تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-09-2018

میلے کی رونق

میڈیا کی دنیا میں ''ٹیبل سٹوری‘‘ بہت بڑا ہنر ہے۔ میڈیا کی دنیا میں جتنی بھی چکاچوند دکھائی دیتی ہے وہ بہت حد تک ٹیبل سٹوری پر منحصر ہے۔ ہم نے کم و بیش تین عشروں پر محیط اپنے کیریئر کے دوران ایسی بہت سی ہستیوں کا دیدار کیا ہے جو ٹیبل سٹوری تیار کرنے کی ماہر تھیں اور بعد میں انہوں نے فکشن رائٹنگ میں بہت نام کمایا! 
ٹیبل سٹوری کا مطلب ہے گھڑی ہوئی چیز یعنی کسی معاملے کا سَر پایا جائے نہ پیر مگر پھر بھی بہت کچھ اِس انداز سے پیش کیا جائے گویا دنیا میں اُسی کے دم سے اچھی خاصی ہلچل ہو رہی ہے۔ جو جس قدر ہانک سکتا ہے وہ اتنا بڑا ٹیبل سٹوری رائٹر ہوتا ہے۔ بہت سے نام نہاد تجزیہ کار ٹیبل سٹوری کی شکل میں رائی کو پربت میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اسی فن کی کمائی کھاتے ہیں۔ 
خبریں یا تجزیے محض گھڑ کر چلانے کے عادی خاصے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ اُن کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلاکے سرِعام رکھ دیا 
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ٹیبل سٹوری سے کسی پر کیا گزرتی ہے یہ ٹیبل سٹوری تیار کرکے پھیلانے والے کی بلا جائے۔ ؎ 
جو گزرتی ہے قلبِ شاعر پر 
شاعرِ انقلاب کیا جائے! 
متعدد اخبارات کی مرکزی (نائٹ) نیوز ڈیسک پر خدمات انجام دینے کے دوران ہم نے بارہا دیکھا کہ ہوا کچھ بھی نہیں تھا مگر صبح ہوتے ہی اخبارات میں بہت کچھ دکھائی دیا۔ اور اس قدر دکھائی دیا کہ ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب کبھی استفسار کیا کہ یہ سب کیا ہے تو بڑوں کی طرف سے جواب ملا کہ ہر معاملے میں پوچھ گچھ کا سا انداز اختیار نہ کیا کرو! آنکھیں کھلی رکھو اور منہ بند۔ صرف تماشا دیکھو اور انجوائے کرو۔ اور یہ کہ لوگوں کے ساتھ پیٹ بھی تو لگا ہوا ہے۔ گویا ع 
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر 
صحافت کی دنیا میں ہم نے ایسے کئی ہنر مند دیکھے جو رومال سے انڈا اور ٹوپی سے کبوتر نکال کر دکھانے کے ماہر تھے۔ وہ جب ہانکنے اور بگھارنے پر آتے تھے تو الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے کہ جس طور جی میں آئے ہمیں بروئے کار لاؤ اور پڑھنے والوں کی آنکھوں سے کاجل اور دل سے سکون لے اڑو۔ 
اب اندازہ ہوا کہ رومال سے انڈا اور ٹوپی سے کبوتر نکالنے کا ہنر کچھ یارانِ صحافت تک محدود نہ تھا۔ مختلف شعبوں میں تحقیق کا جو بازار گرم ہے اُس میں ایسے کئی سٹالز ہیں جن کی رونق رائی سے پربت بنانے کے ہنر کی بدولت برقرار ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران ماہرین کچھ زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ میدان میں آتے رہے ہیں اور ہر بار ایسا مال لاتے رہے ہیں کہ پوٹلا کھلتے ہی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ عام آدمی حقیقت کی دنیا سے فرار چاہتا ہے۔ اُسے پڑھنے، سننے اور بولنے کے لیے ایسا بہت کچھ درکار ہوتا ہے جو حقیقت کی دنیا سے بہت دور کا ہو اور بہت دور لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ فکشن رائٹرز کی کامیابی اِسی نکتے میں تو مضمر ہے کہ عوام کو جو کچھ چاہیے وہ دیا جائے۔ عام آدمی ماحول، موجودہ دنیا اور اِس سے جڑی ہوئی تمام حقیقتوں سے فرار چاہتا ہے۔ اُسے ایسی خیالی دنیا درکار ہوتی ہے جس میں سب کچھ اچھا ہو۔ فکشن رائٹرز سرکاری مشینری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ''سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دیتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو میٹھا میٹھا چاہیے کیونکہ ہپ ہپ میٹھا میٹھا ہی تو کیا جاتا ہے۔ کڑوی بات کون سننا یا پڑھنا چاہتا ہے؟ 
ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوگوں کو کیا چاہیے۔ لوگوں کو ہر وہ بات اچھی لگتی ہے جو چونکادے، حیران کردے۔ بس، یہ ہے عوام کی نبض جس پر انہوں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ماہرین اور محققین کی ساری توجہ اس نکتے پر مرکوز ہے کہ لوگوں کو قدم قدم پر حیرت زدہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ حیرت انگیز بات کو ''حقائق‘‘ کی پیکنگ میں پیش کیا جائے۔ 
علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع 
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے 
ماہرین اس فرمان پر خوب عمل کرتے ہیں۔ اول تو وہ زمانے بھر سے کرید کرید کر موضوعات نکالتے ہیں اور اگر کہیں سے کچھ نہ مل رہا ہو تو اپنا موضوع آپ پیدا کرلیتے ہیں۔ گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرلی جاتی ہے۔ یہ اصول ماہرین اور محققین نے دانتوں سے پکڑ رکھا ہے۔ ایسی ہی ایک بات کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ماہرین نے کہی ہے جسے پڑھ کر ہمارا میٹر شارٹ ہوگیا۔ 
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ماہرین کی ٹیم نے ڈیڑھ دو برس کی محنت شاقّہ کے بعد بتایا ہے کہ غیر معمولی ذہانت کے حامل افراد جھوٹ بولنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ ایسا بیان ہے جس نے ہمیں شدید الجھن سے دوچار کردیا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ صحافت کو کیریئر کے طور پر اپنانے کے بعد ہم نے تین عشروں تک جو محنت کی ہے اُس کے نتائج کی بنیاد پر اہلِ خانہ سمیت کچھ لوگ ہمیں انتہائی ذہین (!) سمجھنے پر مجبور ہیں! کینیڈین ماہرین نے ایک ہی وار میں ہماری ذہانت کا جھٹکا کر ڈالا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ذہانت اور جھوٹ کے باہمی تعلق و تفاعل کے حوالے سے ماہرین کی نکتہ آفرینی کے بعد ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے! جو ہمیں خوب ذہین قرار دیتے آئے ہیں وہ اب شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، ہمیں بیک وقت ذہین اور جھوٹا سمجھا جارہا ہے اور ستم کی انتہا یہ ہے کہ اس صورتحال پر ہم احتجاج کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ جی میں آتا ہے کہ کینیڈین سفارتی مشن جاکر سفارت کاروں کو احتجاجی مراسلہ تھمادیں کہ بھائی! اپنی توقیر پر کچھ توجہ نہیں تو ہماری عزت ہی کا خیال کرلو! 
مرزا تنقید بیگ تو بس ہم پر تنقید کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ خبر اُن کی نظر سے گزری تو پہلی فرصت میں آ دھمکے اور بولے ''ہمیں یقین تھا کہ تمہاری لاثانی ذہانت کے بطن سے ایک نہ ایک دن جھوٹ نمودار ہوکر رہے گا!‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ ماہرین کو تو آپ نے کبھی قابلِ احترام نہیں سمجھا، کبھی گھاس نہیں ڈالی۔ پھر آج اُن کی اُڑائی ہوئی بات پر آمنّا و صدقنا کیوں؟‘‘
جواب ملا ''کبھی کبھی کھوٹا سِکّہ بھی بازار میں چل جاتا ہے۔ بند گھڑی بھی دن میں دو بار بالکل صحیح وقت بتاتی ہے۔ ذہانت کا جھوٹ سے تعلق جوڑے جانے پر تمہیں بُرا یوں لگ رہا ہے کہ تمہاری ساکھ (!) داؤ پر لگ رہی ہے۔ مگر ہم تو خدا لگتی کہیں گے کہ ماہرین نے ایک حقیقت بے نقاب کرکے تم جیسوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو جھوٹ بولنے کی مہارت کو ذہانت قرار دے کر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں‘‘۔ 
مرزا پیدائشی سیاست دان اور میڈیا پرسن ہیں۔ جب بولنے پر آتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ کیا بول رہے ہیں! اور ہمارے خلاف بولنے کے معاملے میں تو اُن کی زبان برق رفتاری کا مظاہرہ کرتی ہے! ہم نے ایک بار پھر دست بستہ عرض کیا کہ ماہرین کا کیا ہے، وہ تو کچھ بھی بول جاتے ہیں۔ مرزا کا جواب تھا ''بس، اب ہم ماہرین کے خلاف کچھ نہیں سُنیں گے۔ میلے کی ساری رونق اُنہی کے دم سے تو ہے!‘‘

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved