ایک صاحب نے اپنے لئے ایک شاندار بنگلہ بنایا۔ جسے وہ مہمانوں کو بڑے شوق سے دکھایا کرتے۔ گھر کے اندر انہوں نے بہت سی نئی چیزیں متعارف کرائی تھیں۔ پوری تفصیل تو بیان نہیں کر سکتا۔ سوئمنگ پول سے ذرا آگے غسل خانے بھی بنائے گئے تھے۔ پہلے غسل خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’یہاں ٹھنڈے پانی سے نہانے کا انتظام ہے۔‘‘ دوسرے غسل خانے کی طرف بڑھے تو بتایا کہ ’’یہاں گرم پانی سے غسل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ تیسرے غسل خانے کے بارے میں کہا’’یہاں ٹھنڈا اور گرم‘ دونوں طرح کے پانی موجود ہیں۔ دونوں کو ملا کر غسل ہو سکتا ہے‘‘ اور چوتھے غسل خانے کا نمبر آیا تو میزبان نے بتایا ’’یہ غسل خانہ خالی ہے۔ اس میں پانی وغیرہ بالکل نہیں۔‘‘ مہمان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا’’جب یہاں پانی ہی نہیں‘ تو پھر یہ غسل خانہ کیوں؟‘‘ میزبان کا جواب تھا ’’جب نہانے کو دل نہ چاہے‘ تو یہ غسل خانہ استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ‘ آنے والے انتخابات کے لئے بیلٹ پیپر میں جو فہرست لکھی جائے گی ‘ وہ بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایک خانے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کا نام ہو گا۔ اگلے خانے میں مسلم لیگ (ن) کا نام ہو گا۔ اس سے آگے تحریک انصاف یا کوئی بھی جماعت۔ ماضی میں تمام امیدواروں کے نام آ جانے کے بعد فارم ختم ہو جاتا تھا۔ اس بار فارم ختم نہیں ہو گا۔ جتنے بھی امیدوار ہوں گے‘ سب کے ناموں کو پڑھ کے‘ آپ جسے ووٹ دینا چاہیں گے‘ اس کے نام کے آگے بنے ہوئے انتخابی نشان پر مہرلگا دیں گے۔ آخر میںایک خالی خانہ بھی رکھ دیا گیا ہے۔ اس خانے میں کوئی نام نہیں ہو گا۔ کوئی نشان نہیں ہو گا۔ یہ مکمل طور سے خالی ہو گا۔ جیسے غسل خانوں کی قطار میں‘ ایک غسل خانہ تیار کیا گیا تھا‘ جس میں نلکا‘ شاور ٹائپ کی کوئی چیز تھی اور نہ ہی پانی تھا۔ یہ اس مقصد کے لئے تھا کہ جب نہانے کو دل نہ چاہے‘ تو غسل خانہ استعمال کر لیا جائے۔ اپنے لئے اس طرح کی سہولت کا انتظام وہی شخص کر سکتا ہے‘ جس کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہو۔ غریب آدمی اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انتخابات میں غریبوں کا احساس محرومی ختم کر دیا گیا ہے۔ بیلٹ پیپر میں ایک خانہ خالی رکھنے کا اہتمام ہو گا۔ اس خالی خانے میں آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس میں کسی امیدوار کا نام نہیں ہو گا۔ اس خانے تک آپ اس وقت پہنچیں گے‘ جب آپ کا دل کسی بھی امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں دینا چاہے گا۔ عیب جوئی کرنے والے خالی غسل خانے کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب نہانا ہی نہیں‘ تو خالی غسل خانہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اس طرح کے لوگ تو ہر جگہ کیڑے نکالنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تانگے میں جتے گھوڑے کے سر پر پھندنا دیکھ کر کہتے ہیں ’’گھوڑا تو تانگہ کھینچنے کے لئے ہے‘ پھندنا کیوں لگا رکھا ہے؟ یا جب گھر میں بھینس ہی نہیں تو کھرلی کیوں بنا رکھی ہے؟ جب سیر ہی نہیں کرنا‘ تو واکنگ ٹریک کیوں تیار کرایا ہے؟‘‘ اس طرح کے لوگ ہر چیز میں عیب نکال لیتے ہیں۔ امیدواروں کی فہرست میں ایک خانہ خالی دیکھ کر ‘ ہزاروں باتیں بنائی جا سکتی ہیں۔ جیسے اگر کسی کو ووٹ ہی نہیں ڈالنا‘ تو اسے پولنگ سٹیشن آنے کی کیا ضرورت ہے؟ امیدواروں کی فہرست میں خالی خانہ کہاں سے آ گیا؟ خالی خانہ کس لئے؟ یہ خالی خانہ کس پارٹی کا امیدوار ہے؟ اگر فہرست میں ایک خانہ ایسا بھی ہے‘ جس میں امیدوار کا نام نہیں تو پھر یہ امیدواروں کی فہرست کیسے ہو گئی؟ خبر ہے کہ اس خالی خانے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہو گا کہ ’’میں مندرجہ بالا امیدواروں میں سے کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتا۔‘‘ بہت اچھی بات ہے۔ پھر کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے‘ جو یہ بتانا چاہیں گے کہ میں اس خالی خانے کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتا۔ ایسے لوگوں کے لئے فہرست میں کچھ لکھنے یا نشان لگانے کی جگہ نہ ہوئی‘ تو ووٹر کیا کرے گا؟ لیکن سب سے پہلے یہ کہ جو شخص کسی کو ووٹ ہی نہیں دینا چاہتا‘ وہ پولنگ سٹیشن تک جانے کی زحمت ہی کیوں اٹھائے گا؟ صبح صبح اپنی نیند خراب کر کے بیدار ہو۔ شیو کرے۔ ٹوتھ برش کرے۔ بیوی کو ناشتہ تیار کرنے کے لئے جگا رکھا ہو۔ ناشتہ کیا جائے۔ لانڈری سے آئے ہوئے کپڑے نکال کر تیار کئے جائیں۔ شلوار میں کمربند ڈالا جائے۔ اگر کہیں وارڈ روب میں ’’ٹنگائی‘‘ کے دوران‘ اس میں کوئی شکن پڑ گئی ہو‘ تو استری کا اہتمام کیا جائے۔ جوتے صاف کئے جائیں اور پھر پورا لباس پہننے کے بعد کار نکالی جائے اور اگر الیکشن کی چھٹی کی وجہ سے ڈرائیور بھی پولنگ سٹیشن چلا گیا ہو‘ تو گاڑی چلانے کی تدبیر کی جائے۔ گاڑی نہیں چلانا آتی‘ تو ایک اور مصیبت۔ ایسی صورت میں یا کسی دوست کو زحمت دی جائے۔ کوئی دوست بھی نہ ملے‘ تو سڑک پر آ کر رکشہ‘ ٹیکسی یا تانگے کو روکا جائے۔ سواریاں اٹھانے والی گاڑیوں کی امیدواروں نے بکنگ کرا رکھی ہوتی ہے۔ جو کسی کا ووٹر ہے‘ اسے تو ویگن‘ بس یا تانگے میں بیٹھنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ جو کسی کا ووٹر ہی نہیں‘ اسے سواری کون فراہم کرے گا؟ ایسے شخص کو تو ووٹر بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جس کوووٹ ہی نہیں ڈالنا‘ ووٹر کیسے ہو گیا؟ اس کے لئے بھی علیحدہ کوئی نام رکھنا پڑے گا۔ ووٹر تو صرف ووٹ ڈالنے والے کو کہا جا سکتا ہے۔ جو کسی کو ووٹ ہی نہیں دینا چاہتا‘ اسے کیا کہا جائے؟ انکاری؟ منکر؟ کام چور؟ غیرجانبدار؟ مگر ایسے بیہودہ آدمی کا نام رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو محض اس لئے صبح سے تیاریوں کے مراحل طے کرتا اور ٹرانسپورٹ کے لئے دھکے کھاتا ہوا‘ پولنگ سٹیشن تک پہنچے ۔ وہاں قطار میں لگ کر اپنی شناخت کرائے۔ بیلٹ پیپر حاصل کر کے پولنگ بوتھ میں جائے‘ جہاں بیلٹ پیپر پر مہر لگائی جاتی ہے اور اندر جا کر کسی امیدوار کے نام پر مہر بھی نہ لگائے۔ اگر اسے کوئی پوچھ بیٹھے کہ تم کیا کر رہے ہو؟ تو وہ کیا بتائے گا؟ یہ کہ میں نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ دیکھنے والے اسے پاگل نہیں کہیں گے؟ اس سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم صبح سے یہ تکلیفیں کیوں اٹھاتے پھر رہے ہو؟ گھر بیٹھے رہ کر تم کیا کرتے؟ ظاہر ہے گھر میں بیٹھ کر بھی ایسا شخص وہی کچھ کر سکتا تھا‘ جو دھکے کھانے کے بعد‘ اس نے پولنگ بوتھ میں آ کر کیا۔ یعنی کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ گھر میں بیٹھ رہنے والے بھی یہی کریں گے۔ یعنی وہ بھی کسی کو ووٹ نہیں دیں گے اور پھر ایسے بدحواس آدمی کو ووٹ دینے کے لئے‘ پردے کے اندر چھپ کر مہر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو کسی کو ووٹ ہی نہیں دے رہا۔ پردہ کس بات کا؟ اور کس سے ؟بتایا گیا ہے کہ اگر کسی کو ووٹ نہ دینے والے‘باقاعدہ پولنگ بو تھ میں پہنچ کر مہر لگاتے ہیں اور ان کی تعداد 51 فیصد ہو جاتی ہے‘ تو اس حلقے میں الیکشن دوبارہ ہو گا۔ یہ تو خالص آج کل کے مسلمانوں والی بات ہو گئی کہ ہمیں حساب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ جو بیوقوف قومیں تھوڑا بہت حساب کتاب کر سکتی ہیں‘ انہوں نے ووٹروں کے فارمولے بنا رکھے ہیں۔ اگر کوئی امیدوار 51فیصد سے زیادہ ووٹ لے جاتا ہے‘ تو وہ منتخب قرار پاتا ہے اور اگر کسی کو بھی 51فیصد ووٹ نہیں ملتے‘ تو یہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ 51فیصد ووٹروں نے کسی بھی امیدوار کو نہیں چنا اور فہرست میں پہلی دو پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کرا دیا جاتا ہے۔ ووٹروں کو صرف یہ بتانے کے لئے پولنگ میں نہیں بلایا جاتا کہ وہ کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ جو لوگ پولنگ سٹیشن پر نہیں آتے‘ ان کے بارے میں باور کر لیا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ کون ایسا پاگل ہے ؟جو بلاوجہ کی تکلیف اٹھا کر یہ بتانے کے لئے پولنگ سٹیشن جائے کہ وہ کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا۔ شریف آدمی ووٹنگ میں عدم شرکت کے ذریعے ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کسی امیدوار کے حق میں نہیں۔ الیکشن کمیشن یہ ماننے کو تیار نہیں۔ بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی کسی کی بے رخی دیکھ کر یہ نہیں پوچھتا کہ ’’پھر میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ تمہارے گھر بیٹھے رہنے سے ہمیں یہ پتہ نہیں چلے گا کہ تم کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ یہ بتانے کے لئے پولنگ سٹیشن پر آئو اور مہرلگاکر بتائو کہ تم کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔بہت سے لوگ بدتمیزی نہیں کرنا جانتے۔ وہ شرافت اور اشارے کنائے سے انکار کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو کون سمجھائے؟ اگر کوئی شخص سارے امیدواروں سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے کہ پولنگ بوتھ میں جا کر خالی خانے پر زور سے مہر ٹھوک کے ‘ ساتھ گالیاں بھی لکھ دے‘ تو اس کا مطلب کیا لیا جائے گا؟ یہ گالیاں امیدواروں کے لئے ہیں؟ جمہوریت کے لئے ہیں؟ یا کس کے لئے؟گالیاں رائے دہندہ کی صوابدید پر چھوڑنا غلط ہو گا۔ مناسب ہے کہ منتخب گالیوں کی فہرست بیلٹ پیپر میں ہی درج کر دی جائے۔ رائے دہندہ صرف درج شدہ گالیوں پر نشان لگا سکے۔ اگر اسے خود گالیاں لکھنے کی آزادی مل گئی‘ تو ناپسندیدہ گالیاں بھی لکھ سکتا ہے۔ جیسے تیری تو---- پہلے جنرل حضرات اقتدار میں آ کر سیاستدانوں کی توہین کیا کرتے تھے۔ اب جمہوریت ہے اور یہی کام عدالتوں میں ہو رہا ہے۔رائے دہندگان کیوں پیچھے رہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved