تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-09-2018

سوچنا تو پڑے گا …!

وقت پَر لگاکر گزر رہا ہے‘ یعنی اُڑتا ہی چلا جارہا ہے۔ یہ اُڑان ایسی ہے کہ اِس کا ساتھ دینے میں بڑے بڑے زورور ذرا سی دیر میں ہانپنے لگتے ہیں۔ وقت کی حقیقت کو سمجھنے والوں کی تعداد اِتنی کم ہے کہ کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا۔ معاشرے کا عمومی مزاج وقت کو برباد کرنے کا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ لاکھ خواہش اور کوشش کے باوجود وقت کو ضائع کرتے جاتے ہیں۔ 
سوچنا بہت ضروری ہے۔ قدم قدم پر زندگی ہم سے سوچنے کی صلاحیت اور سکت کو پروان چڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بیشتر معاملات کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم خوب سوچیں اور کسی بھی معاملے کا کوئی بھی پہلو یا زاویہ نظر انداز نہ کریں۔ مگر کبھی ہم نے سوچا ہے کہ سوچنے کا عمل ہے کیا؟ ہماری سادہ لوحی کا یہ عالم ہے کہ محض پریشان ہو رہنے کو بھی سوچنے کے زُمرے میں رکھتے ہیں! عام آدمی کسی بھی مشکل کو سامنے پاکر پریشان ہو جاتا ہے۔ پریشانی کا مطلب ہے بکھر جانا۔ سوچ بھی جب بکھر جاتی ہے‘ تو ہم کہتے ہیں کہ پریشانی لاحق ہے۔ ایسے میں کوئی بھی کام کی بات مشکل سے سُوجھتی ہے۔ سُوجھے بھی کیسے؟ کوئی بھی خیال ذہن ہی میں اُبھرتا ہے اور بحرانی کیفیت میں ہم ذہن کو اِس قابل رہنے ہی نہیں دیتے کہ وہ کوئی بھی کام کی بات سوچے اور ہمیں الجھن سے نجات دلانے میں مدد دے۔ 
اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوچنے اور محض پریشان ہو رہنے میں بہت واضح اور جوہری فرق ہے۔ سوچنے کا مطلب ہے کسی بھی معاملے پر اپنی ضرورت کے مطابق خیالات کو ترتیب دینا‘ کوئی ایسی راہ تلاش کرنا جس پر چلتے ہوئے ہم متعلقہ مسئلے کا ایسا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوں جو ہمارے لیے منفعت بخش ہو اور دوسروں کے لیے غیر ضروری ضرر کا باعث نہ بنے۔ ہماری کامیابی لازمی طور پر دوسروں کی ناکامی نہیں ہونی چاہیے۔ ایک آدرش کی حیثیت سے ایسی کوئی بھی صورتِ حال نہیں پائی جاتی جس میں ہر فریق فتح یاب کہلائے یا کم از کم شکست خوردہ نہ کہلائے۔ اِن معروضات کو پڑھ کر ذہن میںیہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ ہر اعتبار سے win win کہلائی جانے والی مثالی صورتِ حال کو یقینی بنانا تو کسی بھی طور ممکن نہیں۔ ایسا سوچنا درست ہے مگر اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم کبھی کبھی اپنی محنت اور توجہ سے معاملات کو ایسا رخ دے سکتے ہیں ‘جو ہماری کامیابی کی راہ تو ہموار کرے مگر ناکام رہنے والوں کے لیے زیادہ ہزیمت اور پریشانی کا باعث نہ بنے۔ 
خیر‘ یہ سوچنا تو بعد کا مرحلہ ہے کہ ہماری سوچوں سے کسی کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے اور اُس نقصان کو ٹالنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے‘ کہاں تک جایا جاسکتا ہے۔ پہلا مرحلہ سوچنے کا ہے۔ اِس وقت کیفیت یہ ہے کہ ہم سوچنے کی طرف مائل ہونے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ لوگ ذہن کو بروئے کار لائے بغیر زندگی بسر کرنے کے ایسے عادی ہیں کہ اب اِس حوالے سے کوئی معمولی سی بھی تبدیلی اُن کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ بیشتر معاملات میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر فیصلہ کرکے اُس پر عمل بھی کرلیا جاتا ہے۔ اور اِس کے بعد صرف پچھتانے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ 
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ سوچنا کیوں لازم ہے اور کس حد تک سوچنا چاہیے۔ ہم سبھی ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں اٹل صرف تبدیلی ہے۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ع 
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں 
سبھی کچھ پل پل بدل رہا ہے۔ ایسے میں اگر آپ نے بدلنے سے انکار کیا تو پیچھے رہ جائیں گے‘ ناکامی سے دوچار ہوں گے۔ بدلنے سے مراد یہ ہے کہ آپ وقت کا ساتھ دیں اور جب جب جو کچھ بھی کرنا لازم ہو وہ کر گزریں۔ اِس کے لیے سوچنا ناگزیر ہے۔ سوچنے ہی سے ہمیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلی کا ساتھ کس طور دینا ہے‘ کس معاملے میں کہاں تک جانا ہے۔ جو تمام متعلق حقائق کو سامنے رکھ کر سوچتے ہیں یعنی معاملات کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرتے اور لائحۂ عمل مرتب کرتے ہیں وہی زندگی کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں۔ 
سوچنے کا عمل سے بنیادی اور گہرا تعلق ہے۔ جتنی سوچ اُتنا عمل‘ جیسی سوچ ویسا عمل۔ کم سوچیے تو خرابی‘ زیادہ سوچیے تو پیچیدگی۔ اگر سوچ اور عمل میں مطابقت نہ ہو تو مصیبت۔ عمل کو سوچ سے آگے نہیں نکلنا چاہیے۔ اِن تمام نکات پر نظر دوڑائیے‘ غور کیجیے تو ذہن مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں اربوں افراد سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور عمومی سطح پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ سوچنے کا عمل محض توجہ نہیں بلکہ محنت اور قربانی کا بھی طالب ہے۔ ذہن پر زور دینا پڑتا ہے۔ کچھ اپنانا اور کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ حقائق ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچنے پر بہت سے پسندیدہ معاملات کو ترک کرنا لازم ٹھہرتا ہے کیونکہ حقیقت پسندی کا یہی تقاضا ہوتا ہے مگر ہم ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اپنی پسند کی بہت سی باتوں کو حقیقت پسندی کی دہلیز پر قربان کرنا ہمیں گوارا نہیں ہوتا۔ جب ہم قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تو قدرت بھی ہمیں کوئی رعایت دینے کا نہیں سوچتی اور یوں معاملات خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 
آج کا پاکستانی معاشرہ سوچ کے لحاظ سے بانجھ پن کی حالت میں ہے۔ لوگ لایعنی اور غیر متعلق باتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ وقت اور صلاحیت کو بلا جواز طور پر ضائع کرنے والی ہر چیز‘ ہر بات کو ہم حرزِ جاں بنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ہمیں خود بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سوچ خام ہے یا سِرے سے پائی ہی نہیں جاتی مگر پھر بھی ہم اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتے۔ سبب صرف یہ ہے کہ ہم کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ جو کچھ ہمیں عزیز ہو وہ خواہ کیسا ہی نقصان دہ ہو اور نقصان پہنچا رہا ہو تب بھی ہم اپنی روش تبدیل کرنے پر مائل نہیں ہوتے۔ زمانہ ہوش رُبا رفتار سے تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ رہن سہن‘ اقدار‘ اصول اور طریقِ عمل ... سبھی کچھ اِس طور تبدیل ہو رہا ہے کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ہر معاملے میں محض اطمینان بخش حد تک ہی نہیں بلکہ قابلِ رشک حد تک بھی سنجیدہ ہوں۔ کسی بھی معاملے میں جس قدر سوچنا لازم ہے اُس قدر سوچے بغیر بات بن نہیں سکتی‘ مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ 
آج کی دنیا میں ڈھنگ سے جینا آسان نہیں۔ سوچنا بھی بہت ہے اور عمل کی دنیا میں بھی بہت فعال رہنا ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ اگر حالات کے تقاضے نبھانے پر توجہ نہ دی تو سمجھ لیجیے انتہائی پست معیار کی زندگی ہمارا مقدر ہے۔ انسان زندہ تو رہ ہی لیتا ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کس طور زندہ رہتا ہے اور دوسروں کی نظر میں اُس کا مقام کیا ہوتا ہے۔ شدید مسابقت کے اِس دور میں سوچنے اور سوچے ہوئے پر عمل کرنے ہی سے بات بنتی ہے۔ بصورتِ دیگر انتہائی پست معیار کے ساتھ زندہ رہنے کا آپشن بچتا ہے جو پورے وجود کو شدید اضمحلال سے دوچار رکھتا ہے۔ معیاری اور معقول سوچ کے ساتھ جینا ہے یا اُس کے بغیر ... آپشن ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اور ہمیں پہلے آپشن ہی کو اختیار کرنا ہے تاکہ زندگی قابلِ رشک ہو اور جینے میں وہ مزا آئے جس کے ہم خواہاں ہیں اور جس کے لیے ترستے بھی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved