تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-09-2018

یہ محفل جو آج سجی ہے …

کوئی بھی بُری عادت بہت مشکل سے پیچھا چھوڑتی ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ بُری عادت کے ساتھ ساتھ چلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ تو ہوا انفرادی معاملہ اور اگر بُری عادت پوری قوم کو لپیٹ میں لے چکی ہو تو؟ ایسی کیفیت کو تو آپ قیامت کی ایک شکل کا برپا ہوجانا ہی سمجھیے! 
بزم آرائی کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے جس کے پنپنے کی رفتار اتنی غضب ناک ہے کہ دیکھیے رہیے اور گھبراہٹ میں مبتلا رہیے۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ بزرگ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ ہر وقت جلسہ برپا کیا جائے‘ مل بیٹھ کر ہڑبونگ مچائی جاتی رہے۔ بزرگوں نے اصلاح کی اپنی سی کوشش ضرور کی‘ مگر افسوس کہ ع 
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی 
زمانہ بڑا ستم ظریف ہے۔ اِس نے سبھی کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کل کی ہر اچھی بات آج کی بُرائیوں میں سرفہرست رکھی جارہی ہے اور جو کچھ کل انتہائی معیوب ٹھہرتا تھا وہ اب اس قدر پسندیدہ ہے کہ دیکھ دیکھ کر دل کو کُڑھنے کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا اور کُڑھیے بھی کہاں تک؟ تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ رہنے کے چارہ ہی کیا ہے؟ 
بات بات پر بزم آرائی کو محتاط ترین الفاظ میں بھی بیان کرنا ہو تو ذہنی خلل ہی کہا جائے گا اور کسی بھی ذہنی خلل کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ متعلقہ فرد اپنی غلطی‘ خامی یا کمزوری کو تسلیم کرنے پر مائل ہی نہیں ہوتا‘ اگر کچھ زیادہ ہی زور دے کر کسی بڑی ذہنی پیچیدگی کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کیجیے تو جواب ملتا ہے ؎ 
مَے سے غرض نشاط ہے کس رسیا کو 
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے 
سب یہی کہتے ہیں۔ کوئی اگر رات رات بھر محفل کی رونق میں اضافے کا وسیلہ بنے رہنے کا عادی ہو اور آپ پوچھئے تو جواب یہی ملے گا کہ ''یہ شوق تو دوسروں کا ہے‘ میں تو بس یونہی اُن کا ساتھ دینے کے لیے بیٹھا رہتا ہوں!‘‘ اور اگر آپ سوال کیجیے کہ اگر ایسا ہی ہے تو یہ سب چھوڑ کیوں نہیں دیتے تو جواب ملے گا ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں‘ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا!‘‘ یہ جواب سُن کر آپ کے پاس صرف پیچ و تاب کھاکر چپ ہو رہنے کا آپشن بچتا ہے!
سبھی کو رونق چاہیے۔ ہر وقت شور شرابہ درکار ہے۔ ہڑبونگ مچی رہے۔ دھول دھپّا ہو‘ ہاہا ہی ہی ہُو ہُو کا بازار گرم ہو۔ مقصود صرف یہ ہے کہ دور‘ بہت دور تک ویرانے کا تاثر نہ ابھرے۔ آواز آتی رہے‘ خواہ تکلیف دہ ہو۔ رنگ جمتا رہنا چاہیے‘ خواہ بہت کچھ داغ دار ہوتا رہے۔ 
ہر دم کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا کیے رکھنے کی عادت نئی نہیں۔ پاکستان کی کم و بیش دو نسلیں ''ہنگامہ پسندی‘‘ کے ہلاکت خیز رجحان کی نذر ہوچکی ہیں۔ جس طرح فلسفی خدا کے وجود و عدم کی بحث میں ڈور کو سلجھاتا جاتا ہے‘ مگر سِرا نہیں ملتا بالکل اُسی طور ہنگامہ پسندی کے میلانِ غالب کی بھی اصل دکھائی نہیں دیتی‘ جڑ نہیں ملتی۔ محترم ناصرؔ زیدی نے کسی دور میں خاصی سادگی کے ساتھ کہہ دیا تھا ؎ 
کوئی ہنگامہ چاہیے ناصرؔ 
کیسے گزرے گی زندگی خاموش 
اس مقطع نے حلوائی کی دکان پر انگلی کی مدد سے لگائے جانے والے شیرے کا کام کیا! بس‘ اُن کے کہنے کی دیر تھی۔ یاروں نے بات کو دانتوں سے پکڑ لیا اور پھر چھوڑنے کا نام نہ لیا۔ قوم نے سوچا جب ایک صاحبِ نظر نے کہا ہے کہ کوئی ہنگامہ چاہیے تو ''کوئی‘‘ کی منزل پر کیوں رکا جائے! جب ''ہنگامہ پسند‘‘ ہونا لازم ٹھہرا تو پھر کیوں نہ ہنگامے برپا رکھے جائیں‘ ماحول کو زیادہ سے زیادہ مست بنایا اور رکھا جائے! 
1970ء کا عشرہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے غیر معمولی حد تک زرخیز تھا۔ اس عشرے میں ایسے فلمی گیت تخلیق کیے گئے‘ جو آج بھی ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہیں۔ ایسا ہی ایک گانا فلم ''خاندان‘‘ کا ہے‘ جو خلیل احمد کی موسیقی میں ملکۂ ترنّم نور جہاں نے گایا تھا۔ ؎ 
آئے ہو ابھی‘ بیٹھو تو سہی‘ جانے کی باتیں جانے دو 
جی بھرکے تمہیں میں دیکھ تو لوں‘ دل قابو میں آنے دو 
اِسی گیت کا انترا ملاحظہ فرمائیے ؎ 
اب تک تو دل کی باتیں آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سُنیں 
خاموشی سے یہ دم گھٹتا ہے‘ اب بات لبوں تک آنے دو 
یہاں ''اب تک‘‘ کے الفاظ ایک طویل مدت کو ظاہر کر رہے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں ''اب تک‘‘ کا مفہوم ہے محض چند دن۔ لوگ آن کی آن میں ذہن کو بھر بیٹھتے ہیں اور پھر اُسے خالی کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ خاموشی سے دم گھٹنے کی بات اُس وقت کی جاتی ہے جب خاموشی کا دورانیہ طویل ہو۔ اب عالم یہ ہے کہ لوگ کوئی بھی بات سنتے ہیں‘ اُس کے بارے میں ذہن بناتے ہیں اور تین چار یاروں کو جمع کرکے محفل سجالیتے ہیں۔ سوچنے والے سوچتے رہ جاتے ہیں ع 
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو 
مسئلہ یہ ہے کہ اب اپنا ہی وجود برداشت کرنا محال ہوگیا ہے۔ عادت ہی نہیں رہی کہ اپنی صحبت اختیار کی جائے‘ اپنے سنگ سنگ رہا جائے۔ اپنے آپ میں رہنا اور اپنی موج میں بہنا جیسے سوہانِ روح ہوچکا ہے۔ چند لمحات بھی اپنی معیت میں گزارنا قیامت سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ وقت گزارنے کے لیے کسی نہ کسی کی سنگت ضرور درکار ہوتی ہے۔ کسی کو مطالعے سے غرض ہے نہ سوچنے سے۔ سنجیدگی کو ہم سے دامن کش ہوئے زمانے گزر چکے ہیں۔ کسی بھی نکتے پر غور کرنے کی توفیق کسی کسی کو ملتی ہے۔ سب کو غرض ہے تو بس بولنے سے‘ بلکہ بولتے رہنے سے۔ اور کوئی بولتا کب ہے؟ جب سامعین میسر ہوں۔ سامعین کا اہتمام کرنے کے لیے محفل بزم آرائی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ چراغ سے چراغ جلانا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ ع 
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا 
گھر ہو یا دفتر‘ بازار سے گزر ہو یا بس کا سفر‘ کہیں بھی چند لمحات کے لیے خاموش بیٹھتے رہنے ایسی الجھن ہوتی ہے کہ انسان شدید جھنجھلاہٹ کے عالم میں کچھ نہ کچھ بولنے لگتا ہے۔ یہ معاملہ ہے وجود کی اندرونی کمزوری کا۔ بولنا اور بولنے کے لیے مل بیٹھنا اب ہماری فطرتِ ثانیہ ٹھہرا ہے اور یہی اب ہمارا عالم فطرت ہے! 
زندگی ہم سے خدا جانے کتنے اور کیسے کیسے تقاضے کرتی ہے‘ مگر ہم ہیں کہ ہر تقاضا بھلاکر یا نظر انداز کرکے اپنی رَو میں بہتے چلے جاتے ہیں اور جب بہت دور نکل جاتے ہیں تب ہوش آتا ہے‘ تاہم تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس وقت کم و بیش پورا پاکستانی معاشرہ اس شدید غلط فہمی کا شکار ہے کہ ہر وقت بازارِ محفل گرم کیے بغیر زندگی بسر کرنا‘ خدا ناخواستہ‘ کوئی گناہِ عظیم ہے! آج کی دنیا اور اس دنیا میں پنپنے والی زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہنے کے اس دور میں ہم اپنا وقت اتنی بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں کہ دنیا دیکھ کر حیران و پریشان ہے۔ وقت سی دولت کو ضائع کرنا؟ اس عمل کو تو قیامت کی نشانیوں میں سمجھیے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایک دوسرے میں گم رہنے کی عادت ترک کرکے اپنے اپنے وجود کی گہرائی میں اتریں اور اپنا آپ تلاش کرکے باہر لائیں؟ اب ہر پل کا تقاضا ہے کہ جو آج سجی ہوئی ہے‘ اُس محفل کو ترک کرکے ہم اپنی صلاحیت اور سکت کو تلاش کرنے کا رجحان یوں اپنائیں کہ پورا معاشرہ ایک نئی محفل آراستہ کرتا دکھائی دے۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved