تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     03-09-2018

پانی کے مسئلہ پر پاک‘ بھارت مذاکرات

ایک اطلاع کے مطابق دریائی پانی کے مسئلے پر لاہور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات مثبت نوٹ پر اختتام پذیر ہوئے ہیں۔ یہ مذاکرات انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاک بھارت واٹر کمیشن کی سطح پر منعقد ہوئے ۔ اس کمیشن کا مقصد یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پر عمل درآمد کے سلسلے میں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات پیدا ہوں تو انہیں باہمی بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے۔ لاہور میں ہونے والے مذاکرات میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر دو ہائیڈرو پاور جنریشن منصوبوں کی تعمیر موضوع بحث تھی۔ پاکستان کو ان دونوں ڈیموں کے ڈیزائن پر اعتراض ہے۔ سندھ طاس معاہدہ‘ جس پر پاکستان اور بھارت نے 1960ء میں دستخط کئے تھے‘ کے تحت مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہونے والے تین مغربی دریا : چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی کلیتاً پاکستان اور تین مشرقی دریا‘ یعنی راوی‘ ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو ان مغربی دریائوں پر پن بجلی کا کوئی منصوبہ لگانے سے پہلے پاکستان کو ڈیزائن اور پانی سٹور کرنے کی صلاحیت کے بارے میں اعتماد میں لینا ضروری ہے‘ تا کہ ان دریائوں کے پانی کاپاکستان کی طرف بہائو متاثر نہ ہو۔ ان تین مغربی دریائوں پر بھارت نے پن بجلی پیدا کرنے کے لیے متعدد ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے‘ لیکن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان ڈیموں کے ڈیزائن اور سٹرکچر کے بارے میں پیشگی پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا تنازعہ پیدا ہوا‘ جو کہ کشمیر کے بعد سب سے بڑا تنازعہ ہے‘ کیونکہ پاکستان کی زراعت‘ جسے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے‘ کا سارا دارومدار نہری پانی پر ہے ‘جو کہ ان دریائوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2004ء میں جب پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دو طرفہ امن مذاکرات کا ''کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ کے نام سے سلسلہ شروع ہوا ‘تواس میں سات دیگر اہم تنازعات کے ساتھ ان دریائوں پر بھارت کی طرف سے ڈیم تعمیر کرنے کا مسئلہ بھی شامل کیا گیا تھا۔
پاکستان کے نزدیک ان ڈیموں کی تعمیر میں سپل ویز اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے جھیلیں‘ معاہدے میں دی گئی ہدایات کے مطابق تعمیر نہیں اور اس طرح ان دریائوں کا پاکستان کی طرف بہائو متاثر ہو سکتا ہے۔ ''کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ میں شامل جن دیگر تنازعات پر 2004ء سے 2008ء تک پاک بھارت مذاکرات کے جتنے رائونڈ ہوئے‘ ان میں پانی کے تنازعہ پر بھی مختلف سطح پر بات چیت ہوتی رہی‘ لیکن مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی‘کیونکہ بھارت نے ان ڈیموں کے ڈیزائن اور سٹرکچر پر پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کر دیا تھا‘ مگر یہ پہلا موقعہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے اعتراضات کو تسلیم کر کے ان پر مزید گفتگو کے لیے پا کستانی وفد کو نئی دہلی آنے کی دعوت دی ہے۔ جن دو ڈیموں پر لاہور میں بات چیت ہوئی‘ ان میں سے ایک پاکل ڈل اور دوسرا لوئر کلنائی پاور پراجیکٹ ہے۔ ان میں پاکل ڈل سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ‘جو بھارت دریائے چناب کے ایک معاون دریا ''مارشودار‘‘ پر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پانی کا ایک ذخیرہ تعمیر کیا جائے گا ‘جس میں 88 ہزار ایکٹ فٹ پانی سٹور کیا جائے گا۔ اس میں پن بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک سپِل وے بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کے مطابق اس سپل وے کو انڈس واٹر ٹریٹی کی دفعات کے برعکس 15 میٹر نیچے رکھا گیا ہے۔ اس سے بھارت کو جھیل میں مزید 11 ہزار ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کا موقعہ مل جائے گا‘ جو کہ معاہدے کے منافی ہے ‘کیونکہ اس سے پاکستان کی طرف دریائوں کے پانی کا بہائو متاثر ہو سکتا ہے۔
لاہور میں ہونے والی بات چیت میں پاکستان نے یہی اعتراضات اٹھائے تھے اور بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے ڈیزائنوں میں تبدیلی کرے‘تاکہ دریا کے پانی کا بہائو متاثر نہ ہو۔ اطلاعات کے مطابق بھارت پاکستان کے ان اعتراضات کی روشنی میں ڈیموں کے ڈیزائن کو از سر نو تیار کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے وفود نے مذاکرات کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ میں اس مفاہمت کا اظہار کیا ہے اور اس کی تفصیلات طے کرنے کے لیے مذاکرات کا اگلا رائونڈ نئی دہلی میں ہوگا۔ لاہور میں پانی کے مسئلے پر پاک بھارت مذاکرات میں مثبت پیش رفت‘ کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ کامیابی پاکستان میں ایک نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد حاصل ہوئی ہے‘ چونکہ وزیراعظم عمران خان بھارت کے ساتھ کشیدگی دور کرنے اور تنازعات کے حل کے لیے پر عزم ہیں اور اس کا اظہار وزیراعظم نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی کر دیا تھا۔ اس لیے آبی مذاکرات میں پیش رفت ایک اچھا شگون ہی نہیں ‘بلکہ دیگر مسائل پر مذاکرات کے آغاز کی بنیاد بن سکتی ہے؛ اگرچہ یہ مثبت پیش رفت صرف ایک مسئلہ تک محدود ہے‘ لیکن اس سے یہ تاثر ختم ہو جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دوسرے ان مذاکرات میں پیش رفت دونوں ملکوں میں ان عناصر کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گی ‘جو ایک دوسرے کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کر کے نفرت‘ تصادم اور خون ریزی کا بیج بونا چاہتے ہیں۔ ان عناصر کی سب سے بڑی خواہش دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت اور عدم برداشت کا ماحول پیدا کرتا ہے ‘ تاکہ کشیدگی برقرار رہے اور کسی قسم کا دوستانہ انٹرایکشن نہ ہو‘ بلکہ یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے تصادم پر منتج ہو۔ ان عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنی بدگمانی اور نفرت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پکا اور ازلی دشمن سمجھتے ہیں۔ لاہور کے کامیاب مذاکرات سے ان منفی عناصر کے پراپیگنڈے کے اثرات کو زائل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں بھی مدد ملے گی‘ جس میں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی خلیج پاٹنے میں سہولت حاصل ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فریقین میں یقین پیدا ہوگا کہ کشمیر جیسے پرانے اور پیچیدہ مسائل کو بھی اسی جذبے کے تحت قدم بہ قدم اپروچ سے حل کیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے مذاکرات میں پیش رفت نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت نہ صرف ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھتے ہیں‘ بلکہ باہمی مفاد کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک کے فائدے میں دوسرے کا نقصان یا ایک کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہے‘ بلکہ حقیقت میں دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
پانی ایک ایسا مسئلہ ہے‘ جس پر دونوں ملکوں کے پاس تعاون کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں‘ کیونکہ آب و ہوا میں تغیر و تبدیلی کے عمل اور بڑھتی ہوئی آبادی و صنعتی ضروریات اور غذائی مسائل کے دبائو کے تحت دونوں ملک پانی کی قلت کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ ہمالیہ کے گلیشیئر‘ جو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے لیے سارا سال پانی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں‘ تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ سورس خشک ہو جائے گا۔ اس سے بچنے کے لیے پاکستان اور بھارت پر لازم ہے کہ وہ بجائے اس کے دستیاب پانی کو اپنے زیادہ سے زیادہ تصرف میں لانے کے لیے ایک دوسرے سے الجھیں‘ بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر طویل المیعاد بنیادوں پر اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں‘ کیونکہ پانی کا مسئلہ اب صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں‘ بلکہ پورے خطے کا مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر لاہور کے مذاکرات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پیش رفت کا پورے خطے میں خیر مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف جنوبی ایشیا کے ان دو سب سے بڑے ممالک کے درمیان ‘جو ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں ‘کشیدگی کی کمی کے امکانات فروغ پائیں گے‘ بلکہ پانی جیسے اہم مسئلے کا ایک دیر پا اور سب کیلئے تسلی بخش حل کا راستہ بھی نکل آئے گا۔ دنیا کے دیگر ممالک جو پاک بھارت کشیدگی کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ بھی اس اہم اور حوصلہ افزاء پیش رفت کا خیر مقدم کریں گے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved