تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-09-2018

وزیراعظم سے ایک ملاقات…(1)

عامر متین ‘ کاشف عباسی‘ ارشد شریف اور میرے جیسے صحافی ہر سیاستدان اور حکمران کو اپوزیشن کے دنوں میں اچھے لگتے ہیں۔ حکومت میں جاتے ہی صحافی فسادی اور برے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔ تینو ں کو توقع نہ تھی کہ ہمیں بھی وزیراعظم عمران خان کی صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں بلایا جائے گا۔ پچھلے چند دنوں میں خاور مانیکا ایشوز پر عامر متین نے بہترین رپورٹنگ کی اور اندورنی کہانی سامنے لے کر آئے۔ جب بہت سے اینکرز خاور مانیکا کی جھوٹی کہانی پر آنکھیں بند کر کے رپورٹ کررہے تھے تو عامر متین روز نئی خبریں لاتے رہے۔ عمران خان کا اس معاملے سے براہ راست تعلق نہ ہو‘ پھر بھی بات ان تک پہنچی تھی۔ ماضی میں جب بھی عمران خان صحافیوں سے ملتے تھے تو سب سے ہاتھ ملاتے تھے‘ مسکراہٹ اور چند تعریفی جملوں کا تبادلہ ہوتا‘لیکن اس دفعہ‘ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کمرے میں آئے تو سب صحافی اٹھ کھڑے ہوئے‘ کہ وہ سب سے ہاتھ ملائیں گے کیونکہ یہ روایت تھی‘ تاہم سب حیران ہوئے جب عمران خان کسی سے ہاتھ ملائے بغیر صوفے پر بیٹھ گئے اور ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے۔وزیراعظم کے ساتھ وزیراطلاعات فواد چوہدری اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی بیٹھ گئے۔
عمران خان نے بیٹھتے ہی کاشف عباسی کو کہا: جی کاشف پوچھیں۔توقع تھی وزیراعظم پہلے کچھ تمہید باندھیں گے اور پھر وہ سوالات پوچھیں گے‘تاہم اس روٹین کو توڑ کروزیراعظم نے براہ راست کاشف سے پوچھ لیا اور کاشف عباسی نے بھی سیدھا چبھتا ہوا سوال کیا۔کاشف بولا: لگتا ہے آپ وزرات عظمیٰ اور حکومت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ عمران خان اس مشکل سوال سے گھبرائے بغیر بولے: ہاں ہم تیار نہیں تھے۔ عمران خان وضاحت دینے لگے کہ وہ کیوں تیار نہ تھے‘ اور آج کل وقت اہم معاملات کو سمجھنے میں لگا رہے ہیں۔ ارشاد بھٹی فوراً بولے :ہم تو توقع رکھتے تھے کہ آپ تیار ہوں گے‘ آپ کو چاہیے تھا آپ اپوزیشن کے دنوں میں ایک شیڈو کابینہ بنا کر رکھتے۔ بھٹی کا اشارہ برطانوی طرز حکومت کی طرف تھا جہاں اپوزیشن کو گورنمنٹ ان ویٹنگ سمجھا جاتا ہے اور پارٹی سربراہ اپنی پارٹی کے اہم اور متعلقہ لیڈروں کو مختلف اہم محکمے سونپ دیتا ہے اور ان کا کام ہوتا ہے کہ وہ ان محکموں پر اس طرح نگاہ رکھیں یا ریسرچ کریں جیسے حکومت کا وزیر رکھتا ہے۔ یوں چار سال تک وہ وزیر تیار ہوتا رہتا ہے اور جب ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ پہلے دن سے ہی اس قابل ہوتے ہیں کہ حکومت کو چلائیں ۔ اگرچہ عمران خان بڑے عرصے سے وزیراعظم بننے کے لیے تگ و دو کررہے تھے‘ لیکن ان کے کاشف عباسی کو دیے گئے جواب سے صاف لگا کہ وہ اب بھی تیار نہیں ہیں۔ عمران خان تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ یقینا ان کے لیے بہت سی نئی چیزیں تھیں ‘ ذمہ داری کا بوجھ محسوس ہورہا تھا ۔ وہ عمران خان جو ہر بات پر مسکراتے تھے‘ اب سنجیدہ لگ رہے تھے۔
ارشاد بھٹی نے عمران خان کو کچوکے لگانا شروع کیے‘ وہ مختلف ایشوز پر ریپڈ راؤنڈ کی طرح تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ ایک کے بعد دوسرا سوال ۔ بھٹی نے ہی ہمت کر کے ہیلی کاپٹر کا سوال پوچھ لیا جس پر عمران خان نے بتایا کہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ تک چار منٹ لگتے ہیں ۔ وہ اگر روڈ کے ذریعے آئیں جائیں تو لوگ بہت تنگ ہوں گے۔ اس پر بات بیوروکریسی میں نئی تعیناتیوں کی طرف چلی گئی۔ یقینا عمران خان کی نئی پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی پر تنقید ہورہی تھی۔عمران خان نے سب کا دفاع کرنا شروع کردیا ۔ عمران سے صحافیوں نے پوچھا: وہ کیسے افسر کو چیئرمین ایف بی آر لگا رہے ہیں‘ جس پر نیب میں انکوائری ہورہی ہے‘ان پر شہباز شریف کا فرنٹ مین ہونے کا الزام بھی ہے‘ وہ کمپنی سکینڈلز میں بھی ملوث ہیں۔ عمران خان نے کہا :جہانزیب خان سے زیادہ اچھا اور ایماندار افسر پیدا نہیں ہوا۔ اس پر چوہدری غلام حسین پھٹ پڑے اور بولے: خان صاحب اگر جہانزیب خان کی وجۂ شہرت یہ ہے کہ وہ بہت قابل ہے‘ تو پھر بہتر ہے آپ فواد حسن فواد کو ہی بلا لیں ‘کیونکہ اس کی قابلیت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا تھا ۔ وہ بولے :ساری ٹیم تو آپ نے وہی کرپٹ اکٹھی کر لی ہے‘ جس کے خلاف آپ بولتے رہے اور ٹی وی شوز ہوتے رہے۔ عمران خان کو اس اچانک حملے کی توقع نہ تھی۔ وہ اس موضوع پر تھوڑی دیر کے لیے چپ کرگئے اور پھر کہاکہ وہ کیا کریں‘ کہاں سے لائیں لوگ؟پھر بولے کہ ان کی ٹیم کے بیوروکریٹس ارباب شہزاد اور حسن خان چھ ماہ سے بیوروکریسی کی ٹیم پر کام کررہے تھے‘اور انہوں نے بہترین لوگ چن کر لگائے ہیں۔ 
عامر متین بولے: جب آپ اپوزیشن میں تھے تو ہمیں لگتا تھا کہ جب آپ وزیراعظم بنیں گے تو ہر روز نئی نئی اور اہم پالیسیاں آئیں گی‘ روزانہ اہم اعلانات ہوں گے ‘لیکن لگتا ہے جیسے کام کچھ رک سا گیا ہے۔ عمران خان بتانے لگے کہ نواز شریف حکومت بہت سے مسائل چھوڑ کرگئی ہے۔ بارہ سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ چھوڑ گئے ہیں۔ بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے کیا کیا مشکلات ہیں اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے آئی ایم ایف سے بچ کر ان کی ادائیگیاں کر سکیں ۔ اسد عمر کی تعریف کی کہ وہ ان ایشوز پر کام کررہے ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ انہیں میڈیا کی مدد چاہیے ہوگی‘ جب وہ اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالرز بھیجنے کی اپیل کریں گے۔
اسی اثنا میں نصراللہ ملک نے پوچھ لیا: خان صاحب یہ بتائیں آپ جی ایچ کیو گئے تھے وہاں کیا ہوا‘ ہمیں بریفنگ کے بارے بھی بتائیں۔ عمران خان بولے: ہاں یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ عمران خان اس معاملے پر شاید زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے تھے‘ کیونکہ انہیں پتہ تھا یہ حساس معاملہ ہے۔ وہ آٹھ گھنٹے گزار کر آئے تھے اور یقینا بہت کچھ زیربحث آیا تھا ۔ اگرچہ انہوں نے کھل کر جنرل باجوہ کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ ان جیسا جمہوریت پسند جنرل شاید پاکستانی قوم کو پھر نصیب نہ ہو۔ باقی سب باتیں آف دی ریکارڈ ہوئیں ۔ 
ایک اور صحافی نے خاور مانیکا کے ایشو پر سخت سوال کیا ۔ عمران خان جیسے اس انتظار میں تھے کوئی ان سے یہ سوال پوچھے‘ بولے: انہوں نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جب انہیں پتہ چلا تو انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو کہا کہ وہ آئی جی پنجاب سے پوچھیں۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ سب قصور پولیس کا تھا ۔ انہیں بتایا گیا کہ پولیس نے اس بچی کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ پھر عمران خان نے کہا کہ خاور مانیکا کے ساتھ بھی پولیس ناکے پر بدتمیزی کی گئی تھی۔ اس پر عامر متین‘ جنہوں نے اس خبر کو بڑی تفصیل کے ساتھ رپورٹ کیا تھا‘ عمران خان سے مخاطب ہوئے اور بولے: شاید آپ تک پوری بات نہیں پہنچائی گئی۔ عمران خان بولے: نہیں مجھے پتہ ہے۔ آئی جی نے بتایا ہے۔ عامر متین بولے: آپ کو غلط بتایا گیا‘شاید آپ کو چار دن پہلے کی باتوں کا پتہ ہے۔جو کچھ آج سپریم کورٹ میں ہوا ہے اس کے بعد تو صاف ظاہر ہے کہ کس کا قصور ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خاور مانیکا کا کوئی قصور نہیں تو یہ بتائیں کہ کیسے ایک پرائیویٹ آدمی‘ جو شاید آپ اور خاتون اول کے بہت قریب ہے‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ ایک دفترمیں بیٹھ کر دو پولیس افسران کی انکوائری کرسکتا ہے؟ آج جو کچھ سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا ‘ اس کے بعد تو خطرہ ہے کہ کہیں وزیراعلیٰ خطرے میں نہ پڑجائیں۔عمران نے چونک کر پوچھا :آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟ 
ہم سب صحافیوںنے وزیراعظم کی لاعملی پر ایک دوسرے کو دیکھا ۔ سپریم کورٹ میں آج ساڑھے گیارہ بجے انکوائری رپورٹ پیش ہوچکی تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اہم ریمارکس دے کر سب کو طلب کرچکے تھے اور پنجاب کی راجدھانی کے سربراہ عثمان بزدار پر بھی شدید سوالات کھڑے ہوگئے تھے۔ سپریم کورٹ کی سماعت کو ختم ہوئے تین گھنٹے گزرچکے تھے۔ عمران خان کے چونکنے سے ہمیں لگا انہیں ان کے سٹاف یا ٹیم نے کچھ بھی نہیں بتایا ۔میں پچھلے آدھے گھنٹے سے دائیں سائیڈ پر خاموش بیٹھا سب سوالات اور جوابات سن رہا تھا‘ صوفے پر آگے جھک گیا تاکہ دیکھ اور سن سکوں کہ عمران خان اس شاک سے کیسے نکلتے ہیں اور عامر متین کو کیا جواب دیتے ہیں۔ کمرے میں اچانک خاموشی چھا گئی ۔ سب آنکھیں اب وزیراعظم عمران خان پر تھیں ۔ وزیراعظم کو بہت کچھ سننا اور کہنا باقی تھا اور کمرے کا ماحول ابھی سے ٹینس ہوچکا تھا ۔ (جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved