عجیب اتفاق ہے کہ اٹل بہاری واجپائی اور کلدیپ نیئر دونوں نے ایک دوسرے کے بعد‘ ایک ہفتے کے اندر دنیا فانی سے کوچ کیا۔ دونوں کی آخری رسومات کے درمیان ‘ عمران خان وزیراعظم بنے۔ جب واجپائی آخری سانسیں لے رہے تھے ‘تو عمران خان‘ اسلام آباد میں حلف وفاداری کی رسم ادا کر رہے تھے۔ یہ تین واقعات بے جوڑ سے ہیں ‘مگر کچھ باتیں جو ان تینوں سے ملتی جلتی ہیں‘ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے‘ تو پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے بارے میں تو ان دونوں کا تعلق نظر آتا ہے ۔ واجپائی اور کلدیپ نیئر دونوں تقسیم ہند اور دشمنی کو قصہ پارینہ سمجھتے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے خواہاں تھے اور اس مقصد کے لئے کوشاں بھی رہے۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد جو اعلان کیا ‘ اس میں بھی انہوں نے ماضی کی داستان کو نہیں دہرایا‘بلکہ مستقبل کی بات کرتے ہوئے ‘اس عزم کا اعادہ کیا کہ دونوں ملکوں میں امن و امان رہے اور خوشگوار تعلقات میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
سابق بھارتی وزیراعظم‘ واجپائی ہمیشہ اکھنڈ بھار ت کی بات کرتے تھے۔ شملہ معاہدہ کی مخالفت میں بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ پہلے واجپائی نے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں پیچیدگیوں کا ذکر کیا ‘پھر دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات پر بات کی ۔ کبھی دشمنی کی بات نہیں کی ‘بلکہ دوستی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ایک مرتبہ واجپائی کے اعزاز میں پاکستانی وزیر خارجہ‘ آغا شاہی نے خوبصورت انداز میں متاثر کن تقریر کی۔ واجپائی ایک طرح سے اپنے حلیفوں سے خطرہ مول لے رہے تھے کہ جب وہ انڈیا جائیں گے ‘تو ان پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی جائے گی۔دورہ پاکستان بڑا مثبت اور نتیجہ خیز رہا۔ کرکٹ کھیلنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور وہ بھی اٹھارہ سال بعد۔ کراچی اور ممبئی میں قونصلیٹ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا‘ جو1971ء کی جنگ کے بعد بند پڑے تھے۔
کلدیپ نیئرنے تقسیم کی مشکلات اور مصائب کو ذاتی طور پر برداشت کیا۔ ان کا خاندان سیالکوٹ سے انڈیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ جو اس راستے سے گزرے‘ وہ اپنے دکھ درد کو نہ بھلا سکے‘ مگر کلدیپ درویش منش انسان تھے‘ انہوں نے خوشی خوشی اس زہر کو پی لیا اور سب کچھ بھلا دیا اور دونوں ملکوں کے رشتے اور تعلق کے لئے‘ زندگی کی آخری سانس تک کوشاں رہے۔انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لئے ‘اپنے قلم کی پوری طاقت لگا دی۔ وہ ہر سال باقاعدگی سے14اور15اگست کو‘ موم بتی لے کر واہگہ بارڈر پر جاتے اور انڈو پاک دوستی زندہ باد کے نعرے لگایا کرتے۔1992ء میں انہوں نے آصف نورانی کے ساتھ ملک کر مشترکہ طور پر دو شہروں کی کہانی لکھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بہت بڑے علمبردار سمجھے جاتے تھے۔
عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنے سر پر ماضی کے رشتوں کا بوجھ لئے ہوئے ہیں۔ مختلف اطراف سے‘ ان پرشدید دبائو ہے‘ پہلے کرکٹر کااور اس کے بعد ایک سیاست دان کا ۔ کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ وہ کلدیپ نیئر کی بازگشت ثابت ہوں گے‘ یعنی امن و محبت کے راستے پر گامزن ہو ں گے اور اس کے لئے اپنی تمام ترتوانائیاں بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ ایک بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے وہ جانتے ہیں کہ جو واقعہ کھیل کے میدان میں رونما ہوتا ہے‘ وہ اس لائق نہیں ہوتا کہ اسے دل کے کسی کونے میں محفوظ کر لیا جائے‘ بلکہ اسے فراموش کر دینا ہی اچھا ہوتا ہے۔عمران خان نے اپنی پارٹی کی جیت کے بعد فوراً جو تقریر کی وہ یقیناایک یادگار تقریر ثابت ہو گی۔ خان صاحب نے کہا کہ '' اگر انڈیا ایک قدم دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ دو قدم بڑھائیں گے‘‘۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ عمران خان میں کلدیپ نیئر اور واجپائی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ عمران بھی ماضی کے واقعہ کو داستان پارینہ سمجھتے ہیں۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ شک و شبہ‘ خلل دماغی اور تصادم اس کا سبب ہوتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین اور سرد جنگ دو بڑی مثالیں ہیں‘ لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ قیادت‘ ہمت اور وژن نے کئی دفعہ کئی ملکوں کے درمیان نقشہ بھی بدل کے رکھ دیا ۔ گوربا چوف نے1989ء میں سوویت یونین کے قدیمی اصول اور سرد جنگ کو کیسے بر طرف کر دیا؟اور دوستی کے لئے ہاتھ بڑھایا۔واجپائی اور کلدیپ نیئر نے اپنے زمانے میں کیسے اپنی قیادت کی صفات کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ خان صاحب میں ایسی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں‘ جو ایک دوراندیش لیڈر میں ہونی چاہئیں۔ عمران ایک حد تک‘ وہ سارے ممکنات کی تلاش کریں گے‘ جن سے دونوں ملکوں میں خوشگوار تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں اور تصادم سے بچا جا سکے۔