امریکا دھیرے دھیرے ''ان فولڈ‘‘ ہو رہا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا‘مگر خیر یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہو رہا۔ ہمیشہ یہی تو ہوا ہے۔ جب بھی کام نکل جاتا ہے‘ امریکا پردے کے پیچھے سے باہر آنے لگتا ہے۔ جب تک مفادات جُڑے ہوئے ہوتے ہیں‘ تب تک معاملات ع
صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
کی منزل میں پھنسے رہتے ہیں۔ جیسے ہی کام ہو جاتا ہے اور مفادات تکمیل کی منزل سے گزر لیتے ہیں‘ امریکا بہادر کی طوطا چشمی کھل کر سامنے آجاتی ہے اور ہم انتہائی غیر ضروری طور پر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت بھی نمایاں ہے۔ افغانستان میں معاملات ‘اگرچہ پوری طرح اطمینان بخش نہیں ‘مگر امریکا جو کچھ چاہتا ہے ‘وہ تو پاہی چکا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا کو پاکستان کی اب زیادہ ضرورت نہیں رہی۔ ایسے میں کیا ہونا چاہیے؟ گلو خلاصی‘ اور کیا! اور یہی ہو رہا ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے اور بہلانے پُھسلانے کے لیے امریکی قیادت کے پاس کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔ بات گھوم پھر کر پھر پاکستان تک آگئی یا پہنچادی گئی ہے۔ آسان ترین نسخہ یہی تو ہے کہ سارا نزلہ پاکستان پر گرادیا جائے۔
امریکی قیادت جو کچھ کر رہی ہے‘ وہ قومی مفادات کے تابع ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے بین الریاستی تعلقات میں وہی کچھ ہونا چاہیے ‘جو امریکا کر رہا ہے۔ پاکستان کو ڈرانے دھمکانے‘ بہلانے پُھسلانے کی منزل سے گزرنے کے بعد اب امریکا عملی پہلو کی طرف آگیا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرکے پاکستان کے خلاف فضاء تیار کی جارہی ہے‘ گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکا بنیادی طور پر کیا کرسکتا ہے؟ کم از کم تین مراحل ہیں‘ جن سے گزر کر امریکی قیادت پاکستان کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ اوّل: امداد کی بندش‘ دُوم: فوجی ساز و سامان کی فراہمی میں رکاوٹ اور سوم: اقتصادی رکاوٹیں۔ معیشت کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنے کے لیے امریکا متعدد ممالک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈلوا سکتا ہے۔ مغرب کی کئی طاقتیں امریکا کے زیرِ اثر ہیں۔ اپنی راہ الگ کرلینے کے باوجود وہ امریکا کی تھوڑی بہت ماننے پر تو اب بھی مجبور ہیں۔ یا کم از کم اتنی بات تو ماننی ہی پڑتی ہے‘ جس سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوں۔
پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران کی تربیت کے حوالے سے پروگرامز کی بندش اس بات کا واضح اشارا ہے کہ امریکی قیادت فی الوقت پاکستان کو گڈ بک سے نکال کر ''گڈز بک‘‘ میں رکھنے پر بضد ہے!
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے معقول حجم کے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا واضح عندیہ دے کر امریکی قیادت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کو کسی اور راہ پر آسانی سے آگے نہیں بڑھنے دے گی۔ چین اور روس کی طرف ہمارا بڑھتا ہوا جھکاؤ امریکا سے کسی طور ہضم نہیں ہو پارہا۔ یہی سبب ہے کہ اب ہم پسندیدہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ''شکوہ جوابِ شکوہ‘‘ جاری ہے۔ ع
بات چل نکلی ہے‘ اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
اور بات کہاں تک پہنچے گی‘ یہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔ پاکستان کو گھیرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا۔ بھرپور کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کو ہر طرف سے گھیر کر مجبور کردیا جائے کہ اقتصادی اور دونوں حوالوں سے امریکی مطالبات کے آگے سرِ تسلیم خم کرے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کس حد تک دباؤ برداشت کرسکتا ہے۔ چین‘ روس اور ترکی کے ساتھ مل کر ہم اپنے لیے ایک الگ راستہ تیار کر رہے ہیں۔ امکانات کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے مرعوب اور پریشان ہوکر امریکا ابھی سے معاملات کو بگاڑنے اور گندا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والا رویّہ اپناکر امریکا یہ بتانا چاہتا ہے کہ اُس کی مرضی کے تابع ہوکر رہا جائے اور خاص طور پر اُن ممالک کو راستہ بدلنے سے گریز کرنا چاہیے‘ جو کمزور ہیں اور اپنے پیروں پر آسانی سے کھڑے نہیں ہوسکتے۔
امریکا نے واحد سپر پاور ہونے کے تمام فوائد خوب بٹورے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی کسی ایک ملک کی جاگیر نہیں رہی اور امریکی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ امریکا کی برتری جدید علوم و فنون کے حوالے سے جس برتری کی مرہون ِمنت ہے ‘وہ صرف اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں ‘بلکہ دنیا بھر کی ترقی پذیر اور پس ماندہ اقوام کے ذہین ترین افراد کو جمع کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ امریکا کی طاقت کب تک برقرار رہ سکتی ہے۔ یورپ اپنا راستہ پہلے ہی الگ کرچکا ہے اور تمام اہم معاملات میں لازمی طور پر امریکا سے اشتراکِ عمل کا قائل نہیں۔
اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طاقت میں اضافے سے کہیں بڑھ کر طاقت کو برقرار رکھنے کا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو کچھ کیا جارہا ہے‘ اُسے کسی حد تک بوکھلاہٹ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ طاقتور ممالک سے براہِ راست ٹکرانے کا یارا تو امریکا کو ہے نہیں۔ ایسے میں کمزوروں ہی پر بس چل سکتا ہے اور چل رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ موقع غنیمت جان کر پاکستان کو بھی دبوچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکا کی گڈز بک میں درج ہونے سے بچنے کے لیے ہم خدا جانے کیسی کیسی حماقتیں کرتے آئے ہیں۔ افغانستان کی صورتِ حال اِس کی واضح ترین مثال ہے۔ امریکا کی خوشنودی کا حصول یقینی بنائے رکھنے کے لیے ہم نے بہت سوں کو ناراض کیا۔ افغانستان اور ایران سے تعلقات بگڑتے چلے گئے اور اس صورتِ حال کا بھارت نے ہمیشہ بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جب بھی قومی مفادات کو محفوظ بنانے اور معاملات کو درست کرنے کا کوئی معقول موقع دکھائی دیا‘ امریکا اور اس کی ہم خیال طاقتوں نے پَر کترنے میں دیر نہیں لگائی اور اِدھر ہم نے بھی اُن کے کہے پر آمنّا و صدقنا کہنے میں عجلت ہی کا مظاہرہ کیا۔
قومی قیادت کو اب ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا ہوگا۔ پاکستان کو ڈٹ کر بات کرنے والی قیادت درکار ہے۔ امریکا کی گڈز بک میں جانے سے ڈرنے کا معاملہ اب ترک کردیا جانا چاہیے۔ ایک در بند ہوتا ہے تو سو در کھلتے ہیں۔ سوال صرف اُس ذات پر یقین کا ہے‘ جس نے ہمیں خلق کیا اور اب تک پالا ہے۔ امریکا ہو یا کوئی اور طاقتور‘ کسی سے بھی بلا جواز ڈرتے رہنے کا نتیجہ وہی برآمد ہوگا‘ جو اب تک برآمد ہوتا آیا ہے۔ پاکستان میں نئی قیادت ابھری ہے‘ جس میں فی الحال غیر معمولی نوعیت کا ولولہ ہے۔ اب گڈ بک اور گڈز بک والی خدشات آمیز سوچ کے دائرے سے نکل کر سوچنا ہوگا۔ جو ہمارے لیے رزق کا اہتمام کرتی ہے‘ اُسی ذات سے ڈرنا اور اُسی کے آگے سربسجود ہونا چاہیے۔ ہماری سب سے بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی گڈ بک میں درج رہیں۔ باقی سب مایا ہے۔ ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات