عمومی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی پہچان صرف اس کے سامراجی جبر، جارحیت اور وحشتوں کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ آج کل ایسے لبرل بھی پائے جاتے ہیں جو امریکہ کے ذریعے جمہوریت اور انسانی حقوق حاصل کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ بہت سے قوم پرست اپنی قومی آزادی کے لئے امریکی سامراج سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں سرمایہ داری نے سب سے زیادہ ترقی کی اور امریکہ‘ تاریخ کی سب سے طاقتور اقتصادی اور فوجی سامراجی سلطنت کے طور پر ابھرا۔ خصوصاً دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ دنیا کا غالب سامراج بن کر ابھرا۔ لیکن جو پہلو پسِ پردہ رہا اور ماضی کے بائیں بازو نے بھی جس کو نظر اندازکیا‘ وہ امریکہ کے محنت کشوں اور غریبوں کی جدوجہد اور انقلابی تحریکیں ہیں۔ امریکہ کے مزدور طبقے کی جدوجہد اور مزاحمتی تحریکیں دنیا کے کسی ملک کے محنت کش طبقے کی جدوجہد اور قربانیوں سے کم نہیں ہیں۔ مایوسی کے موجودہ عہد میں بھی امریکہ کے اندر بہت سی ایسی ہڑتالیں اور تحریکیں موجود ہیں جن کا تذکرہ میڈیا یا ہمار ے مفکرین کی لکھتوں اور بحثوں سے غائب ہے۔
امریکہ میں مزدور تحریکوں کی شاندار تاریخی مثالیں ہیں۔ 19ویں صدی میں امریکہ کے مزدوروں کی جدوجہد کی وہ مثال جو دنیا بھر میں یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے‘ یوم مئی ہے۔ یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں روزانہ کام کے اوقات کار 8 گھنٹے کرنے کی مانگ کے لیے مزدوروں کے ایک احتجاجی مظاہرے پر امریکی سرمایہ دارانہ ریاست کی فورسز نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے ان کو لہو میں نہلا دیا اور ان کے اٹھائے ہوئے سفید پرچم سرخ ہو گئے۔ مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کی سربراہی میں دوسری انٹرنیشنل کانفرنس کی جانب سے اس دن کو عالمی یوم مزدور کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا اور یہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
20ویں صدی کے آغاز پر صنعت میں بے پناہ تیکنیکی ترقی اور وسعت کی بنا پر مزدوروں کی بڑی تعداد کا ایک صنعت میں کام کرنا مزدوروں کی وسیع یکجہتی اور بڑی ہڑتالوں کا باعث بنا جن کی وجہ سے مزدوروں کی بہت سی مانگیں حکمرانوں کو تسلیم کرنا پڑیں۔ اس دور میں سوشلسٹ پارٹی بھی سیاسی میدان میں ابھری اور تمام تر جبر کے باوجود ایک صدارتی امیدوار 'یوجین ڈبیز‘ نے 9 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ ابھی تک امریکہ میں سیاہ فاموں اور خواتین کو حق رائے دہی حاصل ہی نہیں تھا۔ پہلی عالمی جنگ اور انقلابِ روس (1917ئ) کے امریکی محنت کش طبقات پر بہت سے ریڈیکل اثرات مرتب ہوئے۔ جنگ کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک نے امریکہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
امریکی کمیونسٹ اور شہرہ آفاق کتاب ''دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘‘ کے مصنف جان ریڈ نے انقلابِ روس میں بھی اہم کردار ادا کیا اور امریکہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کو ایک طاقت کے طور پر ابھارنا اور منظم کرنا شروع کیا تھا۔ جب انقلابِ روس کو کچلنے کے لیے 21 سامراجی ممالک نے جارحیت شروع کی تو امریکہ کے مزدوروں نے نیویارک اور دوسری امریکی بندرگاہوں میں اپنے آپ کو بحری جہازوں سے زنجیروں کے ذریعے جکڑ کر روک دیا۔ ان جہازوں نے رد انقلابی جارحیت کی کمک کے لئے جنگی ساز و سامان لے جانا تھا۔ لینن نے انقلاب کے بعد پہلا خط ''امریکی مزدوروں کے نام‘‘ ان کی طبقاتی مدد کے ذریعے انقلاب کو تحفظ دینے کے لئے لکھا تھا۔ 1920ء کے صدارتی انتخابات میں اسی یوجین ڈیبز نے کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار کے طور پر 40 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان انتخابات کے دوران وہ امریکی ریاست کے جبر سے پابندِ سلاسل تھا۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں امریکی ہڑتالوں نے پورے براعظم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ویت نام کی جنگ میں جہاں ویت نام کے ننگے پائوںمزاحمت کرنے والے کمیونسٹ گوریلوں نے جنگلوں میں امریکی سامراج کو شکست دی وہاں اس پسپائی میں 1960ء کی دہائی کے اواخر میں امریکہ کے کونے کونے میں چلنے والی طالب علموں‘ نوجوانوں اور مزدوروں کی تحریکوں نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔
حالیہ صدی میں امریکہ میں چلنے والی 'آکوپائی وال سٹریٹ‘ تحریک نے نہ صرف امریکہ میں بائیں بازو کی ریڈیکلائزیشن کا عمل شروع کیا‘ بلکہ اس کی حمایت میں جاپان سے لے کر ہندوستان اور یونان تک دنیا بھر کے 600 بڑے شہروں میں بھرپور مظاہرے ہوئے۔ اسی تحریک کا پھر سیاسی میدان میں اظہار برنی سینڈرز کی سوشلسٹ مہم میں ہوا‘ جس نے راتوں رات تاریخی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ جہاں صرف چند سال پیشتر سوشلزم کا نام ایک تضحیک آمیز لفظ سمجھا جاتا تھا‘ وہاں اب یہ اپنی مقبولیت کی انتہائوں تک پہنچ گیا تھا۔ سینڈرز اور ٹرمپ کا ابھار بائیں اور دائیں بازو کے ابھار اور پولرائزیشن کی غمازی کرتا ہے۔ چاہے برنی سینڈرز کوئی حقیقی سوشلسٹ یا مارکسٹ نہیں تھا لیکن امریکی حکمران طبقات کو اس سے وابستہ خصوصاً نوجوان مزدوروں کی انقلابی امیدوں سے خوف آنے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی ہے کہ سرمایہ داروں کی ہی ایک پارٹی نے سازش کے ذریعے سینڈرز کا دھاندلی کر کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نامزد ہونا ہی روک دیا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اور اس کے عوام پر حملوں کی وجہ سے اب امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی پھر سے حمایت حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکہ میں 1982ء میں دوبارہ سوشلسٹ پارٹی کے اجرا سے 2016ء تک کے 34 سال میں اس کی ممبر شپ تقریباً چھ ہزار افراد، جن میں زیادہ تر بزرگ تھے، تک محدود رہی۔ لیکن ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ کے اندر اب اس کی ممبر شپ 50,000 سے تجاوز کر چکی ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس طرح ڈیموکریٹک پارٹی میں اس ریڈیکلائزیشن سے اب 57 فیصد ممبران سوشلزم کے حامی ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی نوجوان نسل نے سرد جنگ اور سوویت یونین کی بیوروکریٹک حاکمیت نہیں دیکھی۔ اس لیے ان کے لئے سوشلزم‘ صحت، علاج، تعلیم کی بہتری، موسمیاتی تنزلی کو روکنا اور زندگی کو بہتر اور آزاد کرنے کے اقدامات‘ کے معنی رکھتا ہے۔ چاہے برنی سینڈرز اور سوشلسٹ پارٹی کی حالیہ قیادت سوشلزم کو سکینڈے نیوین ماڈل ہی سمجھتے ہوں‘ لیکن امریکی نوجوان اور محنت کش عوام کے لئے سوشلزم کے جو معنی بن رہے ہیں وہ غربت، مہنگائی، ذلت، غلامی، عدل و تعلیم کی مہنگائی کا خاتمہ ہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ابھار سے خود واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ اور امریکی حکمران طبقہ نالاں ہے۔ وہ ٹرمپ کو معزول کرنا بھی چاہتے ہیں اور اس سے ڈرتے بھی ہیں‘ کیونکہ ٹرمپ کے جانے سے جو خلا ابھرے گا‘ اس میں ان کو یقین نہیں کہ ان کا طے کردہ نمائندہ کامیاب بھی ہو سکے گا یا نہیں۔
دنیا میں سرمایہ داری کے سنجیدہ تجزیہ کار اور ادارے امریکہ میں سوشلزم کے اس ابھار پر تشویش زدہ محسوس ہو رہے ہیں۔ سرمایہ داری کا 1843ء سے چھپنے والا اس نظام کا سب سے مستند نمائندہ جریدہ اکانومسٹ لکھتا ہے ''سوشلسٹ پارٹی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بہت سے ماہرین کو پریشان کر رہا ہے۔ ایک پرانا امریکہ کی ریاستی پالیسیاں بنانے والا کلیدی ماہر کہتا ہے کہ جمہوری سوشلزم اور سوویت طرز کے سوشلزم کے درمیان بہت ہی باریک تفریق ہے‘ اور اس سے بہت بوجھ بن سکتا ہے‘‘۔ امریکی حکمرانوں کے ماہرین کا بار بار بالشویک انقلاب کے خلاف پرچار کرنا آج کے دور میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ 1950-60ء کی دہائیوں میں سوویت یونین اور بالشویزم کے خلاف پروپیگنڈا دو اہم پہلوئوں کی وجہ سے امریکہ کے عوام کی سوچ پر اثر انداز ہوتا تھا۔ ایک طرف سوویت یونین اور چین میں بیوروکریٹک جبر موجود تھا اور مزدور جمہوریت سے یہ ریاستیں عاری تھیں‘ دوسری جانب امریکہ میں تیز ترین ترقی ہو رہی تھی اور امریکی مزدوروں کی جدوجہد سے حکمران اصلاحات اور بہتری کے اقدامات کرنے کے قابل تھے۔ اب سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے اور امریکہ میں سرمایہ داری کا زوال نوجوانوں، محنت کشوں اور غریب عوام کو بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم کر رہا ہے۔ اس لئے ایک سلگتی ہوئی بغاوت موجود ہے۔ ٹراٹسکی کی لکھت کہ ''امریکہ نسلِ انسان کے مستقبل کی تعمیر کی بھٹی ہے‘‘ ایک انقلابی کامیابی کی صورت میں آشکار ہو سکتی ہے اور اگر امریکہ جیسی سب سے بڑی معیشت، سب سے ایڈوانس ٹیکنالوجی اور سب سے بڑی طاقت میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوتا ہے تو پھر اس کا پھیلائو دنیا بھر میں رکے گا نہیں۔