انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے ‘ جس کی بنیاد پر اسے خوبصورت یا بدصورت سمجھا جاتا ہے ۔ اس خوبصورتی میں اس کا رنگ‘ اس کے نقوش‘ اس کے ناک اور ہونٹوں کی ساخت اور موٹائی ‘آنکھوں کا چھوٹا یا بڑا ہونا ‘ پیشانی کا تنگ یا کشادہ ہونا شامل ہے ۔یہ خوبصورتی بہت عجیب چیز ہے ۔ نقوش میں ایک ذرا سا اضافی خم یا گہرائی شکل کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے ۔ہالی وڈ کی جو حسینائیں‘ دنیا میں خوبصورتی کا معیار قرار پاتی ہیں ‘ ان میں سے بعض کے چہرے کا صرف ایک فیچر‘ ہونٹ‘ آنکھ اور تل ان کی وجۂ شہرت بنتا ہے ۔ جس طرح ہونٹ‘ آنکھیں اور چہرے پر موجود بعض تل خوبصورتی کی انتہا کہلاتے ہیں ‘ اسی طرح بال خوبصورتی پیدا کرتے ہیں ۔
اسلام آباد میں واقع My Hair Clinicمیں مجھے بالوں پر ریسرچ کا موقع ملا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ہر بچّے کے سر پہ قدرتی طور پر بال اُگ آتے ہیں اور ہم انہیں for grantedلیتے ہیں ؛حالانکہ بالوں میں ایک بڑی سائنس کارفرما ہوتی ہے ۔ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ جب ہم جسم کے ایک حصے سے بال نکال کر دوسرے حصے پر لگاتے ہیں‘ تاکہ اس میں خوبصورتی پیدا ہو تو ہمارے سامنے دو اہم ترین شرائط ہوتی ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ نکالا گیا بال سوکھنے نہ پائے۔پانی ختم ہوا تو زندگی ختم۔ دوسرا یہ کہ بال لگاتے ہوئے سب سے زیادہ اہم چیز اس بال کی سمت (Direction)ہوتی ہے ۔ اگر یہ ڈائریکشن ٹھیک نہیں ہے ‘تو پھر آپ جتنے مرضی بال لگاتے جائیں ‘ وہ بدصورتی ہی پیدا کریں گے ۔
یہ سمت (Direction)اور ڈیزائن دنیا کی ہر تخلیق میں ہے ۔ مختلف نسل کے انسانوں میں بالوں کی تعداد مختلف ہوتی ہے ‘لیکن اوسطاً ان کی تعداد ایک لاکھ ہوتی ہے ۔ یہ ایک لاکھ جب کم ہوتے ہوتے پچاس ہزار تک آپہنچیں ‘تو پھر انسانی آنکھ کو یہ کمی نظر آنے لگتی ہے ۔ بال کیا ہیں ؟ یہ پروٹینز سے بنتے ہیں ۔ پروٹینز کیا ہیں ؟ آپ تہہ میں اترتے جائیں ۔ آخر میں جا کر وہی ہائیڈروجن‘ آکسیجن ‘ نائٹروجن اور کاربن وغیرہ ہی نکلیں گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالوں کے بغیر بھی‘ تو انسان تخلیق کیا جا سکتا تھا‘لیکن خالق نے بالوں کی صورت میں کیا خوبصورتی تخلیق کی ہے ۔ کسی حسینہ ٔ عالم کی گنج کریں اور پھر دیکھیں نیچے سے کیا نکلتاہے ۔ کسی شخص کو بال لگوانے سے پہلے اور بعد میں دیکھیں ۔ شکل بدل کے رہ جاتی ہے ۔
ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جب ہم بال لگاتے ہیں‘ تو دیکھتے ہیں کہ قدرتی طور پر بچے کھچے جو بال سر پہ موجود ہیں ‘ ان کی Directionکیا ہے ۔ ہم اس قدرتی ڈائریکشن کی پیروی پر مجبور ہیں‘ کیونکہ یہی سب سے bestڈائریکشن ہے ۔ اس سے بہتر کوئی ڈائریکشن ہو ہی نہیں ہو سکتی ‘ جو کہ خدا نے آپ کے لیے تخلیق کی ہے ۔ سر پہ بالوں کی یہ ڈائریکشن بدلتی رہتی ہے ۔ سر کے سامنے والے حصے پر یہ سمت سر کے پیچھے والے بالوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ جب کہ سرکے درمیان میں‘ گول دائرے کی صورت میں بال ہوتے ہیں‘ جو کہ سڑک پہ بنے round aboutکی طرح مڑتے چلے جاتے ہیں ۔
پھر عمر کے ساتھ بالوں کا سیاہ سے سفید ہو جانا ۔ سبحان اللہ ! خواب میں بال نظر آنے کی ایک تعبیر ہوتی ہے ‘ جو پتھر پہ لکیر کی طرح پوری ہوتی ہے ۔اگر ایک شخص اپنے بال لمبے اور سلجھے ہوئے دیکھے تو یہ مرتبہ ملنے‘ اثر و رسوخ بڑھنے اور اہمیت میں اضافہ ہونے کا نشان ہوتاہے ۔ اگر ایک جوان شخص اپنے بال سفید دیکھے تو یہ عزت ملنے کا نشان ہے ۔ اگر ایک بوڑھا اپنے بال کالے دیکھے تو یہ ذلت کی علامت ہے ۔ خواب میں جب کوئی علامت نظر آتی ہے‘ تووہ چند لمحات کے لیے بھرپور طور پر نظر آتی ہے ۔ جاگنے کے بعد بھولتی نہیں ۔ باقی خواب سے الگ ہوتی ہے ۔ بالکل مختصر ہوتی ہے ۔ یہ چند باتیں استاد سے سنیں‘ ورنہ میرے پاس خوابوں کی تعمیر کا علم نہیں ہے ۔ باقی سب جو لمبی لمبی کہانیوں والے خواب ہوتے ہیں ‘ ان کا تعلق نفسیات سے ہوتاہے اور ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ۔
یہاں مجھے الیکشن سے پہلے سعودی عرب میں مقیم اپنے دوست خالد صاحب کا خواب یاد آتاہے ۔ انہوں نے زرداری صاحب کو دیکھا اور ایک قبر دیکھی ۔ انہوں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا ‘لیکن حکومت زرداری صاحب بنائیں گے ۔ میں نے اس وقت تو ان سے کچھ نہیں کہا ‘لیکن استاد کے منہ سے سنا تھا کہ قبر تکلیف اور مشقت کی علامت ہوتی ہے ۔ زرداری صاحب ‘جن مشاغل میں مصروف رہتے ہیں ‘ ان کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتاہے کہ ان کے رائٹ ہینڈز گرفتار ہوتے رہتے ہیں اور خود وہ پریشان رہتے ہیں ۔ اس وقت بھی ایف آئی اے 35ارب روپے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں تحقیقات کر رہی ہے ۔
خدا کی تخلیق کو جب انسان دیکھتا ہے‘ تو حیرت میں ڈوب کر رہ جاتاہے ۔ ہڈیاں بنائیں‘ تاکہ گوشت پوست کے کمزور انسان کے اعضا کی حفاظت ہو ۔ دل کو پسلیوں کے پنجرے میں رکھا ۔ دماغ کو کھوپڑی میں محفوظ کیا‘ جو پھٹ بھی جائے‘ تو بیشتر صورتوں میں زندگی بچا لیتی ہے ‘ پھر اس دماغ میں رکھا blood brain barrier‘ تاکہ کوئی بھی غیر ضروری چیز کسی صورت دماغ میں نہ گھس سکے ۔ گوشت کے مسلز بنائے۔ اوپر جلد چڑھائی ۔ کیمیکلز سے nervesبنائیں ۔ جاندار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت دینے کے لیے ٹانگیں بنائیں ۔ اوزار استعمال کرنے کے لیے دس انگلیوں والے ہاتھ بنائے۔ سب کچھ بنا دیا تو اوپر سے خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے بال بنا دیے ۔ آپ کسی بھی شخص کی صرف بھنویں ختم کر کے دیکھیں ‘ شکل کتنی عجیب ہو جاتی ہے ۔
اگر یہ بال زیادہ ہو جاتے ؟ جیسا کہ بن مانس کا چہرہ بالوں سے بھرا ہوتا ہے‘ تو پھر بھی انسان کے لطیف مزاج پہ ناگوار گزرتے ۔ اس پہ کاریگری کی انتہا تو دیکھیے کہ مردوں کے چہروں پہ ڈاڑھیاں اگا دیں اور عورتوں کے چہرے بالوں کے بغیر ۔ سبحان تیری قدرت!
انسان واحد جاندار ہے ‘ جو بال کاٹتا ہے ۔ ابتدا میں تیز دھار پتھروں سے ‘ بعد ازاں لوہے کی قینچیوں سے ۔ انسان واحد جاندار ہے ‘ جو لباس پہنتا ہے اور خدا کہتاہے کہ میں نے لباس تم پر نازل کیا ۔ یہ لباس عزت کی چیز ہے ۔ قرآن میں لکھا ہے کہ آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی‘ جب انہوں نے شجرِ ممنوعہ کو چھو لیا‘ تو ان کا لباس ان سے چھن گیا ‘ پھر وہ غمزدہ ہوئے‘ روئے ‘ پھر ان پر توبہ کے کلمات نازل فرمائے ۔
انسان واحد جاندار ہے ‘ جو بالوں کو مخصو ص اندا زسے تراش کر اپنی خوبصورتی میں اضافہ کرتاہے ۔ بعض اوقات انسان حیرت سے سوچتاہے کہ مجھے جانوروں میں پیدا کرنے کی بجائے عقل دے کر خدا نے کس قدر بڑا احسان کیا ہے ۔ کون اس احسان کا بدلہ چکا سکتاہے ؟
نگاہ اپنے جسم میں اور اس کائنات میں خرابیاں ڈھونڈنے نکلتی ہے اور تھک کر لوٹ آتی ہے ۔ با ل ایسی تخلیق خدا ہی کر سکتاتھا۔ وہی آرٹسٹ ہے ‘ باقی سب نقال !