سنگ دل حکمران‘ درماندہ عوام۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ علماء اور دانشور بے نیاز‘ سیاسی لیڈر اقتدار اور دولت کے بھوکے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
شام‘ شب اور سحر‘ مظفر آباد کی پہاڑی رفعت سے شہر کا نظارہ کیا جائے تو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح یاد آتی ہیں۔ ان کی زیارت کا شرف حاصل ہے۔ اپنے جلیل القدر بھائی کی طرح کوہِ وقار‘ نجابت اور قائدانہ تیور۔ آزادی سے بہت پہلے دریائے نیلم اور جہلم کے سنگم سے گزر ہوا تو کہا: یہ دیار تو دارالحکومت ہونا چاہیے۔ اللہ نے ان کی بات سچی کر دی۔ دریائے جہلم موڑ کاٹتے‘ یہاں نیم دائرے سے بناتا ہے۔ جیسے دریائے کاویری سرنگا پٹم کا طواف کرتا ہے... اور اس کے جمال کو اقبالؔ نے دائمی کر دیا۔ ہسپانیہ کے عرب شاعر نے کہا تھا: کنگن کی طرح بل کھایا ہوا پانی۔
غزالی فائونڈیشن کے ایک سکول کا جائزہ لینے مظفر آباد جانا ہوا۔ آزاد کشمیر میں شاخ در شاخ پھیلا ہوا تعلیمی نظام۔ وزیر اعظم فاروق حیدر نے کہا تھا کہ اپنے بچوں کے لیے انہوں نے اس ادارے کو ترجیح دی۔ منتظمین سے عرض کیا: ہو سکے تو فاروق حیدر اور اس ناچیز کے لیے تعلیمِ بالغاں کا بندوبست بھی کر دیں کہ ہم بچوں کی سی حرکتیں نہ کیا کریں۔
دوپہر ہوئی تو میزبان شہر سے بیس بائیس کلومیٹر ادھر ایک ریستوران پہ لے گیا۔ سرسبز پہاڑوں کے دامن میں اجلے پانیوں کا خروش اور سلیقے سے دھرا کلاسیکی فرنیچر۔ ادھیڑ عمر کا ایک با رعب آدمی کچھ دیر میں نمودار ہوا۔ شہر لاہور میں زندگی کا ایک بڑا حصّہ اس نے بِتایا تھا۔ بات شروع کی تو چراغاں سا کر دیا۔
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
واپسی کے لیے اٹھے تو سرسبز پہاڑوں پہ نظر کی۔ حدِ نگاہ تک سبزے کی خیرہ کن خوبصورتی۔ حسن کو سادگی میں پُرکاری‘ میدانوں میں نا ہمواری اور پہاڑوں میں مٹی درکار ہوتی ہے۔ پانی جذب کر ے اور خاک کو گلزار کر دے۔ برسوں پہلے مانسہرہ کے نواح میں پھیلے چائے کے باغات یاد آئے۔ میجر عامر‘ وہی آئی ایس آئی کے جادوگر سبکدوش افسر کی معیت میں وہاں جانا ہوا۔ آج تک ایک ملال کے ساتھ‘ اس منظر کی یاد فروزاں ہوتی ہے۔
پاکستان میں زیتون‘ بادام اور اتنی چائے اگائی جا سکتی ہے کہ دساور کو بھی بھیجی جا سکے۔ ان راجہ صاحب سے عرض کیا: ان ترائیوں میں انگور کاشت کیے جا سکتے ہیں اور چائے بھی۔ شاید فرانس کے اساطیری جنوب سے زیادہ۔ بولے: اس کام کے ہم نہیں۔ بادام‘ اخروٹ اور زیتون سمیت چکوال میں سب نادر فصلوں کے تجربے کامیاب رہے۔ ہم نے وہاں سیمنٹ فیکٹریاں گاڑ دیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں صنعت کاری اور زراعت کو جدید ترین بنانے پہ کام شروع ہوا۔ انہی دنوں کا دیا اب تک ہم کھا رہے ہیں۔ ڈیم تب بنے اور کارخانہ داری تب شروع ہوئی۔ پچاس سال بیت چکے‘ پھر کوئی دریائی بند ہم نہ بنا سکے‘ حتیٰ کہ پانی کے قحط تک آ پہنچے ہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں گرتی پڑتی معیشت کی صحت بحال ہوئی۔ دیرپا منصوبہ مگر کوئی نہ بن سکا۔ بھٹو بہت ذہین تھے۔ پاسپورٹ کی آزادی سمیت‘ معیشت پہ کوئی نئے در انہوں نے وا کیے۔
ستم یہ کہ صنعتوں کو قومیا کر‘ سرمایہ اور ذہانت بھگا دی۔ آصف علی زرداری‘ محترمہ فریال تالپور‘ میاں محمد نواز شریف‘ شہباز شریف‘ شرجیل میمن اور جہانگیر ترین کی کمائی سمندر پار پڑی ہے۔ قانونی اور غیر قانونی طور پہ‘ صنعت کاروں کی اکثریت بھی کچھ سرمایہ بیرون ملک بھیجتی ہے۔ کتنے ہی کارخانے بنگلہ دیش اور ملائیشیا منتقل ہو چکے۔ ہر سال دس بلین ڈالر بیرون ملک منتقل۔ کوئی نہیں‘ جو سدّ باب کر سکے۔ حکمران ہی جب در پے ہوں؟ باڑ ہی جب کھیت کو کھانے لگے؟ مہنگی بجلی‘ چھوٹے صنعت کاروں کو ہراساں کرنے والے سرکاری ادارے۔ عمران خان آ گئے۔ حصص کے بازار‘ Stock exchange میں قرار اب بھی پیدا نہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اساتذہ کے ہمراہ کاروں کی سب سے بڑی فیکٹری دیکھنے گیا۔ صفائی اور ترتیب۔ منجھے ہوئے کارکن۔ بتایا گیا کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ پرزے اب یہیں بنتے ہیں۔ اخراجات پچیس سے تیس فیصد کم ہو گئے۔ مگر بجلی اتنی گراں ہے کہ عالمی منڈی میں مقابلہ ممکن نہیں۔ داخلی دروازے کے فوراً بعد تین چار ایکڑ پہ پھیلے باغ کو دیکھ کر دل اور بھی شاد ہوا۔ مدتوں کے بعد ایسا چمن دیکھا۔
روانہ ہونے کا وقت آیا تو ادارے کے سربراہ نے اخبار نویس کا ہاتھ تھاما اور کہا: کیا ہمیں کچھ استحکام نصیب ہو گا؟
ملک سوشل میڈیا کے گالی گلوچ بریگیڈز‘ افواہیں گھڑتے اپوزیشن لیڈروں اور افواہوں کو خبریں بنا کر پیش کرنے والے ٹی وی میزبانوں کے رحم و کرم پہ ہے۔
22 کروڑ انسانوں کے زخموں کی پروا کسی کو نہیں۔ ہر سال ان کی تعداد تین فیصد بڑھ جاتی ہے۔ 80 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ سوا دو کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ اور چالیس فیصد کی خوراک کم‘ ذہنی نشوونما بھی کم۔
بے نظیر بھٹو شہید کے دو ادوار‘ قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کی تین حکومتوں اور نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری کے پانچ سالہ اقتدار میں مالِ غنیمت کی مہمات۔ دنیا کی سب سے مہنگی بجلی ہم پیدا کرتے ہیں۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں‘ پانچ برس جس کی درآمدات بڑھتی اور برآمدات گرتی رہیں۔ چین سے گیارہ ارب ڈالر کی مصنوعات ہر سال ہم منگواتے ہیں۔ ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ کی فروخت کرتے ہیں۔
چیخ چیخ کر عمران خاں سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پندرہ دن گزر جانے کے باوجود خوشحالی کا آغاز کیوں نہیں۔ وہ ہیلی کاپٹر پہ کیوں چڑھے۔ ان کا وزیر اعلیٰ ہوائی جہاز پہ کیوں سوار ہوا؟ آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شہباز شریف تو بائیسکل پہ اکتفا کرتے تھے۔ پاک پتن میں ایک با رسوخ آدمی کی توہین پر پولیس افسر کا تبادلہ کیسے ہو گیا۔ شہباز شریف کی حکومت میں تو نوشیرواں عادل کا سا انصاف تھا۔ بس یہ ہے کہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ذبح کر دیا گیا‘ تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔
صنعت کار تو پھر بھی واویلا کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان کی سنی بھی جاتی ہے۔ ایک عشرے کی جمہوریت میں کاشتکار یکسر برباد ہو گیا۔
نیشکر کی فی من قیمت 180 روپے مقرر ہے۔ صرف منڈی بہائوالدین میں 300 کروڑ روپے کا گنا پیدا ہوتا ہے۔ 3.75 روپے شوگر مل وضع کر لیتی ہے۔ کھیت سے کارخانے تک سڑکیں تعمیر کرنے کے لیے۔ اکثر یہ سرمایہ میٹرو بسوں اور اللّے تلّلوں پہ اٹھ جاتا ہے۔ اکثر فیکٹریاں وزن میں چکمہ دیتی ہیں۔ نقد ادائیگی نہیں کرتیں۔ زرداری صاحب کی فیکٹریوں میں قیمت آدھی۔ کاشتکار پولیس گھیر کے لاتی ہے۔ جہانگیر ترین اور چند دوسروں کے سوا‘ شریف خاندان سمیت‘ بعض‘ بعض برسوں ادائیگی نہیں کرتے۔
بیج فرسودہ ہیں‘ اتنے فرسودہ کہ خدا کی پناہ۔ بھارتی مٹی پاکستانی سے برتر نہیں مگر کپاس کی یافت دوگنا۔ ہر شے کا بیج بھارت میں بہتر ہے۔ پاکستانی کسان کی زمین ہموار نہیں؛ چنانچہ پانی کا استعمال چالیس فیصد زیادہ۔ دھان اور گیہوں کے کاشتکار کو باردانہ ملتا نہیں؛ چنانچہ قیمت دس سے بیس فیصد کم۔ کیڑے مار ادویات میں ملاوٹ عام ہے۔ کھاد اکثر چور بازاروں میں ملتی ہے۔ حکومت کو کسان کی پروا ہی نہیں۔ وہی ایک صدی پہلے کی حالت۔
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن‘ جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
پاکستان میں فی کس زیرِ کاشت رقبہ تمام دنیا سے زیادہ ہے۔ گوشت اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرست۔ مارکیٹوں کا نظام ناقص۔ دودھ میں ملاوٹ‘ گوشت سے فائدہ قصاب کو پہنچتا ہے‘ ریوڑ پالنے والے کو نہیں۔ سبزی اگانے والا بھوکا رہ جاتا ہے۔ آڑھتی کی توند بڑھتی چلی جاتی ہے۔
سنگ دل حکمران‘ درماندہ عوام۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ علماء اور دانشور بے نیاز‘ سیاسی لیڈر اقتدار اور دولت کے بھوکے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے