تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-09-2018

کپتان کس خیال میں ہے؟

جنابِ کپتان! آپ کس خیال میں ہیں؟ یہ فیصلہ واپس لینا ہو گا۔ فارسی میں کہتے ہیں: ہر چہ دانا کنند کنند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار!
اللہ، قرآنِ کریم اور سرکارؐ پہ جس کا ایمان ہے، اقلیتوں کے باب میں وہ ان سے زیادہ حسّاس ہو گا، جو مغرب سے معاوضہ لے کر ان کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ عیسائیوں کے ساتھ اللہ کے آخری رسولؐ کا تحریری معاہدہ ایک چرچ میں محفوظ ہے ، جس میں ان کی حفاظت امّت کی ذمہ داری ہے ۔ ان کے حق میں آپؐ نے وصیت فرمائی اور وصیت اہم ترین امور پہ ہوتی ہے ۔ فرمان یہ ہے کہ روزِ جزا اس امتی کے خلاف آپؐ مدعی ہوں گے ، غیر مسلم پہ جو ظلم کرے گا۔
لاہور کا جیب کترا واعظوں سے زیادہ جانتا تھا ۔ ایک عیسائی کی جیب کاٹی تو اس کا مال واپس کر دیا۔ کہا تو یہ کہا : قیامت کے دن اگر جناب عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اکرم ؐ سے شکایت کر دی تو کیا جواب دوں گا؟ 
یورپ میں یہودیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو مسلمان دنیا میں وہ آسودہ تھے ۔ سب سے زیادہ سلطنت عثمانیہ کے دارالحکومت استنبول میں۔ 
کمتر مسلمان حکمرانوں نے بھی ہندوئوں ، عیسائیوں اور یہودیوں پہ وحشت سے گریز کیا، جرمنی کا ہٹلر اور سپین کی ملکہ ازابیلہ مسلمانوں کے باب میں جس کے مرتکب ہوئے ۔ انگریزی زبان کے پہلے ناول کی ہیروئن اپنے باپ سے کہتی سنائی دیتی ہے: ہمیں مراکش چلے جانا چاہیے ۔ برطانیہ میں ہماری سب کمائی ظالموں کی نذر ہو جائے گی۔
کراچی میں پہلا ہندو مسلم فساد ہوا تو قائدِ اعظم غیر مسلم متاثرہ خاندانوں سے رابطہ کر کے ان کی دلجوئی کرتے رہے۔ قائدِ اعظم اور اقبالؔ میں تعصب کا نام و نشان تک نہیں ۔ ایک ہندو کو وزیرِ قانون اور ایک قادیانی کو وزیرِ خارجہ مقرر کیا تھا۔ عام مسلمان آج بھی روادار ہے ۔ عرض کیا تھا کہ جسٹس بھگوان داس قائم مقام چیف جسٹس بنے تو کسی نے انگلی تک نہ اٹھائی۔ انتہا پسندوں کے نہیں ، ہم قائدِ اعظم اور اقبالؔ کے راستے پر ہیں ۔ 1946ء میں قائدِ اعظم کو 75.6 فیصد ووٹ ملے۔ پھر ہر اس لیڈر کی پذیرائی ہوتی رہی ، جو غیر متعصب سمجھا گیا۔ 
فواد چوہدری فکر کے مرکزی مسلم دھارے کی معرفت نہیں رکھتے۔ وہ پاکستانی عوام کو طعنہ دیتے ہیں کہ کیا اقلیتوں کو اٹھا کر پھینک دیا جائے؟
کوئی بھی اقلیتوں کو پھینکنے کا خواہشمند نہیں؛ حتیٰ کہ حافظ سعید بھی نہیں۔ ان کی تنظیم نے تھر میں قحط کے مارے ہندوئوں کی اتنی ہی خوش دلی سے مدد کی ، جتنی کسی اور نے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی ''اخوت‘‘ کا تو ذکر ہی کیا، جسے تھر کے مکین ''بھگوان کا بینک‘‘ کہتے ہیں۔ 
قائدِ اعظم پہ غیر مسلموں کا اعتماد گہرا تھا۔ قادیانیوں کے علاوہ پارسیوں نے بھی تحریکِ پاکستان کی حمایت کی۔ اپنا کاروبار ممبئی سے کراچی منتقل کیا۔ 
سر ظفراللہ خان کو قائدِ اعظم نے وزیرِ خارجہ مقرر کیا تو احتجاج کی کوئی آواز نہ اٹھی تھی ۔ اب یہ ممکن نہیں ۔ فواد چوہدری اور احسن اقبال یہ بات سمجھتے نہیں ۔ اس لیے کہ وہ نعرہ فروشی اور شعبدہ بازی کی سیاست کرتے ہیں۔ اکثر وہ مغرب کے نقطۂ نظر سے پاکستان کو دیکھتے ہیں ۔ کبھی فلسفے بھی تراشتے ہیں۔ مثلاً احسن اقبال کا یہ فرمان : آج کی دنیا میں اہمیت لیاقت کی ہے۔ گزری ہوئی دنیا میں کیا حماقت اور سطحیت کو داد دی جاتی تھی؟ 
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ قومی اسمبلی نے کیا۔ ایک سیکولر حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں۔ اس ایوان میں، جہاں مرزا غلام احمد کے جانشین کو پوری آزادی سے اپنا موقف پیش کرنے کا موقعہ دیا گیا۔
بحث کے آخری ہفتے ، ایم ایم احمد سمیت ممتاز قادیانیوں کا ایک وفد بھٹو سے ملنے گیا۔ ان کے اصرار نے متلون مزاج آدمی کو زچ کر دیا۔ ان سے سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا: Do you really believe that ...... was a Prophet?۔ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ وہ...... پیغمبر تھا؟
علامہ اقبالؔ بہت تحمل سے قادیانی تحریک کو دیکھتے رہے۔ شاید مرزا ایک مصلح بن کے ابھرنا چاہتے ہوں۔ نبوت کا دعویٰ کر چکے، انگریز کی وفاداری کا درس دینے لگے تو بات واضح ہو گئی۔ جواہر لال نہرو نے مرزا کی وکالت کی تو ایک خط میں اقبال ؔنے انہیں لکھا: قادیانی اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں ۔ نہرو نے تعجب کا اظہار کیا تو مفکّر نے کہا : آپ کو نبوت کے مقام کا اندازہ ہے اور نہ رسول اللہؐ سے مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت کا۔
قادیانی 1974ء کی دستوری ترمیم کو مانتے نہیں جو انہیں غیر مسلم قرار دیتی ہے ۔ خود کو مسلمان کہلانے پہ مصر ہیں۔ یہی نہیں، ریاست اور مسلمان اکثریت سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ بھی انہیں مسلمان تسلیم کریں ۔ کیوں کریں ، جب کہ ختمِ نبوت کے وہ منکر ہیں ۔ جب کہ مرزا نے ختمِ نبوت پہ ایمان رکھنے والوں کو گندی گالیاں دیں۔ انہیں ......کی اولاد لکھا۔ دستور سے بغاوت، اس معاملے کا مرکزی نکتہ ہے ۔ خود کو غیر مسلم مان لیں، تنازعہ تمام ۔ فواد چوہدری اور احسن اقبال ان سے بات کر لیں۔ 
مرزا غلام احمد کا خیال تھا کہ انگریز کی بادشاہی دائم رہے گی ۔ اس کی وفاداری میں جہاد کی مذمّت اور مخالفت میں انتہا کر دی۔ اقبالؔ نے لکھا:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے۔ دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر/ تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں۔ ہو بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر/ کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل۔ کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر/ باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے۔ یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر/ حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات۔ اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر؟
حکومت مغالطے کا شکار ہے کہ قادیانی مشیر جو قادیانیت کا مبلغ بھی ہے ، کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہو سکے گا۔ پہلے ہی فضا آتش ناک ہو چکی ہو گی۔ 
نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی قیادت سے قادیانیوں کا رابطہ رہا۔ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کو قادیانیوں کی دلجوئی کا حکم دیا تھا۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے قادیانیوں کے وفود ملتے رہے ۔ عمران خان نے یقین دلایا کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی ۔ بالکل کوئی زیادتی نہ ہونی چاہئے لیکن قومی رازوں میں وہ شریک نہیں کیے جا سکتے، اسرائیل میں جن کا دفتر قائم ہے، استعمار جن کا سرپرست۔ 
پاک افواج میں ترقی کے ہر مرحلے پر کوائف جانچے جاتے ہیں۔ عیسائی رہ سکتے ہیں ، قادیانی چھانٹ دیے جاتے ہیں۔ 
ویسے یہ کمیٹی کیا چیز ہوتی ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں Two is company and three is party۔ دو آدمیوں کی رفاقت ہوتی ہے اور تین ہوں تو تفریح۔ ایک اور محاورہ یہ ہے Camel is a horse made by a committee۔ اونٹ اصل میں گھوڑا ہے، جو ایک کمیٹی نے بنایا تھا۔ 
طالبِ علم سے استاد نے پوچھا: پانچ آدمی ایک مکان دس دن میں بنائیں تو ہزار آدمی کتنے دن میں بنا دیں گے؟ اس نے کہا : اللہ اللہ کیجیے استادِ گرامی، ہزار ہوں گے تو لڑتے جھگڑتے رہیں گے۔ 18 ماہرین کی کمیٹی کام کر ہی نہیں سکتی۔ تین یا چار سے زیادہ درکار ہی نہیں۔ باقی ماہرین سے وہ مشاورت کر سکتی ہے۔ 
حکمت سے نون لیگ محروم تھی ۔ خود غرضی ، دولت اور اقتدار کی بھوک ۔ پی ٹی آئی بھی محروم ہے ۔ عوامی احساسات سے نا آشنا ، تالی بجوانے کا شوق، غور و فکر سے بے نیاز۔ 
جنابِ کپتان! آپ کس خیال میں ہیں؟ یہ فیصلہ واپس لینا ہو گا۔ فارسی میں کہتے ہیں: ہر چہ دانا کنند کنند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved