تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-04-2013

غالب یا مغلوب … (آخری قسط)

میرا ہرگز یہ مسئلہ نہیں ہے کہ فاروقی اس بات کا اقرار ہی کریں کیونکہ اگر کربھی لیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ان کے کہنے سے میں غالبؔ سے بڑا شاعر بن جائوں گا نہ ہی یہ میرے لیے کوئی سند ہوسکتی ہے اور شاید مجھے کسی سند کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تاہم جتنا روکھا پن انہوں نے اپنی تحریر میں روا رکھا ہے، اس پر مجھے حیرت ضرور ہوئی ہے ورنہ ان کا تو کہنا ہی کافی تھا کہ ظفر اقبال کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں نے کبھی ایسا کہا نہ لکھا، بات ختم ہوجاتی ؛ حالانکہ اپنی تحریروں میں جتنی تعریف میری وہ کرچکے ہیں، اس کے پیش نظر وہ ساتھ ہی اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ میں ظفراقبال کے ماننے والوں میں سے ہوں اور اب بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن انہوں نے ایسا کوئی تکلف روا نہیں رکھا۔ ان کے ساتھ سینگ پھنسانا میرے لیے مناسب ہے نہ ممکن۔ وہ ایک عالم فاضل آدمی ہیں اور میں ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا شروع ہی سے معترف ہوں۔ بھلا میرے جیسا قلیل المطالعہ شخص ان کے منہ آنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے۔ ہاں، میں ان کی تنقید کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں اور جس کا اپنی ناقص تحریروں میں کئی بار اظہار بھی کرچکا ہوں۔ وہ جدت کے بہت بڑے علمبردار ہیں اور میں یہیں سے شک وشبہ کا شکار ہوجاتا ہوں ۔ مثلاً میں نے ایک بار انہیں خط میں لکھا تھا کہ جو شخص نئی غزل پر تنقید لکھتا ہو، اگر وہ خود بھی شاعر ہو اور اس کی اپنی غزل جدید نہ ہو تو اسے جدید غزل پر تنقید لکھنے کا سزاوار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ اگر اسے پتہ ہوکہ جدید غزل کیا ہوتی ہے تو اس کی اپنی غزل بھی تو جدید ہو۔ انہوں نے میرا خط اپنے پرچے میں چھاپ تو دیا لیکن اس کے نیچے جواب میں یہ لکھا کہ ظفراقبال جتنے اچھے شاعر ہیں، اتنے ہی برے نقاد ہیں۔ ان کی شاعری کے ایک سے زیادہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور جو مجھے وہ عنایت بھی کرتے رہے ہیں، لیکن مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو ان کی شاعری کی تعریف کرنے پر آمادہ پایا ہو۔ میرا اور ان کاتعلق بنیادی طورپر یہ تھا کہ میں شاعر تھا اور وہ رسالہ ’’شب خون‘‘ کے ایڈیٹر جس میں وہ دل کھول کر مجھے شائع کرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے بزبان انگریزی بھی مجھ پر دوتوصیفی مضامین قلمبند کیے جو ان کی کتابوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میرا تیسرا مجموعہ کلام ’’رطب ویابس‘‘ پہلی بار انہی نے شائع کیا۔ یقینا انہوں نے مجھے اپنے رسالے کے ذریعے پروموٹ کیا اور شاید اس طرح میں نے بھی ان کے رسالے کو پروموٹ کیا ہو۔ بھارت میں شعروادب کی طرح تنقید کی حالت بھی کچھ اتنی اچھی نہیں ہے کیونکہ وہ بوجوہ غیرجانبدار نہیں ہے کیونکہ وہاں کے اکثر نقاد اس کا بے لاگ اور بے لوث ہونا تسلیم ہی نہیں کرتے۔ مثلا ً پاکستان کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے تنقید کے حوالے سے ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ کسی کے بارے رائے دیتے وقت سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کس کا آدمی ہے (یعنی کس دھڑے سے تعلق رکھتا ہے) اسی طرح ایک پاکستانی اخبار ہی کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا کہنا تھا کہ نقاد کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور لکھتے وقت اس کی سلیٹ پہلے سے صاف نہیں ہوتی، اس لیے اس سے غیرجانبدار اور بے لوث تنقید کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے! لطیفہ یہ ہے کہ بقول شخصے گوپی چند نارنگ ایک عرصے تک مجھے شمس الرحمن فاروقی کا آدمی سمجھتے رہے اور میرے بارے میں رائے دینے میں شش وپنج میں مبتلا رہے۔ دوسرا لطیفہ یہ ہے کہ ’’استعارہ‘‘ والے جس مضمون کا میں نے حوالہ دیا ہے جوکسی زینب علی کا لکھا ہوا تھا، مجھے انیس ناگی نے (شاید ازراہ مذاق) یہ بتایا تھا کہ وہ خود نارنگ نے لکھا ہے۔ نارنگ کے میرے بارے میں تحفظات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے اور یقینا تھی کہ میں چونکہ ’’شب خون‘‘ میں مسلسل چھپ رہا تھا، اس لیے وہ مجھے شمس الرحمن فاروقی کا آدمی گردانتے تھے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ تاہم رفتہ رفتہ یہ غبار چھٹ گیا اور میرے ساتھ ان کی محبتوں کا آغاز ہوا۔ فاروقی صاحب کی مذکورہ بالا بیگانہ روی کی وجہ شاید یہ ہو کہ اب وہ سمجھتے ہوں کہ میں ان کا آدمی نہیں رہا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہی ہے تو یہ میرے لیے بدقسمتی اور شاید ان کے لیے خوش قسمتی کی بات ہوگی؛ حالانکہ میں تو اپنے آپ کو انہی کا آدمی سمجھتا ہوں یعنی ع ہم ان کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا اور جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے تو لوگ میرے ساتھ کھل کر کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ۔ اس میں دوستی یا دشمنی کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر آپ اپنے دوست کے ساتھ اختلاف رائے کا اظہار نہیں کرسکتے تو آپ اس کے ساتھ مخلص ہیں نہ اپنے ساتھ۔ کیونکہ ادبی تعلقات کا جو معاملہ ہے، یہ کوئی تحسین باہمی کا سلسلہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں جہاں چاہتا ہوں اپنے دوست کی ساتھ اختلاف بھی کرتا ہوں اور تنقیدی رائے بھی دیتا ہوں؛ اگرچہ میں نقاد ہرگز نہیں ہوں اور الحمدللہ کہ نہیں ہوں، کیونکہ نقاد ہونا میرے بس کا کام ہی نہیں ہے۔ چنانچہ میں اپنی ایماندارانہ رائے ، ضروری نہیں کہ وہ صحیح بھی ہو، کا اظہار کرنے سے باز نہیں آتا خواہ وہ میرے دوست کے بارے میں ہو یا کسی مخالف کے بارے میں۔ مثلاً پچھلے سال برادرم آصف فرخی نے فرمائش کی کہ میں ’’دنیازاد‘‘ کے تازہ شمارے کے بارے میں اپنی رائے لکھ کر دوں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس میں فاروقی کا ایک ایسا افسانہ شائع ہوا تھا جو ان کے ناول’’ کئی چاند تھے سرآسمان‘‘کی تکنیک پر لکھا گیا تھا۔ میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ افسانہ زبردست ہے لیکن خاکہ تو پہلے سے موجود تھا، فاروقی نے اس میں صرف رنگ بھرے ہیں۔ شاید اسی بنا پر یہاں کچھ لوگ انہیں شمس الرحمن فاروقی کی بجائے شمس الرحمن بخاری کہنے لگے ہیں۔ میری یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی، البتہ انداز بیاں شاید اتنا شریفانہ نہ ہو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کالم نویس کو فقرہ سوجھ جائے تو وہ بندہ ضائع کرلیتا ہے ، فقرہ نہیں۔ اسی طرح مبین مرزا کے رسالے ’’مکالمہ‘‘ کے تازہ شمارے میں جو حسب معمول ایک سال کے بعد شائع ہوا ہے، میں نے اپنے مضمون بعنوان ’’میرؔکے تاج محل کا ملبہ‘‘ میں ایک مباحثے کا ذکر کیا ہے جو میرؔ کے بارے میں تھا اور جس میں محمد حسن عسکری ، شمس الرحمن فاروقی اور انتظار حسین شامل تھے۔ وہ بحث اس قدر بے رس، بے کیف اور کئی لحاظ سے خلاف واقعہ تھی کہ مجھے لکھنا پڑا کہ یہ سبھی حضرات باہر کے آدمی ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی شاعری کے ساتھ کوئی اصیل علاقہ نہیں ہے۔ میں یہ ’’اعترافات ‘‘ اس لیے بھی کررہا ہوں کہ میں جو بھی اوٹ پٹانگیاں مارتا رہتا ہوں، چھپا کر نہیں رکھتا اور ان سے شرمندہ بھی نہیں ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرؔ واقعی خدائے سخن کہلائے جانے کے لائق اور بڑا شاعر تھا لیکن اس کے مصرعے عام طورپر کڈھب ، ناہموار اور ڈھیلے ہوتے ہیں جبکہ میں اسے کرافٹ کا سب سے بڑا عیب سمجھتا ہوں کیونکہ مصرعے کو سلیس ،شستہ اور زیادہ سے زیادہ ’پروزآرڈر‘ میں ہونا چاہیے۔ بیشک میرؔ کے ہاں جو رواں مصرعے دستیاب ہیں ان کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ تاہم میرؔ کے کلام میں غیررواں مصرعوں کی بہتات دیکھ کر پریشانی ہوتی ہے۔ فاروقی نے جو ماشاء اللہ میر کے سب سے بڑے علم بردار کہے جاتے ہیں ایک جگہ لکھا ہے کہ میر نے اپنی شاعری میں اتنے ہزار الفاظ استعمال کیے ہیں، جس پر میں نے پھبتی کسی تھی کہ میر شاعری کررہے تھے یا کوئی لغت مرتب کررہے تھے؟ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے دوست فاروقی کے ساتھ اپنا دلی تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ وہ اگر نہ چاہیں تو بھی۔ (ختم ) آج کا مطلع اب تو جو بھی ہے، معافی کہ صفائی میں گزر جائے عمر باقی نہیں اتنی کہ لڑائی میں گزر جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved