تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-09-2018

وزیراعظم سے ملاقات… (2)

کمرے میں خاموشی تھی۔سب صحافیوں کی نظریں عمران خان پر تھیں اور سب کے ذہن میں یہی تھا کہ عمران خان تو مانیکا فیملی کے معاملے پر باقاعدہ ایک سخت پوزیشن لے چکے ہیں۔ وہ تو آئی جی پنجاب کلیم امام کی بات پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ مانیکا فیملی کے ساتھ پولیس نے زیادتی کی ۔ سب قصور پولیس کا تھا‘ انہوں نے رات گئے ننگے پائوں سڑک پر چلتی مانیکا خاندان کی بیٹی کو کیوں روک کر پوچھا۔ عمران خان کا کہنا تھا :پانچ اگست کو پولیس نے بدتمیزی کی ‘ تاہم بشریٰ بی بی نے اس وقت اپنی بیٹی اور بیٹے کو منع کر دیا تھا کہ وہ پولیس کی بدتمیزی کو بھول جائیں‘ کیونکہ یہ معاملہ اوپن ہوا تو خواہ مخواہ ایشو بنے گا ‘ لیکن اب عمران خان کو پتہ نہیں تھا کہ آئی جی‘ جو صبح سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے‘ ان کے ساتھ چیف جسٹس کی کیا گفتگو ہوئی اور وہاں انکوائری افسر ابوبکر خدابخش نے کیا بتایا اور کیسے نئے نئے انکشافات ہوئے ‘جو کچھ آئی جی نے انہیں چار دن پہلے بتایا تھا ‘تاہم عدالت میں اس کے برعکس حقائق سامنے آئے ۔ 
عمران خان صبر سے سب کی باتیں اور سوالات سن رہے تھے۔ یقینا یہ مشکل کام تھا‘ کیونکہ ارشاد بھٹی پہلے ہی انہیں چند سخت سوالات کرچکے تھے۔ بھٹی کے بارے میں عمران خان کیمپ میں یہ تاثر تھا کہ وہ شاید اپوزیشن کے دنوں میں عمران خان کی حمایت کرتے تھے‘ لہٰذا وہ اب بھی کرتے ہوں گے‘ لیکن بھٹی کے سوالات نے عمران خان کو کچھ مشکل میں ڈالا۔ مانیکا ایشو پر پوچھنے سے پہلے بھٹی نے کہا کہ خان صاحب جن بیوروکریٹس پر آپ تنقید کرتے تھے‘ وہی اب آپ کی ٹیم میں ہیں اور ان کا آپ دفاع بھی کررہے ہیں ‘ تاہم سخت سوال‘ جس پر عمران خان کچھ ناراض سے محسوس ہوئے‘ یہ تھا کہ خاور مانیکا کی قانونی یا سیاسی حیثیت کیا ہے کہ آپ ان کا دفاع کررہے ہیںکہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے؟ بھٹی یہاں پر نہ رکا ‘بلکہ وہ ایک قدم آگے گیا اور بولا: ابھی سابق شاہی خاندان سے جان چھوٹنے کی کچھ امید پیدا ہوئی تھی‘ کہ اب مانیکا خاندان نے شاہی خاندان کا درجہ لے لیا ہے۔ عمران خان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے۔ یقیناا س براہ راست سوال پر وہ کچھ خوش نہیں ہوئے۔ میں نے محسوس کیا کہ خود پر قابو رکھنے کے لیے عمران خان نے اپنی انگلیوں میں پھرتی تسبیح کے دانوں کو شمار کرنے کی رفتار کچھ تیز کر دی اور چند لمحے بعد عمران خان نے خود پر قابو پایا ۔
صحافیوں کے ساتھ عمران خان کی تکرار ہورہی تھی ۔ عمران وہی بات بتا رہے تھے‘ جو انہیں چار دن پہلے آئی جی نے بتایا تھا‘ جبکہ صحافی وہ سنا رہے تھے‘ جو آج صبح سپریم کورٹ میں ہوا تھا ۔ صاف لگ رہا تھا کہ عمران خوش نہ تھے کہ انہیں تازہ ترین صورت کا پتہ نہ تھا۔ ایک وزیراعظم کو اتنی اہم بات کا پتہ صحافیوں سے چل رہا تھا اور یہ کوئی اچھی بات نہ تھی‘ تاہم جب اس معاملے میں عثمان بزدار کے رول پر تنقید ہوئی کہ ان کے پاس ایک پرائیویٹ بندے نے بیٹھ کر دو پولیس افسران کی انکوائری کی‘ تو عمران خان نے ڈٹ کر کہا کہ آپ لوگ بزدار کو نہیں جانتے‘ میں جانتا ہوں۔ بزدار نے حال ہی میں پی ٹی آئی کو جوائن کیا تھا۔ جب وہ جوائن کرنے ان کے پاس بنی گالہ آئے تو وہ واحد ایم پی اے تھے‘ جنہوں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ نہ وزارت مانگی اور نہ ہی کوئی شرائط رکھیں۔ عمران خان حیران ہوئے جب عثمان بزدار نے کہا کہ ان کے علاقے کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے ‘لیکن وہاں کوئی ہسپتال تک نہیں ہے‘ لہٰذا ان کے جوائن کرنے کے بدلے ‘اگر وہ انہیں وہاں چھوٹا سا ہسپتال بنوا دیں گے‘ تو وہ سمجھیں گے کہ ان کو سیاسی قیمت مل گئی ۔ عمران خان نے کہا: جو لوگ عثمان بزدار پر تنقید کررہے ہیں‘میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ تین ماہ انتظار کریں۔ تین ماہ بعد مجھے پھر بتانا اور یہی عثمان بزدار ہی کام کرے گا اور نہیں کرے گا‘ تو پھر بتانا‘ میں پھر آپ کی باتیں مان لوں گا ۔
عمران خان نے کہا: چلیں اچھا ہے‘ سپریم کورٹ نے سب کو بلا لیا ہے اور سب بات سامنے آجائے گی ۔ عمران خان ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ انہیں آئی جی کلیم امام بتا چکے ہیں کہ قصور پولیس کا ہے‘ لہٰذا عدالت میں بھی وہ یہی بیان دیں گے اور انکوائری رپورٹ میں بھی یہی کچھ نکلے گا‘ لہٰذا ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں اور سپریم کورٹ سے مانیکا خاندان یا وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘ تاہم جب انہیں عامر متین نے پوری بات بتائی ‘تو ان کے چہرے پر کچھ پریشانی کے اثرات نمودار ہوئے‘ لیکن بہت جلد ہی قابو پا کے پھر کہا: چلیں اچھا ہوا ‘سپریم کورٹ نے بلا لیا ہے۔ اچھا کیا ہے۔ عمران خان ابھی اس ایشو سے نکلے ہی تھے کہ شہزاد اقبال نے کہا: خان صاحب !جو کچھ پنجاب حکومت کے وزیراطلاعات فیاض چوہان نے کیا ‘ اس پر وہ کیا کہتے ہیں۔عمران خان نے پوچھا: اس نے کیا کیا ہے‘ مجھے تو پتہ نہیں ہے۔ ایک لمحے کے لیے پھر سب صحافیوں کو کرنٹ لگا کہ دو تین دن سے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر فیاض چوہان کا موضوع چھایا ہوا ہے۔ عمران خان نے اِدھر اُدھر دیکھا تو انہیں پھر شہزاد نے بتایا کہ اس نے جہاں ٹی وی چینلز کے اینکرز کو گالیاں دیں‘ وہیں اس نے لاہور میں خواتین اور اداکارائوں کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہے ۔ وہ نیا اخلاقی کوڈ متعارف کرانے جارہے ہیں۔ عمران خان کو واقعی کچھ پتہ نہ تھا۔ ان تین‘ چار دنوں میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ان کے وزیراطلاعات نے کیا گل کھلائے ۔ عمران خان سے پوچھا گیا کہ کس معیار پر چوہان جیسے بندے کو انہوں نے اتنے بڑے صوبے کی اہم وزارت دے دی؟ ۔ 
عمران خان بولے: دراصل جن دنوں ان کی پارٹی نواز لیگ کے ہاتھوں بہت شدید تنقید کا شکار تھی‘ تو وہ چاہتے تھے کہ ان کی پارٹی کے لوگ ٹی وی چینلز پر جا کر انہیں ان کی زبان میں جواب دیں۔ اس وقت انہوں نے پارٹی کے چند لوگوں کو کہا کہ وہ بھی جا کر دفاع کریں ‘ لیکن اس وقت یہی فیاض چوہان تھا‘ جس نے ہر جگہ جا کر نواز لیگ کے ان لوگوں کا سامنا کیا اور پارٹی کے لیے لڑا۔ عمران خان کے بقول‘ وہ مشکل وقت میں پارٹی کا وفادار رہا‘ لہٰذا اب اسے وزارت دی گئی ۔ میں نے صحافیوں کے چہرے پر نظر ڈالی ‘تو چند چہروں پر واضح لکھا ہوا تھا کہ وفاداری کا صلہ دیا گیا ۔ یہی معیار تو نواز شریف اور مریم نواز کا تھا ‘جو ان کا ٹی وی سکرین پر دفاع کرسکتا تھا‘ وہی وزارت کا اہل تھا۔ مریم نواز تو ہر روز ناشتے پر ان پارٹی لیڈروں کے لیے تالیاں بجواتی تھیں‘ جو کل رات ٹی وی شوز میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی ایسی تیسی کر کے آتے تھے۔ طلال چوہدری‘ مریم اورنگزیب ‘ دانیال عزیز‘ محسن رانجھا کو وزارتیں ملنے کے پیچھے بڑی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ ٹی وی چینل پر مریم اور نواز شریف کا اندھا دھند دفاع کرتے تھے۔ تو کیا اب تحریک انصاف بھی معیار اور میرٹ کی بجائے صرف وفاداری دیکھے گی کہ کون کتنی بڑی گالی میٖڈیا اور مخالفین کو دے سکتا ہے؟ 
عمران خان کو بھی محسوس ہوا کہ ان کے جواب سے صحافی کچھ مطمئن نہیں ۔ عمران خان نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولے: ایسی وزارتیں اور پوزیشن کوئی مستقل نہیں ہوتیں۔ اس طرح کے فیصلے بدلے بھی جاسکتے ہیں ۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ فیاض چوہان سے پنجاب کی وزارت واپس لی جاسکتی ہے ۔
اتنی دیر میں نسیم زہرہ نے کھڑے ہوکر کہا: خان صاحب جو کچھ سوشل میڈیا پر آپ کی پارٹی کے لوگ ان صحافیوں کے ساتھ کررہے ہیں‘ جو تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں ‘ اس بارے انہیں اندازہ ہے ؟ نسیم زہرہ نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پرعاصمہ شیرازی اور سلیم صافی پر ہونے والی گالی گلوچ پر تنقید کی۔ عمران خان بولے :کبھی بھی ایسی باتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے‘ بلکہ وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ایسی باتوں سے پارٹی کا نقصان ہوتا ہے۔ چوہدری غلام حسین‘ جو اتنی دیر سے بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے‘ اچانک زور سے بولے: وزیراعظم عمران خان تو'فوت‘ ہوچکے ہیں ۔سب چونک پڑے۔ یوں لگا جیسے کمرے میں بم پھٹا ہو۔ سب کی نظریں چوہدری غلام حسین کی طرف گئیں۔ عمران خان نے بھی غیرارادی طور پر چوہدری غلام حسین کو فوراً دیکھا ۔ عمران خان‘ فواد چوہدری‘ شاہ محمود قریشی سمیت ہم صحافی اور وزیراعظم کا سول‘ ملٹری سٹاف سب کچھ بھول کر ششدر اور گھبرائی ہوئی نظروں سے اب چوہدری غلام حسین کو دیکھ رہے تھے۔اینکر جاسمین منظور زور سے بولیں: چوہدری صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟عمران خان کی نظریں اب چوہدری غلام حسین پر جمی ہوئی تھیں ۔ وزیراعظم کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی تسبیح کے دانوں کی رفتار میں اچانک تیزی آگئی تھی۔ ( جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved