تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     06-09-2018

خاک نشینوں کی تاریخ کون لکھے گا؟

یہ وہ لوگ ہیں، جن کی کوئی آواز نہیں۔ ان کی کوئی یونین نہیں۔ کوئی نمائندہ نہیں۔ حلقۂ انتخاب نہیں۔ یہ افتادگانِ خاک ہیں۔ بے چہرہ، بے پہچان لوگ ہیں۔ ہمارے سماج میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ لوگ ہر گلی محلے، ہر کھیت و کھلیان میں نظر آتے ہیں۔ غربت ان کے چہروں سے ٹپکتی ہے۔ ان کے کپڑے ان کی خستہ حالی کے گواہی دیتے ہیں۔ ان کی بات چیت اور لب و لہجے سے لگتا ہے کہ کبھی ان کو کسی سکول کے قریب سے بھی گزرنا نصیب نہیں ہوا۔ یہ ہمارے سماج کے سب سے کم خوش نصیب لوگ ہیں۔ یہ کچھ اپنے نا کردہ اور کچھ دوسروں کی گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم نے بہت سارے نام دئیے ہوئے ہیں۔ نوکر، چاکر، کمی کمین وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ لوگ تبدیلی کی بات کرنے والی نئی حکومت کی سب سے زیادہ اور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔
پاکستان میں ان لوگوں کی ابھی کوئی تاریخ نہیں لکھی گئی‘ اور ایسا ہوتا بھی کیسے؟ جو ملک تاریخ لکھنے میں اور اس تاریخ میں ہر چیز پوری سچائی اور وضاحت سے لکھنے کے لیے مشہور ہیں، ان ملکوں میں بھی ان لوگوں پر کوئی خاص تاریخ نہیں لکھی جا سکی۔ انگریز گھریلو نوکر، ایک بڑی مشہور کتاب ہے، جو ڈورتھی مارشل نے لکھی۔ لیکن اس کتاب میں اس نے دکھ سے لکھا کہ گھریلو نوکر کی تاریخ ابھی لکھنی باقی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ہمارے پاس نوکر چاکر تاریخ میں طویل عرصے سے موجود رہے ہیں، مگر عموماً سماجی تاریخ نویسوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ان کے بارے میں تاریخی مواد بہت بکھرا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ لفظ نوکر کی تعریف متعین کرنا آسان نہیں، جو ماضی میں آج سے زیادہ وسیع معنی رکھتا تھا۔ گھریلو تکالیف کے بارے میں زیادہ تر خواتین نے لکھا ہے۔ اپنے ذاتی تجربات اور دکھڑے سنائے ہیں۔ اس موضوع پر لکھنے والی خواتین، جو خود گھریلو ملازمہ رہ چکی ہیں، بہت کم غیر جانب دار ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ماضی میں گھریلو نوکروں کے بارے میں ایک معقول خاکہ پیش کرنے کے لیے تحقیق کی جا سکتی ہے۔ اس تحقیق کی اشد ضرورت ہے کہ بہت لوگوں نے بطور نوکر روزی کمائی ہے۔ سماجی تاریخ پر لکھنے والے کو ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر بد قسمتی سے تاریخ میں ان کو نظر انداز کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے کئی جواب ہیں۔
لیا پرائس نے اس موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے نیو یارک ٹائمز میں لکھا کہ پہلی جنگ عظیم تک انگلستان میں انگریزوں کی اکثریت یا تو خود نوکر تھی، یا ان کے پاس نوکر تھے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے جو یہ دونوں کردار نبھاتے تھے۔ یعنی وہ دوسروں کی نوکری کرتے تھے، مگر انہوں نے خود اپنی خدمت کے لیے بھی نوکر چاکر رکھے ہوئے تھے۔ ڈوک آف پورٹ لینڈ کے محل کی دلچسپ صورت تھی۔ اس کے پاس دس سینئر نوکر تھے۔ ان نوکروں کی مدد کے لیے آگے اسی نوکر تھے، جن کو وہ حکم دیتے اور سپروائز کرتے تھے۔ اور ان اسی نوکروں کی خدمت گزاری کے لیے آگے دس نوکر تھے۔ اس وقت تک گھریلو نوکری چاکری انگلستان کا سب سے بڑا پیشہ تھا۔ روزگار کی سب سے بڑی صنعت تھی۔ چار ملین عورتوں کا ایک چوتھائی گھریلو نوکری میں تھا۔ گھریلو ملازمین کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ای پی تھامسن نے سال سترہ سو اسی سے اٹھارہ بتیس تک کی انگریز ورکنگ کلاس کی حالت اور سماجی تاریخ پر کلاسیک کتاب لکھی‘ لیکن اس کتاب میں حیرت انگیز طور پر گھریلو نوکروں کا صرف تین بار ذکر تھا۔ لیکن نوکروں کو نظر انداز کیے جانے کا دوش صرف دانشوروں پر ہی نہیں دھرا جا سکتا۔ ان کی زندگی پر لکھنا مشکل ہے، کیونکہ ان کا کام ہی مخفی اور پوشیدہ رہنا ہے۔ اس دور میں نوکروں کے آدابِ مجلسی پر جو ہدایت نامہ لکھا گیا اس میں یہ درج تھا کہ اگر آجر یا مالک کمرے میں موجود ہو تو نوکر اتنی آہستہ سانس لے کہ اس کو سنائی نہ دے۔ اور کچھ خاندانوں کا تو یہ دستور تھا کہ جب آقا گزرتا تو نوکر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے رہتے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغرب میں فلاحی ریاستوں کا ظہور شروع ہوا۔ سماجی و معاشی انصاف کے رجحانات پیدا ہوئے، جس سے گھریلو خدمات لینے اور دینے کا رجحان ختم ہونا شروع ہو گیا۔ اس عمل میں اتنی برق رفتاری سے تبدیلی آئی کہ انیس سو سینتالیس کے ایک سروے کے مطابق چورانوے فیصد لوگ کسی نوکر چاکر کے بغیر رہتے تھے۔ یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھا کہ ساٹھ کی دھائی میں گھریلو ملازم نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ مگر بد قسمتی سے اسی کی دھائی میں تھیچرازم کے ابھار اور معاشی عدم مساوات کی وجہ سے ایک بار پھر نوکر کلچر ابھرا۔ باہر سے سستے داموں کام کرنے والے منگوانے کا رجحان شروع ہوا۔ بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کرنے والے منگوائے جانے لگے۔ معاشی بد حالی اور آفت زدہ ملکوں سے آنے والے لوگوں اور غیر ملکی ملازمین کے کم معاوضے پر دستیاب ہونے کی وجہ سے بھی گھریلو ملازم رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انگلستان میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اس نئے گھریلو ملازم کا نام اب نوکر نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے ساتھ وہ برتائو کیا جا سکتا ہے جو تاریخ میں روا رکھا گیا تھا۔ اب اس کو گھریلو مددگار، آیا یا دیکھ بھال کرنے والا کہا جاتا ہے۔ اس کے قانونی حقوق، عزت و احترام اور معاوضے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح ہیں۔
انگلستان کی یہ رام کہانی بیان کرنے کے دو مقاصد تھے۔ ایک مقصد یہ بتانا تھا کہ ہمارے ہاں آج جو گھریلو ملازم ہیں، ان کی حالت زار دو سو سال پرانے انگلستان سے ملتی جلتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی نوکر کلچر ہے۔ نوکروں نے نوکری پر اپنی نوکری کے لیے آگے نوکر رکھے ہوئے ہیں۔ آقا کو نوکر بے شک آقا نہیں کہتے، مگر آقا کی گردن میں وہی دو سو سال پرانا سریا ہے۔ نوکر کے حقوق اور عزتِ نفس محفوظ نہیں۔ ان کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اور بعض حالات میں سرے سے معاوضہ ہی نہیں دیا جاتا۔ تشدد و مار پیٹ کے واقعات عام ہیں۔ گریلو تشدد اور جنسی زیادتی کی شکایات بھی ہیں۔ گویا آج ہماری حالت اس باب میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے انگلستان سے زیادہ دگرگوں ہے۔ 
اس کہانی کا دوسرا مقصد یہ بتانا تھا کے قدیم انگلستان کی طرح ہمارے ہاںآج بھی ہاتھوں سے کام کرنا کمی کمین کا کام سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ نوکر صرف ہماری اشرافیہ کی ضرورت ہی نہیں، اعلیٰ سماجی رتبے کا ثبوت بھی ہے۔ وہ بندہ ہی کیا جس کے پاس ڈرائیور، خانساماں، مالی اور چوکیدار نہیں۔ اور یہ سلسلہ شہری اشرافیہ سے لے کر گائوں اور دیہاتوں تک دراز ہے۔ کچھ لوگوں نے پانی کا گلاس دینے یا سگریٹ کی راکھ تک جھاڑنے کے لیے بھی ایک بندہ کھڑا کر رکھا ہوتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ نوکر کلچر جو ہم نے قائم کر رکھا ہے، اس سے لاکھوں غریبوں کا روزگار یا دو وقت کی روٹی وابستہ ہے، لہٰذا اس کے خاتمے کی بات کرنا ان کے روزگار پر لات مارنے والی بات ہے۔ دوسرے ملکوں کے تاریخی تجربے کی روشنی میں یہ بات درست نہیں ہے، مگر یہاں ہم کسی کی نوکری ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے، بلکہ نوکر سے انسانی اور مہذب سلوک کرنے اس کے ساتھ سماجی و معاشی انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مکمل سماجی و معاشی انقلاب یا فلاحی ریاست کے قیام تک گھریلو ملازمین کا استحصال پوری طرح نہیں ختم ہو سکتا‘ مگر اس وقت تک اس باب میں ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ ان بے چارے لوگوں کی نا گفتہ بہ صورت حال، جن فوری اقدامات کی متقاضی ہے، ان میں گھریلو نوکر کے لیے کم از کم معاوضے کا تعین‘ جو عالمی معیار کے مطابق ہو۔ اس معاوضے کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی معیار کے قوانین کی تشکیل، کام کے اوقات کار کا تعین، جنسی اور جسمانی ہراساں کرنے کے خلاف سخت سزائیں شامل ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved