تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-09-2018

عوامی وزیراعظم کی GHQ آمد

بلا شبہ پہلی مرتبہ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کو جی ایچ کیو میں 8 گھنٹے تک فوج کے سینئر افسران کی جانب سے پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اور ملکی دفاع کے بارے میں انتہائی تفصیل سے بریف کیا گیا اور یہ اعزاز پاکستان کے عوامی وزیر اعظم عمران خان کے حصے میں آیا۔میرے قارئین جانتے ہیں کہ جس بات کا میرے پاس ثبوت نہ ہو یا جس خبر اور واقعہ کے بارے میں میرے پاس مستند معلومات نہ ہوں انہیں آج تک اپنے الفاظ میں شامل نہیں کیا ۔ اس لیے بلا جھجک لکھ رہا ہوں کہ تمام پرنسپل سٹاف آفیسر زاپنے ساتھ موجود وزیر اعظم عمران خان کی فہم و فراست کے دل سے قائل ہو ئے اور انہیں خوشی ہوئی کہ جس کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا رہاکہ ایک اوسط عقل کا شخص ہے‘ اس کے معلومات سے بھرے سوال و جوا ب نے اس تاثر کی مکمل نفی کر تے ہوئے بتا دیاکہ آج عالمی معاملات پر مکمل دسترس اور معلومات رکھنے والا وزیر اعظم ان کے سامنے ہے۔ وہ کسی اوسط عقل رکھنے والے شخص سے نہیں بلکہ ایک مدبر اور وسیع معلومات رکھنے والے سے بات کر رہے تھے۔وہاں موجود پاکستان کی سرحدوں اور ہم سب کی جان و مال کے لیے ہمہ وقت خود کو قربان کرنے والے جنرل اپنے چہروں پر طمانیت اور سکون سے بھر پور خوشی لیے ہوئے فخریہ انداز میں ایک ایسے وزیر اعظم کی موجو دگی پر ان عوام کی رائے کے احسان مند دکھائی دے رہے تھے جنہوں نے ایک ذہین اور سچے پاکستانی کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا۔
وہاں موجود ایک محافظ پاکستان کے تاثرات کے مطابق 8 گھنٹے تک عمران خان کے سوال و جواب اور ایک ایک نکتہ کی وضاحت اور اس کے اثرات سے متعلق جس طرح اور جس قسم کی گفتگو کی عمران خان کرتے رہے‘ وہ قابل رشک تھی اور اس فخر سے فوجی افسران کے سینے چوڑے ہو رہے تھے کہ ان کا وزیر اعظم بلا کی فہم و فراست اور قابلیت کا مالک ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اس سے پہلے جی ایچ کیو آنے والا یا فوج سے کسی بھی موقع پر بات کرنے والے کا '' کہاں سے ڈکٹیشن‘‘ لے کر آتا تھا۔ وہ اچھی طرح با خبر تھے کی ان کے سامنے بیٹھا ہوا عمران خان بطور وزیر اعظم اپنے دل کی بات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کو سادگی اور انکساری سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر ہر کسی کے الفاظ تھے What a humble but dynamic personality۔وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو سنتے ہوئے وہاں موجود افسران کے چہروں پر ایک طمانیت سی ابھر تی رہی پاکستان اور افواج کے جوانوں اور افسران کے بارے میں وزیر اعظم کے خیالات نے ان کے مورال اور جذبے کو دو چند کر دیا۔ انہیں ایسا لگا کہ ہمارے سامنے بیٹھا ہوا ہم سے سوالات کرتا ہوا ہمارے جوابات کو سکون سے سنتا ہوا شخص ہم میں سے ہی ہے وہ ہماری طرح کا ہی سپاہی ہے جسے اپنے وطن کے ایک ایک انچ سے جنون کی حد تک عشق ہے ۔
بریفنگ کے دوران موجود وطن کے سپاہی بے ساختہ کہتے ہیںThe man had no ego issues۔کیا یہ خوبی کسی وزیر اعظم میں آج تک دیکھی گئی ہے؟یہاں پر تو ایسے وزیر اعظم بھی رہے ہیں جو تین تین باریاں لینے کے بعد یہ کہہ کر فوج کو کوسنے لگتے ہیں کہ فوج کے یہ جنرل جب بھی مجھے ملنے آتے تو اپنی ٹوپیاں باہر رکھ دیتے تاکہ سلیوٹ نہ کرنا پڑے۔جنرل ہیڈ کوارٹر میں آرمی کے سینئر افسران سے گفتگو کے دوران ملکی اور عالمی معاملات پر عمران خان نے پاکستان کو درپیش پیچیدہ معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے جس بصیرت کا مظاہرہ کیا اس نے فوجی قیا دت کے ان تمام خدشات کو مٹا دیا اور وہ اس بات پر اپنے رب کا شکرا داکر نے لگے کہ پاکستانی عوام نے مدتوں بعد ایک ایسا حکمران منتخب کر کے بھیجا ہے جس کی دنیا بھر میں اپنی ایک پہچان ہے اور وہ دنیا کے تمام معاملات کی خبر رکھتا ہے۔اور یہ کسی بھی فوج اور اس کی عوام کے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے کہ ان کے حکمران کو دنیا بھر کی اشرافیہ اس کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔
''Really felt proud to have Prime Minister like him.....A leader like him‘‘ایک ایسی عسکری شخصیت جو عمران خان سے پہلے تین وزرائے اعظم کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتی رہی ہے ‘بڑے فخر سے معترف ہے کہ عمران خان کو سننے کے بعد اس سے کئے گئے انتہائی پیچیدہ قسم کے دفاعی اور سفارتی سولات کے بعد وہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے کہ وہ سب حضرات ایک اوسط درجے سے بھی کم فہم و فراست اور علم کے حامل تھے اور بلا شبہ وہ تینوں حضرات عمران خان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے۔ عمران خان کی فہم و فراست علم اور معلومات اور اس وقت ملک کو درپیش ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی مسائل سے آگاہی ان کے حل بارے تجاویز سنتے ہوئے لگ رہا تھا کہ کوئی ورلڈ لیڈر ان سے بات کر رہا ہے۔''What a contrast and what a positive change‘‘ وہ تبدیلی جسے پاکستان کی عوام نے حاصل کیا ہے‘ اسے ہماری عسکری قیا دت نے بھی ایک خوشگوار تبدیلی سمجھ کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اگر میں کہوں کے وہاں موجود ایک شخصیت نے عمران خان کے ساتھ جی ایچ کیو میںآٹھ گھنٹے گذارنے کے بعد ان کی گفتگو ان کے سوالات اور فوج کے سینئر لیڈروں کے کئے گئے انتہائی پیچیدہ سوالات کے جس طرح جوابات دیئے جو دلائل اور عالمی نقشہ ان کے سامنے رکھا اس نے ایک سماں باندھ دیا کہ عسکری ادارے کے لوگ جو پاکستان کے ہر وزیر اعظم کے سامنے اپنے ادارے کی ضروریات ملک کو درپیش خطرات اور بیرونی تعلقات پر ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے تو ان کے سامنے بیٹھا ہو اوزیر اعظم اس طرح چپ رہتا جیسے اسے بھاگنے کی جلدی ہو یا اس نے وزیر اعظم ہائوس میں کوئی اہم میٹنگ اٹینڈ کرنی ہو‘ بلکہ ایک وزیر اعظم تو یہ کہہ کر جلدی سے اٹھنے لگا کہ'' تسیں جانو اے تواڈا کم اے‘‘۔ خود ہی سوچئے ایسے وزیر اعظم کے بارے میں کسی بھی ملک کی فوج کیا توقع رکھے گی ‘اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ پاکستان جیسا ملک جس کا طاقتور ہمسایہ خطرناک دشمن کی صورت میں ہر وقت اس کی سالمیت کے درپے رہتا ہو‘انصاف سے بتایئے ایسے وزیر اعظم کو ملک کے اہم اور قیمتی رازوں تک کس طرح رسائی دی جا سکتی ہے۔
عمران خان کے جی ایچ کیو کے اس دورے کے بعدملک کی سرحدوں پر بیٹھا ہو ایک ایک جوان اور افسر ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے اپنے مورچے اور بیرک میں فخر سے سر اونچا کر رہا ہے کہ ان کا وزیر اعظم کوئی لٹیرا نہیں‘ اس کا خاندان کوئی کمیشن ایجنٹ نہیں کہ فائلوں پر دستخط کرانے کے لیے بولیاں لگا رہا ہو۔ ان کا وزیر اعظم کسی سٹیل کے کاروبار کا حصہ دار نہیں۔اور ہم سب کے لیے مقام شکر ہے کہ طویل انتظار کے بعد اس قوم کو ایک قابل اور متاثر کن شخصیت کا حامل لیڈر ملا ہے‘ جس کے بارے میں بغیر کسی تعصب یا لالچ کے کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم جیسے عہدے کے لیے ایسے شخص کا انتخاب ایک نعمت سے کم نہیں ۔جس ملک کا سربراہ اپنی قوم اور فوج کے جذبات سے کھیلتا ہے وہ کبھی بھی اس قوم اور ملک کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔فوج کیا ہوتی ہے ۔عمران خان نے کہا میں جانتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ کے صاف ور شفاف انتخابات میں فوج کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور ان انتخابات پر انگلیاں اٹھانے والے'' ففتھ جنریشن وار‘‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔۔۔۔قرائن بتا رہے ہیں کہ اب عدلیہ ‘حکومت اور فوج ملکی قوانین کے تحت '' بغیر کسی تفریق‘‘ کے کڑا احتساب شروع کرنے جا رہی ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved