نہ کر لیتے‘ سوتے نہیں تھے۔
میاں نواز شریف نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا ‘جو ان کے رہنما جنرل ضیاالحق نے روا رکھا اور میڈیا کی بہت بڑی تعداد جس کا تعلق دائیں بازو سے تھا‘ان کے احسان مند ہونے کے بعد گرویدہ اور شیدا ہونے لگے ۔ان کی نوازشات کا سن کر بائیں بازو کے دانشور او رلکھاری بھی ان کی ٹیم میں شامل ہونا شروع ہو گئے‘ جو ایک وقت میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کا ہراول دستہ سمجھے دیتے تھے اور یہ میاں نواز شریف کی بہت بڑی کامیابی تھی ۔آج بھی نجم سیٹھی ‘ امتیاز عالم‘ آئی اے رحمان جیسے قد آور بائیں بازو کے لوگ اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لبرل ‘ ترقی پسند اور ہیومن رائٹس کے نام نہاد علمبردار میاں نواز شریف کی مداح سرائی کرتے دیکھے جا رہے ہیں‘ تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ان کی بڑھ چڑھ کر عزت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کے صلے میںانہیںبے تحاشا مراعات سے نواز تے ہیں ‘ انہیں دنیا کے ایک ایک کونے کی اس شاہی انداز میں دورے کروائے جاتے ہیں ‘ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اور عمران خان ‘دونوں محب وطن ہیں اور دونوں خائن نہیں‘ لیکن وہ چند ایک انگریزی اخبارات کے علاوہ اردو پرنٹ میڈیا کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔شاید اسی وجہ سے ان کی ٹیموں کا پرنٹ میڈیا سے بد ترین رویہ دیکھنے میں آتا ہے ۔مشرف اور عمران خان میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں اپنے حق میں لکھنے اور بولنے والوںکے نام تک سے واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو جنرل مشرف کے لیے کارخیر کا ایک لفظ لکھنے اور کہنے والے آٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں ملتے۔اس لئے کہ انہیںکوئی پروا ہی نہیں تھی کہ کون کیا لکھ رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کا موازنہ کیا جائے‘ تو باقی تمام سیا ستدانوں پر انہیں ایک فوقیت حاصل ہے کہ ان کے لیے لکھنے بولنے والے بغیر کسی لالچ اور طمع کے تکلیف دہ سختیوں اور پابندیوں کے با وجود ان کا ساتھ دیتے رہے‘ جیسا کہ بتایا گیا ہے ‘ میاں نواز شریف کے حق میں بولنے ‘لکھنے یا نعرے لگانے والوں کو وہ اس قدر نوازا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کا قلم اور زبان ان کی مداح سرائی اور مخالفین پر بہتان گھڑنے سے تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے‘ جس کے نظارے ٹی وی کی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات میں ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔نواز شریف نے اپنے اقتدار میں ان کی مدح سرائی کرنے والوں کو لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے ساتھ ریلوے‘ پی آئی اے سمیت پاکستان کے ہر اہم ادارے میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشن کے عہدے تخلیق کر کے ان کی تعیناتیاں کیں۔ پی ٹی وی پر ان کوپروگرام دیتے ہوئے لاکھوں روپے ماہانہ کے مشاہرے مقرر کر دیئے‘ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات سے اتفاق کرنے والے ان کے منشور اور نعروں پر یقین رکھنے والے میرے جیسے بہت سے سر پھرے بغیر کسی لالچ کے ا ن کے لیے دن رات ایک کرتے رہے‘ اسی طرح عمران خان کے جلسوں اور جلوسوں میں گھنٹوں کھڑے نوجوان‘ مزدور‘ طالب علم کسان لکھاری یہ سمجھتے ہوئے کہ خان غریب کو عزت دے گا‘ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہو گا‘ نہ کہ جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں اور اکڑ فوں سے بات کرنے والی نوکر شاہی کے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب خود کو نوابوں‘ زمینداروں‘ سرداروں اور سرمایہ داروں کے جھرمٹ میں چھپا لیا ‘تو ایک ایک کر کے مزدور‘ طالب علم‘ وکلاء اوروہ قلم کار جو خود کو طاقت کا سر چشمہ سمجھ بیٹھے تھے‘ بھٹو کے عشق کے حصار سے بھاگنا شروع ہو گئے۔ حبیب جالب‘ استاد دامن‘ حسین نقی‘ منہاج برنا‘ معراج محمد خان‘ امان اﷲ خان کے علاوہ درجنوں لوگوں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ 
ادھر18 اگست کونو منتخب وزیر اعظم کا حلف ہوتا ہے‘ لیکن عمران خان کے خلاف معمولی باتوں کا بتنگڑ بنا کر ہر اینکر اور اپوزیشن کے بونے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر اس طرح بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہو رہے ہیں‘ جیسے عمران نے اپنا کوئی پلازہ یا ایان علی کی طرح پانچ لاکھ ڈالر دبئی بھیج دیئے ہوں ۔ دیکھا جائے‘ تو اس میں قصور عمران خان کی اس میڈیا ٹیم کا ہے‘ جو یا تو فتح کے نشے میں بے قابو ہو چکی ہے یا شاید قائم علی شاہ کی باداموں والی لسی نے انہیں مدہوش کر دیا ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کہنا ہے۔ اگر کسی کو وقت ملے ‘تو عمران خان کو یہ بھی بتائے کہ حضور ہر گھر میں استعمال ہونے والاگیس کا وہ سلنڈر جو 25جولائی کو گیارہ سو روپے کا تھا‘ اب بڑھ کر1800 کا ہو چکا ہے اور غریب لوگ جن کے گھروں میں گیس نہیں ‘وہ چیخ رہے ہیں۔ رکشہ ڈرائیوروں کے جلوس واویلا کر رہے ہیں کہ چند دنوں میں ایل پی جی ‘جو70 روپے کلو تھی‘ اب150 تک کیوںپہنچ گئی ہے۔
جانتا ہوں کہ میرا یہ مضمون کچھ لوگوںکو تکلیف دے گا ‘لیکن پندرہ برس عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر اسے کچھ دیا ہی ہے۔ شکر ہے کہ چند ایک چائے کی پیالیوں کے کسی شے کا روادار نہیں رہا اورمجھے فخر ہے کہ ضمیر خریدنے والوں کے ہاتھوں بکا نہیں ‘ان کی دھمکیوں سے جھکا نہیں ‘اسی لئے تو 2008ء سے اب تک مسلسل دس برس پی پی پی اور نواز لیگ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے جرم پر وزارت اطلاعات اس کی پی آئی ڈی اور دیگر اداروں کی جانب سے گزشتہ دس برس سے نا پسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا ہوں۔شاید اس لئے کہ اسلام آباد کے بھارتی ہائی کمیشن نے بھی مجھے اپنی فائلوں میں انتہائی نا پسندیدہ رائٹر قرار دے رکھا ہے۔ میری ہر تحریر میرے وطن اور اس کی سلامتی کی ضامن ملکی افواج کے لیے ہے اور میرا عہد ہے کہ میرے ملک اور اس کی فوج کے دشمنوں کو میں اور تکلیف پہنچائوں گا ‘انہیں اور رلائوں گا ‘کیونکہ نہ کل کسی قسم کا لالچ تھا اور نہ ہی آئندہ ہو گا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved