ہزار بار عرض کیا اور ایک بار پھر عرض ہے کہ انسان غلطی سے تباہ نہیں ہوتے‘ بلکہ اس پر اصرار سے۔
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
عربوں کا محاورہ ہے: آدمی کو خطا اور نسیان سے بنایا گیا۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اپنے آپ کو پاک باز نہ کہا کرو۔ بڑا نہیں تو چھوٹا گناہ کروگے ہی۔ خطا پہلا فعل ہے‘ جو آدم علیہ السلام سے سرزد ہوا ۔توبہ پہلا ادارہ ہے اور دائمی ہے۔سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘ اگر دل سے توبہ کی جائے۔اللہ کی صفتِ رحم‘ اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔
اگر وہ صاحب قادیانی ہیں‘ وزیراعظم کی معاشی مشاورتی کمیٹی میں جنہیں نامزد کیا گیا‘ تو انہیں خود ہی الگ ہو جانا چاہیے۔ اگر نہیں تو حکومت کو انہیں احساس دلانا چاہیے ۔ نہ مانیں تو الگ کردیئے جائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے ان پچیس ماہرین میں سے ایک ہیں‘ جو عہدِ آئندہ کی صورت گری کر سکتے ہیں۔ بجا ارشاد‘مگر پاکستان کے مسائل اتنے پیچیدہ نہیں کہ سلجھانے کے لیے آئن سٹائن جیسا ذہن درکار ہو۔چند نکات تو بالکل ہی واضح ہیں۔ کاروبار کی آزادی نہیں کہ سرکاری محکمے مداخلت کرتے ہیں۔ بجلی مہنگی ہے۔ روپیہ باہر جاتا ہے؛ چنانچہ ملازمتیں کم پیدا ہوتی اور معاشی سرگرمی ماند پڑتی ہے۔ 1990ء میں ایک قانون متعارف کرکے اس کام کا آغازخود میاں محمد نوازشریف نے کیا۔ جناب آصف علی زرداری سمیت کئی لیڈروں نے فائدہ اٹھایا۔ بہت سے صنعت کار اپنا سرمایہ بیرون ملک رکھتے ہیں۔ دھوکہ دہی کے لیے درآمدی اور برآمدی مال کی قیمت کم یا زیادہ دکھائی جاتی ہے۔
ٹیکس وصولی میں سب سے زیادہ قصوروار حکومت رہی‘ جسے پروا ہی نہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں یہ شرح سولہ فیصد تھی۔ گھٹتے گھٹتے نو فیصد رہ گئی۔ جب کہ سولہ سے بڑھ کر اب تک پچیس‘ تیس فیصد ہو جاتی تو چار ہزار ارب کی بجائے اب بارہ ہزار ارب روپے وصول کئے جا رہے ہوتے۔ اب تک سود پر لی گئی مقامی اور بین الاقوامی رقوم واپس کی جا چکی ہوتیں۔ ملک واقعی ایشین ٹائیگر بن گیا ہوتا۔ چین اور جاپان نہ سہی ہماری معیشت کوریا اور ملائیشیا ایسی ضرور ہوتی۔ زمین زرخیز ہے ‘ ذہن بھی زرخیز۔ سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک قوم ‘ مگراندازِ فکر منفی‘ رشوت کا چلن اور جدید علوم سے محروم ۔ جبر کے نتیجے میں مرجھائی عوامی صلاحیت۔
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
بعض یورپی ممالک میں ٹیکس وصولی 54 فیصد کو جا پہنچی۔ حکومتی اسراف بھی ردّعمل کو جنم دیتا ہے۔ اسراف اور غبن ایک الگ مسئلہ ہے۔ مثلاً تعمیراتی کاموں میں دو سے تین گنا اخراجات۔ بیس سے پچیس فیصد تو بعض ارکان اسمبلی اچک لے جاتے ہیں۔ جعلی ٹھیکیدار‘ اخراجات میں فرضی اضافہ‘ سرکاری افسروں اور بڑے منصوبوں میں حکمرانوں کا حصّہ۔ ان عوارض سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور فوری طور پر۔ ٹیکس وصولی اور اسراف کے خاتمے کا عمل ایک ساتھ شروع ہونا چاہیے۔ اہلکار اور افسر‘ ہر سال ایک ہزار ارب رشوت میں ڈکار جاتے ہیں۔
ٹیکس وصولی میں کم از کم تین گنا اضافے کے چار واقعات کا مشاہدہ کیا۔ تحصیل صادق آباد میں بنولے کا تیل کشید کرنے والی آئل ملوں سے۔ ایک نئے انکم ٹیکس افسر نے مالکان سے کہا کہ اس کا کوئی افسر رشوت مانگے گا‘ نہ مداخلت کرے گا‘ ٹیکس وہ پورا ادا کریں۔ پاک چین سرحد میں سست کے مقام پر یہ تجربہ ٹھیک اسی طرح کامیاب رہا۔ 1984ء کے آزاد کشمیر میں جب سید فاروق گیلانی مرحوم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ دو ایک برس پہلے چمن کے پاک افغان بارڈر پر یہ شرح گیارہ گنا بڑھی۔
قانون کا احترام مسلم برصغیر کے مزاج میں نہیں ۔ آبرو مند ہونے کے لیے برتر اور بارسوخ ہونا لازم ہے۔ قانون شکنی شعار ہے۔ جتنا کوئی قانون سے بالا ‘ اتنا ہی معتبر ۔ ٹیکس ادائیگی کا کلچر ہی پیدا نہیں ہو سکا۔
اعتزاز احسن میاں محمد نوازشریف کے وکیل تھے۔ سال گزشتہ انکشاف کیا کہ 1995ء اور 1996ء میں انہوں نے صرف پانچ ہزار روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ کس قدر خوف ناک بات ہے۔ اتنی ہی یہ کہ وکیل صاحب کو اعتراض بائیس برس کے بعد ہوا۔
معاشی سرگرمیاں امن میں فروغ پاتی ہیں۔ نظامِ انصاف جب طاقت ور ہو۔ قانون کی پابندی کرنے والا‘ توقیر کی نظر سے دیکھا جائے۔ ہماری پولیس ناکارہ‘ عدالت غیر مؤثراور رشوت کا چلن عام ہے‘ سرکاری دفاتر میں فرعون فروکش۔ دہشت گردی اس کے سوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب گھٹتی جا رہی ہے۔
ان سب مزمّن امراض سے برق رفتاری کے ساتھ نمٹا نہیں جا سکتا ‘مگر آغاز فوراً ہی ممکن ہے۔ مثلاً ایف بی آر کی تشکیل نو۔ اس کے اندر کارفرما انٹیلی جنس نظام کے علاوہ خارج سے اہلکاروں کی نگرانی۔ اس مقصد کے لیے بہترین افسروں کا چنائو۔ انٹیلی جنس بیورو میں ایسے افسر یقینا موجود ہیں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی سے چند افسر لیے جا سکتے ہیں۔ مستقل قیام فرمانے کی بجائے‘ یہ لوگ سول اہلکاروں کی تربیت کریں۔
خفیہ کاری میں چینی تجربہ بہت کامیاب رہا۔ غیرمعمولی کارکردگی پہ ہر ماہ ایک زائد تنخواہ بونس کے طور پہ۔ اگر بارہ مہینے ایسا ہو تو مزید دو تنخواہیں۔ نظم و نسق کی سائنس میں نئے تجربات کارفرما ہیں۔ ان سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ خود خلّاق پاکستانی ذہن نئے آفاق دریافت کر سکتا ہے۔ آزادی اور حوصلہ افزائی میں انسانی صلاحیت اس طرح بڑھتی ہے‘ جیسے برسات کے بعد جنگل لہلہائے۔ انسانی کمالات کی کوئی حد نہیں‘ وہ مشکل کو سہل‘ دشوار کو آسان اور کبھی کبھی تو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے۔
اتوار کی شام دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ میں عرض کیا تھا کہ قادیانی ماہر معیشت کے تقرّر پہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ قائداعظمؒ نے مشہور قادیانی سرظفراللہ خاں کو وزیرخارجہ مقرر کیا تھا۔عوامی ردّعمل سے اندازہ ہوا کہ خلقِ خدا برہم اور ناراض ہے۔ تحریک انصاف کے حامی پریشان ہیں کہ قوم اس معاملے میں حساس بہت ہے۔ عوامی حساسات کو نظرانداز کرکے سیاست نہیں کی جاتی۔ جناب رسول اکرم ﷺ حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کرنا چاہتے تھے‘ مگر نہ کیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے ارشاد کیا:نئی نئی تمہاری قوم مسلمان ہوئی ہے ‘ وہ یہ بات پسند نہ کرے گی۔
پیر کی دوپہر عرض کیا کہ عوامی جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ ان صاحب سے معذرت کرلی جائے۔ میرے دوست ارشاد محبوب نے کہا: عوامی جذبات کے سامنے جھک جانے کی بجائے‘ رائے عامہ کی تربیت کرنی چاہیے۔ اصولی طور پہ یہ بات درست ہے۔ لیکن پھر ایسی دلیل سامنے آئی کہ مان لینے کے سوا چارہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا تھا۔ وہ اس قانون کو مانتے نہیں ۔ نہ صرف خود کو مسلمان کہلانے پہ مصر ہیں‘ بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ دوسرے بھی انہیں اہل ایمان تسلیم کریں۔
لطیفہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی نبوت پر ایمان نہ لانے والوں کو غیرمسلم ہی نہیں کہتے‘ بلکہ نہایت غلیظ الفاظ ‘ان کے لیے استعمال کرتے رہے۔ قاعدے کی بات‘ قاعدے کی بات ہے۔ قانون قانون ہے اور اصول سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کو قادیانیوں کے جان و مال اور تمام حقوق کی ضمانت دینی چاہیے۔ ہرگز ہرگز ان سے کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے۔ مگر انہیں خود کو ایک الگ مذہب کے پیروکار تسلیم کرنا ہوگا۔ جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی کے بعد بھگوان داس قائم مقام چیف جسٹس رہے۔ نہ صرف یہ کہ کسی نے انگلی نہ اٹھائی‘ بلکہ غیرمعمولی احترام ان کے حصے میں آیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے آنجہانی چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کا ذکر آج بھی احسان مندی اور اکرام سے کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم اور اسد عمر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ قادیانی مشیر کو الگ کردیں۔ ہمارا حسنِ ظن یہ ہے کہ انہیں علم نہ تھا یا معاملے کی نزاکت کو وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ وگرنہ ناراضی‘پھر ہنگامہ اور اللہ نہ کرے پھر فساد۔ بساط ہی الٹ سکتی ہے۔
ہزار بار عرض کیا اور ایک بار پھر عرض ہے کہ انسان غلطی سے تباہ نہیں ہوتے بلکہ اس پر اصرار سے۔
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں