تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-09-2018

میڈیکل (مِس) گائیڈ

س: انشائیہ لکھنے لگتا ہوں‘ تو منہ پر دانے نکل آتے ہیں‘ بہت پریشان ہوں‘ دوست یار الگ مذاق کرتے ہیں‘ بہت علاج کروا چکا ہوں‘ کوئی فرق نہیں پڑا۔ ٹونے ٹوٹکوں سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔ بتائیے میں کیا کروں؟ (ماشا اللہ خان‘ منشا آباد)
ج: پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کے انشائیہ لکھنے سے انشائیے کے منہ پر تو دانے نہیں نکلتے؟ دوسری وضاحت کریں کہ دوست یار آپ کو ان دانوں کی وجہ سے مذاق کرتے ہیں یا انشائیوں کی وجہ سے؟ اس کے علاوہ یہ بتائیں کہ چونکہ دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔ آپ کے والے دانے پر مہر ہوتی ہے؟ یعنی آپ کے دانے بھی مہر والے ہیں یا اس کے بغیر‘ نیز یہ بھی کہ آپ کو اعتراض دانوں کے صرف منہ پر نکلنے پر ہے یا کسی اور جگہ پر بھی‘ مثلاً: دانے‘ اگر آپ کی زبان پر نکل آئیں‘ جس سے آپ باقاعدہ دانے دار گفتگو کرنے لگ جائیں تو کیسا رہے؟ اوّل تو دانے اگر منہ پر ہیں‘ تو آپ کا کیا لیتے ہیں‘ بہتر تو یہ ہے کہ دانوں کی فصل جب تیار ہو تو احتیاط سے اسے برداشت کر لیں اور مزید انشائیے لکھ کر دوسری فصل کاشت کرنے کی تیاری کریں۔ باقی جہاں تک آپ کے پریشان ہونے کا تعلق ہے‘ تو وہ تو آپ دانے نہ نکلنے پر بھی ہوتے کہ اس کے لیے انشائیہ نگاری خود ہی کافی ہے‘ بلکہ اگر آپ باقاعدہ سروے کرائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کے لکھے ہوئے انشائیے پڑھنے والوں کے منہ پر بھی دانے نکلے ہوئے ہوں گے اور اگر وہ آپ سے بھی زیادہ پریشان ہوں تو آپ کو حیران پریشان ہونے کی ضرورت نہیں؛ البتہ انشائیہ لکھنے سے ہم آپ کو منع اس لیے نہیں کرتے کہ آپ اور آپ جیسے بعض دوسرے حضرات کے انشائیہ لکھنے سے کئی اور حضرات کے لیے نہ صرف روزگار کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا‘ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس پریشانی میں ان کے منہ پر بھی دانے نکلنا شروع ہو جائیں‘ لہٰذا ان دانوں پر مٹی ڈالیں اور یاد رکھیں کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے‘ بلکہ آپ کو تو خدا اور انشائیہ نگاری کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ آپ ماشاء اللہ دونوں میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔
س: کئی دن سے ایسا ہے کہ کوئی ادب پارہ تخلیق کرنے لگتی ہوں‘ تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور لکھ نہیں پاتی‘ اتفاق سے کافی مشہور ہو چکی ہوں‘ اس لیے لکھنا ترک بھی نہیں کر سکتی۔ کسی سے لکھوانے لگتی ہوں‘ تو زبان لڑکھڑانا شروع کر دیتی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ مجھے کسی کی نظر لگ گئی ہے‘ کیونکہ 25 سال کی ادبی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا ہے براہ کرم کوئی علاج تجویز کیجئے (جنبش لرزانوی۔ رکشہ پورہ ‘ لاہور)
ج: اگر تو آپ کا قلم کانپتا ہے‘ تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قلم چوری کا ہو۔ اس صورت میں نہ صرف آپ کو قلم اصل مالک کو لوٹا دینا چاہئے ‘بلکہ اس سے معافی بھی مانگنی چاہئے اور معافی آپ زبانی بھی مانگ سکتی ہیں‘ کیونکہ تحریری معافی کی صورت میں آپ کا ہاتھ پھر کانپنے لگ جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کسی اور کی تحریر ہی چوری کر رہی ہوں اور تیسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ‘ آپ کا ہاتھ محض عمر کے تقاضے کے باعث کانپ رہا ہو؛ البتہ اس بات کا انصاف آپ خود ہی کر سکتی ہیں کہ 25 سالہ زندگی ادبی گزارنے کے بعد ‘جبکہ آپ پچاس کے پیٹے میں ہوں گی‘ آپ کو نظر کون لگا سکتا ہے اور آپ کو نظر لگ کیسے سکتی ہے اور اس عمر میں آپ کو نظر لگانے سے کسی کا کیا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ باقی جہاں تک زبان کی لُکنت یا لڑکھرانا تو اس کی وجہ سوائے کثرتِ استعمال کے اور کوئی نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین زبان چلانا یا اس سے کام لینے کا عمر بھر کا کوٹہ جلد ہی پورا کر لیتی ہیں اور اس کے بعد زبان رفتہ رفتہ جواب دینا شروع کر دیتی ہے‘ کیونکہ ایک خاتون اگر رانگ نمبر پر ایک گھنٹہ گفتگو کر سکتی ہے‘ تو زبان کے اوسط استعمال کے بارے میں اندازہ خود لگا سکتی ہیں‘ تاہم آخر میں اس سلسلے میں ایک علاج تو یہ ہے کہ اگر آپ قلم سے نہیں لکھ سکتیں تو پنسل سے استفادہ کر کے دیکھ لیں۔ بصورت دیگر لکھنا بند کر دیں اور اگر شہرت کی مجبوری آڑے آتی ہو تو تصور آپ کا نہیں‘ بلکہ آپ کو شہرت دلانے والوں کا ہے‘ جو آپ کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ آپ واقعی مشہور ہو چکی ہیں۔
س: میں شاعر ہوں‘ نثری نظم میں طبع آزمائی کرتاہوں۔ کئی روز سے مجھے غذا ہضم نہیں ہوتی؛حتیٰ کہ اگر کوئی میرے کلام کی تعریف کرے‘ تو میں وہ تعریف بھی ہضم نہیں کر سکتا اور لوگوں کو بتاتا پھرتا ہوں‘ کوئی مفید مشورہ دیجئے‘ ممنون ہوں گا (بدہضم معدوی‘ اوجھڑی پورہ‘ شیخوپورہ)
ج: حیرت ہے کہ آپ شاعر ہونے کے باوجود غذا بھی کھاتے ہیں‘ جبکہ شاعر ہونے کا مطلب صرف شاعر ہونا ہے اور بس‘ یعنی شاعر شاعری کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ کر بھی سکتا ہو تو نہیں کرتا‘ کیونکہ وہ نہایت دیانتداری کے ساتھ سمجھتا ہے کہ اس کے کرنے کا باقی سارا کام دوسروں کو کرنا چاہئے‘ چنانچہ شاعر اگر کچھ نہیں کرتا تو کھائے کہاں سے؟ اس لیے وہ کھاتا بھی کچھ نہیں‘ محض چائے پر گزارہ کرتا ہے اور چائے ایک ایسی چیز ہے کہ جسے کم از کم غذا ہرگز نہیں کہا جا سکتا ۔اس لیے اس کے ہضم نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ تو پینے والے کو خود ہضم کرتی رہتی ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی غذا واقعی آپ کو کہیں نہ کہیں سے مل بھی جاتی ہے‘ تو اس کے ہضم نا ہونے کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غذا تنی دیر تک ہضم نہیں ہوگی۔ آپ کے پیٹ ہی میں رہے گی‘ یعنی اتنی دیر کے لیے آپ کو مزید غذا کی حاجت سے بے نیاز کر دے گی اور اگر ہو بھی تو شعر و شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ نہ صرف اسے فرما سکتے ہیں ‘بلکہ بوقت ضرور کھا بھی سکتے ہیں۔ یوں بھی چونکہ نثری تعلیم ردیف قافیے اور آہنگ و وزن سے بے نیاز ہوتی ہے‘ اس لیے خاصی ہلکی پھلکی اور زیادہ ہضم ہوتی ہے۔ یہ ذائقے دار بھی ہو گی اور پیٹ میں گڑبڑ بھی نہیں کرے گی‘ تاہم ایک کام آپ ضرور کریں ‘جو خواتین و حضرات آپ کے کلام کی تعریف کرتے ہیں۔ آپ بھی اِدھر اُدھر ان کی تعریف کر دیا کریں‘ کیونکہ گاڑی اسی طرح سے چلتی ہے!
آج کا مطلع
کوئی لینا ہے نہ دینا تجھ سے
پھر یہ کیوں رہتا ہے جھگڑا تجھ سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved