آج پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی 34ویں برسی ہے۔ اُنہیں آج کے دن یعنی 4اپریل 1979ء کو پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک من گھڑت اور جھوٹے مقدمۂ قتل میں تختہ دار پر لٹکایاگیا تھا۔ موت کے وقت اُن کی عمر صرف 51برس تھی۔وہ 30سال کی عمر میں ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی کابینہ کے رُکن بنے۔ابتداء میں ان کے پاس گیس،تیل اور قدرتی وسائل کی وزارت کا قلمدان تھا۔ بعد میں وہ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ اعلانِ تاشقند پر ایوب خان سے علیحدگی اختیار کی۔ابتداء میں اُنہوں نے سرکاری مسلم لیگ (کنونشن)میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی۔ ناکامی پر دسمبر1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر سے لیکر کراچی تک عوام کے دلوں میں گھر کر لیا۔ پیپلز پارٹی کی اس کامیابی میں بھٹو صاحب کی خود اپنی شخصیت، ذہانت، خطابت،فراست اور معاملہ فہمی پر مشتمل صلاحیتوں کے علاوہ اُن کے عہد کی خصوصیات کو بھی بہت دخل حاصل ہے۔ اس ہنگامہ خیز عہد کے دوران میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد اہم مرحلوں سے گزرنا پڑا۔مقتدر اور نامی گرامی شخصیتوں سے واسطہ پڑا ۔جن میں سے کئی ہمیشہ کیلئے اُن کے مداح،دوست اور حمایتی بن گئے۔ان میں فرانس کے سابق صدر جسکا دیستاں لیبیا کے کرنل قذافی، الجزائر کے بومدین، سابق شاہِ ایران‘ ابوظہبی کے امیر سلطان بن راشد النہیان اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شامل تھے۔ لیکن اس کتاب کا سب سے دلچسپ باب اُن حالات، واقعات اور حادثات پر مشتمل ہے جن کا سامنا جناب بھٹو کو خود ملک کے اندر اپنی جدوجہد کے دوران میں کرنا پڑا۔اس لمبے عرصے کے دوران میں کچھ لمحات ایسے بھی گزرے ہیں اور کچھ موڑ ایسے بھی آئے جن سے جناب بھٹو کی حاضر جوابی،ظرافت اور مخالفین کو ’’مذاکرات کی میز‘‘ پر مات دینے میں مہارت ثابت ہوتی ہے۔ آج کا کالم بھٹو اور اُن کے سیاسی مخالفین کے درمیان چند ہلکے پھلکے لیکن سیاسی لحاظ سے معنی خیز مکالموں اور جملوں کے تبادلوں پر مشتمل ہے۔ ایوب خان نے کراچی میں اپنے اقتدار بچانے کیلئے1969ء میں سیاستدانوں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں شرکت کیلئے شیخ مجیب الرحمن بھی کراچی پہنچے جنہیں اگرتلہ سازش کیس کے تحت حزب مخالف کے مطالبے پر قید سے رہا کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس ناکام رہی کیونکہ جناب بھٹونے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ کانفرنس سے پہلے شیخ مجیب الرحمن نے جناب بھٹو سے کہا کہ آپ نے ایک فوجی آمر یعنی ایوب خاں کا ساتھ دیا۔ اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔اس پر جناب بھٹو نے برجستہ کہا کہ میںنے فوجی آمر یعنی ایوب خاں کا اس وقت ساتھ دیا جب عوام نے اُسے ویلکم(Welcome)کیا تھا آپ اُس کے ساتھ اُس وقت شامل اقتدار ہو رہے ہیں جب عوام نے اُسے مستردکر دیا ہے۔ 1970ء کی انتخابی مہم کاآغاز ہو چکا تھا۔ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سیاسی رہنما انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔لاہور کا موچی گیٹ ایسے انتخابی جلسوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ایسے ہی ایک جلسہ سے خطاب کے دوران جناب بھٹو اچانک رُک گئے۔اور کہا میں تھک گیا ہوں تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتا ہوں فوراََ ہی ایک کرسی سٹیج پر رکھ دی گئی۔لیکن کرسی کے قریب آکر جناب بھٹو نے اسے ایک ٹھوکر سے دور پھینک دیا اور زور سے کہا\"نہیں۔ میں کوئی مولانا مودودی ہوں؟ جو کرسی پر بیٹھ کر تقریر کروں۔ میں کھڑے ہو کر تقریر کروں گا \"اس پر ہزاروں کی تعداد میں موجود حاضرین نے تالیاں بجائیں اور جناب بھٹونے اپنی تقریر جاری رکھی جو ہمیشہ کی طرح طویل اور سحر انگیز تھی۔یاد رہے کہ اس جلسے سے قبل موچی گیٹ میں ہی جماعت اسلامی کے ایک جلسے سے امیر جماعت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے خطاب کیا تھا۔اُنہوں نے اپنی تقریر عمر اور صحت کے پیشِ نظر کرسی پر بیٹھ کر کی تھی۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آچکے تھے انتقال اقتدار سے منسلک مسئلے کی گتھیاں سلجھانے کیلئے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن اور جناب بھٹو کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔دونوں نے غیر لچک دار موقف اپنایا ہوا تھا۔جس کی وجہ سے ماحول میں تنائو کے آثار نمایاں تھے جنہیں کم کرنے کیلئے جناب بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو خوش کرنا چاہا اور کہا کہ شیخ صاحب \"اگرچہ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لیکن دیکھنے میں چھوٹے اور نوجوان نظر آتے ہیں\"شیخ مجیب الرحمن سمجھ گئے اور جواباََ کہا\"مگر بھٹو صاحب آپ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں\" اس پر جناب بھٹونے کہا\"اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو مجھے رعایت دیجے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کیجئے\" نواب احمد خاں قتل کیس میں لاہور ہائی کورٹ میں جب جناب بھٹو کی ضمانت منظور ہوئی تو جج جناب جسٹس صمدانی نے جناب بھٹو سے استفسار کیا کہ سماعت کیلئے اگلی تاریخ کون سی مقرر کی جائے۔ اس پر جناب بھٹو نے برجستہ کہا:ـ\"Any date after elections, my Lord\" اس پر عدالت کے کمرے میں ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا کیونکہ ہر ایک کو معلوم تھا کہ 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی جیت جائے گی اور پورا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل ہوجائے گا۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور پی۔این۔اے کے درمیان مذاکرات کی بہت طویل نشستیں ہوتی تھیں۔ بیچ میں ظہر،عصر، مغرب حتیٰ کہ عشاء کی نمازوں کا وقت آجاتا تھا۔پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت جناب بھٹو کررہے تھے اور پی۔این۔اے کے وفد کے سربراہ جناب مفتی محمود تھے۔جو وقفۂ نماز کے دوران اپنے ساتھیوں سمیت مذاکرات سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے۔مرحوم پروفیسر عبدالغفور کے مطابق ایسے ہی ایک موقع پر جناب بھٹو نے بظاہر جھنجھلاکے لیکن ہلکے پھلکے انداز میں کہا \"یہ کیا مذاق ہے ہم اتنے اہم مذاکرات میں مصروف ہیں جب بھی کوئی نازک اور فیصلہ کُن مرحلہ آتا ہے آپ نماز کیلئے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں\'\'مفتی محمود سمجھ گئے اور جواب دیا۔بھٹو صاحب شکر کریں یہ تو پانچ نمازیں ہیں اگر پچاس نمازیں فرض ہو جاتیں تو کیا کرتے؟ـ\'\' اس پر جناب بھٹو فوراََ بولے اور کہا ’’مولانا صاحب یہ تو اور بھی اچھا ہوتا آپ نمازیں پڑھتے رہتے اور ہم حکومت کرنے میں مصروف ہوتے‘‘۔ جیل کی کال کوٹھڑی میں محبوس اور قید کی صعوبتوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہوش و حواس اور خوش طبعی برقرار رکھی۔کہا جاتا ہے کہ جب رات کے پچھلے پہر بندی بان نے کہا کہ وہ پھانسی گھاٹ جانے کیلئے تیار ہو جائیں تو بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر شیو کا سامان منگوایا کہ وہ خدا کے سامنے مولوی بن کر نہیں بلکہ کلین شیو کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ یہ ہے اُس عظیم انسان کی سیاسی زندگی سے اخذ چند واقعات کا تذکرہ جس کا نام مر کر بھی قومی سیاست میں اب تک زندہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved