چار اپریل1979ء سے ایک شام پہلے ایم ایس ایف اور جماعتِ اسلامی کی مشترکہ تقریب تھی جس کی صدارت سردار عبدالقیوم کر رہے تھے۔ مہمانِ خصوصی جماعتِ اسلامی کے نامور وکیل شیخ خضر حیات تھے جو1977ء کے ’تاریخی دھاندلی والے انتخابات‘ میں پی این اے کے امیدوار کے طور پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہیں ابھی جج بننا تھا اور دوسرے عزت مآب لوگوں کے ساتھ اپنے بیٹے کے لئے میاں نواز شریف سے نائب تحصیلداری کا پروانہ بھی لینا تھا‘ تارا مسیح کے بیٹے کو بھی اسی تقرر کے لئے نوازا جانا تھا تاکہ جج سے جلاد تک مومنانہ انصاف کی جو کہانی لکھی جا رہی تھی،وہ تاریخی شعور کی جستجو کرنے والے تخلیق کاروں کے لیے آسان ہو جائے۔ موت کی کال کوٹھڑی میں بیٹھے شخص نے دورِ اقتدار میں کئی غلطیاں کی تھیں،اس لئے اس نے ہم جیسے پرستاروں کے دلوں پر ہمیشہ راج تو نہیں کیا تھا مگر وہ جب امریکی وزیرِ خارجہ سائرس وانس کا خط لہراتا ہوا پنڈی کی گلیوں میں ایک کھلی جیپ پر میگا فون لے کر نکلا تھا اور امریکی سفارت خانے کے خفیہ پیغام کا اپنے مخصوص طنزیہ اسلوب میںذکر کیا تھا: ’’The Party is Over نہیں جناب‘ آپ دیکھیں گے پارٹی از ناٹ اوور‘‘۔ تو وہ پھر سے ہمارا ہیرو بن گیا تھا۔ پھر جب اس کے خلاف خریدے ہوئے قلم کی زہر افشانی سے وائٹ پیپر چھاپے گئے،قتل کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک مضطرب چیف جسٹس نے استغاثے کے گواہوں کو لقمے دینے شروع کئے کہ ’’آپ در اصل یہ نام تو نہیں لینا چاہتے تھے؟ کیا آپ حقیقت میںیہ تو نہیں کہنا چاہتے؟‘‘ اور پھر ایک شکست خوردہ قوم کے جنگی قیدی واپس لانے والے، متفقہ دستور بنانے والے ،اسلامی سربراہی کانفرنس کے تاریخی لمحے کو اہلِ پاکستان کے دل کی دھڑکن بنانے والے اور قذافی کی اسرائیل دشمنی کی بدولت فراہم ہونے والے وسائل سے بھارت کے مقابلے پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حقیقی بنیاد رکھنے والے شخص کو ہماری اس عدالت نے ’عادی جھوٹا‘ کہا تاکہ بعد میں آنے والے متقی اور راست باز اپنی ہوسِ اقتدار کے لئے جعلی ریفرنڈم کرا کے ایک مضحکہ خیز سوال پرچی پر درج کر سکیں۔میرے جیسے اَن گنت لوگ عدالت سے انصاف کی توقع نہ ہونے کے باوجود تمام اخبارات میں اس نادر مقدمہ قتل کی کارروائی کی ایک ایک سطر پڑھتے تھے۔پھر سپریم کورٹ میں بھٹو کا تین دن پر محیط وہ شعلہ فشاں بیان آیا جس نے اس سازش کے سبھی کردار بے نقاب کر دیے‘ جس کے آخر میں بھٹو نے کہا: ’’مجھے جو کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا،اب آپ مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیں گے تو مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوگا‘‘۔ چنانچہ اگلے دن کے اخبارات میں اس کے قتل کے لئے ساز گار فضا بنانے پر مامور صحافیوں نے یہ صالح قسم کی سرخی جمائی ’’ذوالفقار علی بھٹو نے عدالتِ عالیہ پر اعتماد کا اظہار کر دیا‘‘۔ تین اپریل کے لگ بھگ عبدالحفیظ پیرزادہ کی نئی شادی کی خبر آئی (افسوس میرے ایک اور پسندیدہ کردار مخدوم امین فہیم نے ایسی شادی سے کوئی سبق نہ لیا اور کوئی پر اسرار ’سلامی‘ سندھی اور اردو کے اس شاعر اور باوفا سیاست دان کے اکائونٹ میں منتقل ہوگئی) ایک آدھ اخباری سطر میں بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے کال کوٹھڑی کی ملاقات کو آخری ملاقات قرار دیا گیا۔ اسی روز ضیاء الحق کے نام جاں بخشی کی سفارش کی ایک خبر بھی چھپی۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس جلسے کی صدارت سردار عبدالقیوم کر رہے تھے جو راجہ ظفرالحق کی طرح چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اوپننگ بیٹسمین کہلاتے تھے اور بھٹو نے بھی پی این اے کی لیڈر شپ سے مذاکرات ان کی وساطت سے شروع کئے تھے۔اس لئے میں اس جلسے میں گیا،وہاں جماعت اسلامی کے ایک اور وکیل اور رہنما ملک وزیر یہ کہتے ہوئے برس رہے تھے کہ آج جب کہ پاکستان کا بچہ بچہ اس قاتل کی پھانسی کا منتظر ہے،کسی کو اس کی جاں بخشی کا نا مبارک خیال کیسے آ گیا؟ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہوا تو اس قومی مجرم نے اس کی تائید کی جبکہ ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ سردار عبدالقیوم نے خلافِ توقع قومی مجرم کی فردِ جرم میں کوئی اضافہ نہ کیا اور بس سرسری باتیں ہی کیں۔چائے کی میز پر میں نے شیخ خضر حیات کے سامنے ملک وزیرغازی مرحوم سے کہا: ’’شاید آپ کو یاد ہو کہ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن پر آپ نے وکلا میں مٹھائی تقسیم کی تھی، میں اور اصغر ندیم سید موقعے کے گواہ ہیں کہ ہمارے ایک دوست خالد شیرازی نے اپنے ابا جی کے حکم کی تعمیل میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا اور ہماری درخواست پر شیخ صاحب نے اسے جونیئر کے طور پر رکھا تھا،غازی صاحب آپ نے گرم جوشی سے یہ ڈبہ میرے سامنے بھی رکھا تھا مگر میں نے آپ سے کہا تھا کہ عمر، علم اور مرتبے میں میں آپ سے چھوٹا ہوں گا،مگر اتنا جانتا ہوں کہ اپنے لوگوں کے سینوں پر ٹینک چڑھا کے ان پر دو چار سال حکومت تو کر سکتے ہیں مگر انہیں اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتے‘‘۔ غازی صاحب نے کہا: ’’سُرخے منہ پر جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں،اس لئے میں آپ کے اس الزام کا جواب نہیں دیتا‘‘۔ تب مجھے سردار عبدالقیوم سے سرگوشی کا موقع ملا اور پوچھا: ’’کیا کل ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پاکستانی قوم کے ایک طبقے کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا؟‘‘ انہیں شاید میری بے تکلفی پر حیرت ہوئی مگر میرا تاثر ہے کہ انہوں نے کسی قدر اداسی سے کہا: ’’بھٹو جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے،مگر نواب زادہ نصراللہ خان کی طرح میرا بھی یہ خیال ہے کہ یہ سیاسی سانحہ ہو کے رہے گا‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved