لوٹ مار کی بجائے ایثار کا رویہّ فروغ پا سکتا ہے۔ حدِّنظر تک چراغاں ہو سکتا ہے۔ ایک لیڈر یا گروہ نہیں‘ پوری قوم‘ اگر دل جمعی سے شریک ہو جائے۔ امید ہی ایمان ہے اور بے شک مایوسی کفر ہے۔
ڈیم چندوں سے نہیں بنتے۔ جی ہاں‘ ہسپتال اور یونیورسٹیاں بھی چندے سے نہیں بنتیں۔ پھر لاہور اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال کیسے وجود میں آئے؟ ان کے اخراجات کیونکر پورے ہوتے ہیں؟ ان کا معیار سرکاری ہسپتالوں سے بہتر کیوں ہے؟نمل یونیورسٹی کیسے بن گئی؟
نعمت اللہ خاں کو کس رسان سے ہم بھول گئے۔ 2002ء میں کراچی کے میئر بنے تو بلدیہ کا بجٹ 2 ارب روپے تھا۔ مایوسی اور تاریکی میں ڈوبا شہر۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اور اس کے حلیف الطاف حسین نے پنجے گاڑ رکھے تھے۔جنرل پرویزمشرف سے انہوں نے کہا کہ فوجی علاقوں یعنی چھائونی ‘بحریہ اور ڈیفنس کو مالی ذمہ داری میں شریک ہونا چاہیے۔ ایک طوفان کی طرح پھر تعمیراتی عمل کا آغاز ہوا۔چار برس میں بلدیہ کا بجٹ 42 ارب روپے کو جا پہنچا۔
ان کے دفتر میں ہونے والی واحد طویل ملاقات‘ ہمیشہ یاد رہے گی۔ تفصیلات بتائیں اور کہا: کراچی کو سرسبز کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا مگر اللہ کے فضل سے یہ بھی کر ڈالا۔ یہی نہیں‘ ہر یونین کونسل کو 5 لاکھ روپے دے دیئے ہیں کہ مقامی ترجیحات کے مطابق صرف کریں۔ایک کالج کی شاندار عمارت بنائی۔قانون میں تنخواہیں ادا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ شہریوں سے اپیل کی۔ دو سو اساتذہ نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ ایک روپیہ لئے بغیر‘ یہ بوجھ اٹھانے کو وہ تیار تھے۔کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا پروگرام الگ سے کارفرما تھا۔
ماحول بدلتا ہے تو خلقِ خدا کے تیوراور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ مایوسی اور ژولیدہ فکری میں‘ احساسِ عدم تحفظ غالب آتا ہے۔ خود غرضی بڑھ جاتی ہے۔ ایثار کا ماحول بھی متعدّی ہوتا ہے۔ آدمی میں مقابلے کی خو شدید ہے۔ قربانی پہ خلق تل جائے تو تل جاتی ہے۔پھر یہی عزت کا معیار ٹھہرتا ہے۔ کوئی اعزاز نہیں جو نعمت اللہ خاں کے احسانات کا قرض چکا سکے۔سن رسیدہ ہیں‘آواز پھیکی ہوگئی۔ایک عالی ہمّت کو بے بس پانا شاید سب سے دلگداز منظر ہوتا ہے۔
وہی شورش کہ جیسے موجِ تہہ نشیں کوئی/وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
چھ دن اپنے دفتر میں کام کرتے اور اتوارکو تھر کا رخ کرتے۔ کنویں کھودنے کا ایک منصوبہ۔ کہیں پانی دریافت ہو چکتاتو پورا علاقہ جھلملا اٹھتا۔ رات گئے سوتے اور صبح سویرے جاگ اٹھتے۔ باقی نیند سفر کے دوران۔
کراچی کے گلی کوچوں میں گھوم پھر کے‘ شہریوں کے تاثرات معلوم کیے۔ فوج کے خوف نے قاتلوں کوخاموش کر ڈالا تھا۔ کاروبار پھل پھول رہے تھے۔ سڑکوں‘ عمارتوں اور پلوں کی تعمیر تیز رفتاری سے جاری تھی۔ دل و جان سے شہری نعمت اللہ خاں پہ فدا تھے۔ جذبات سے مغلوب آواز میں ایک رکشا والے نے کہا: قائداعظم کے بعد ایسا لیڈر ہمیں نصیب نہیں ہوا۔ کیا عجب ہے کہ کسی کچی بستی میں کوئی مکان اسے ملاہو۔ نیویارک ہو‘ سڈنی‘ممبئی یا کراچی بڑے شہروں میں رہائش سب سے بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔پھر الطاف حسین سے مشرف کا سمجھوتہ ہوگیا۔
ایدھی فائونڈیشن اسی شہر سے اگی اور دنیا بھر کے لئے قندیل ہوگئی۔ امریکہ‘ یورپ‘ جاپان اور چین سمیت‘ ساری دنیا میں ایمبولینس کی سب سے بڑی سروس۔ بچپن میں والدہ ایک چوّنی ایدھی کو دیا کرتیں۔ دوآنے اپنے اور دو آنے‘دوسروں کے لیے۔ رفتہ رفتہ یہی طرزِ حیات ہوگیا۔ آج بھی پاکستانی معاشرہ ان کے ثمرات سے بہرہ ور ہے۔ یہ واقعہ کس طرح رونما ہوتا ہے۔ باطن میںایثار کی فصل اگتی ہے‘ پھر لہلہانے لگتی ہے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے :وہ ایثار کرتے ہیں خواہ تنگ دست ہوں۔ لوٹنے والے یہ بات کیسے سمجھیں کہ قلوب میں ایثار کی روشنی کیسے کیسے دلآویز رنگ بکھیرتی ہے۔
ضرورت مند عمران خان کو زچ کیے رکھتے کہ نوکری نہیں ملتی۔وہ کس کے پاس جاتے‘ کیا کرتے۔ ایک ٹیکنیکل کالج کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ پہلی بار ان کے ساتھ نمل کے مقام پر جانا ہوا تو کالے پہاڑوںسے وحشت ہوئی۔ ایک چھوٹی سی جھیل کے سوا‘ کنارے پر چند کچے مکانوں کے سوا‘ دور دور تک زندگی کا کوئی نشان نہ تھا۔ شوکت خانم ہسپتال اگر نہ بناہوتا تو دل کبھی نہ مانتا کہ آج ایک عظیم ادارے کی نیو رکھی جارہی ہے۔
پہاڑوں پہ بے رحم دھوپ برستی اور خوف زدہ کیے رکھتی۔ مزدور عاجز آگئے‘ تعمیراتی کمپنی بھاگ گئی۔ حفیظ اللہ خان نے اب عنان سنبھالی۔ تیس لاکھ روپے عمران خان اور چالیس لاکھ روپے عمران خان کے والد نے دیئے تھے۔ ایک دن حفیظ اللہ نے فون کیا: سریے کی خریداری کے لیے دس لاکھ روپے درکار ہیں۔اپنے بھائیوں میاں محمد خالد حسین اور محمد امین کی ایک عمارت بنارہاتھا۔ سریا منگوا رکھا تھا۔ حفیظ اللہ خان سے میں نے کہا: ٹرک بھجوا دو۔بھائیوں کو بعد میں بتایا۔ آرکی ٹیکٹ نے فیس لینے سے انکار کردیا تھا‘ حالانکہ اس پر شکوہ عمارت پہ اس نے دوگنا محنت کی۔ حفیظ اللہ نے ایک ٹھیکیدار ڈھونڈ نکالا‘ جس نے کہا: کام پورا کروں گا اور منافع نہ لوں گا۔ کچھ دنوں میں جھیل کنارے ایسی دلآویز عمارت کھڑی تھی کہ سی این این کی مارتھا‘ مرعوب اسے دیکھتی رہی۔ وہ عمران خان کی زندگی پہ فلم بنانے آئی تھی۔ یہ سترہ بار دکھائی گئی۔ ادھر عمارت مکمل ہوئی ‘ ادھر برطانیہ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی نے عمران خان کو چانسلر چن لیا۔باقی تاریخ ہے۔ اب یہاں ایک تعلیمی شہر کا خواب خان نے دیکھا ہے۔
کبھی بریڈفورڈ یونیورسٹی کے سمندرپار منصوبوں کی نگران پروفیسر ایلیسن کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ بزرگ استاد کابابرکت چہرہ نگاہوں میں ابھرتا ہے '' پاکستانی طالب علم‘ برطانوی بچوں سے بہتر ہیں‘‘انہوں نے کہا ''انگریزی میں بھی؟‘‘ ان سے پوچھا گیا: چپاتی کے ساتھ چنے کی دال کھاتے ہوئے‘ بولیں ''ہاں‘ انگریزی میں بھی‘‘ پھر پوچھنے لگیں: یہ دال اس قدر لذیذ کیوں ہے۔ نعیم الحق کہتا ہے کہ تم کوئی فلسفی ہو‘ اس کھانے میں کیا فلسفہ گھولا ہے؟ کبھی وہ کسی مشرقی دادی کی طرح شرما کے بات کرتیں اور بہت اچھی لگتیں۔ ''کچھ بھی نہیں پروفیسر‘‘ میں نے کہا ''بغیر کھاد کی ہے‘ اس میں کالی مرچ‘ ہلدی اور مکھن ڈالا ہے۔‘‘ ''تم لوگ کیسے خوش بخت ہو‘‘ اس نے کہا۔ اب وہ چہچہا رہی تھیں۔
کیسے کیسے بھلے لوگوں سے اس منصوبے کے ہنگام ملاقات ہوئی۔ پروفیسر ایلیسن کے علاوہ‘ یونیورسٹی کے درازقد وائس چانسلر۔ ہمیشہ سوچ بچار میں ڈوبے رہتے۔ کبھی کبھی ایک مختصر سا سوال کرتے: کیا پاکستان کے شمال میں فوج نے کارروائی کی ہے؟عرض کیا: پروفیسر صاحب پشتو محاورہ یہ ہے کہ جنگ میں گڑ نہیں بانٹا جاتا۔ کپتان نے انہیں تلی ہوئی دیسی مرغی اور آلو کھلائے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت ۔ 29 لاکھ خاندانوں کے لیے غیرسودی قرضے ۔ 18 لاکھ خاندانوں کے لیے نہایت عمدہ لباس ۔ عاریتاًپانچ پانچ لاکھ کے عروسی جوڑے بھی۔ نینوٹیکنالوجی سمیت تین کالج ‘ ایک یونیورسٹی کی عمارت مکمّل ہے۔ تدریس کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ضلع قصور کے چھ دیہات میں کسانوں کی زندگی بدل ڈالی ہے۔ پیداوار میں سو فیصد اضافہ۔ہسپتال اس کے سوا۔ سینکڑوں خواجہ سرائوں کو باوقار نوکریاں فراہم کیں۔ ان کے چہروں پہ ایسا اطمینان کہ سراپا دعا۔ کتنی دعائیں ڈاکٹر صاحب نے سمیٹی ہیں۔ نوبل پرائز ہیچ ہے۔ ان کا کارنامہ گرامین بینک بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس سے بہت بڑا ہے۔تین دن ہوتے ہیں۔ برادرم اسد عمر کو میں نے لکھّا: بیس لاکھ ملازمتیں ''اخوّت‘‘ فراہم کر سکتی ہے۔ ایسے غیرسودی قرض سے جو واپس آتا ہے۔ ڈھانچہ ان کا قابل اعتبار ہے‘ لوگ دیانت دار‘ تجربہ وسیع اور نظام پختہ۔ مصروفیات میں الجھے وزیرکے جواب کا انتظار ہے۔
بھاشا ڈیم بھی انشاء اللہ ضرور بنے گا۔ احسن اقبال کو مغالطہ ہوا۔ لاگت ساڑھے سات ارب نہیں‘ 2000 ارب کے لگ بھگ ہوگی۔جھیل کے لیے مگر فی الحال صرف تین ‘چارسو ارب ہی درکار ہیں۔تقریباً سو ارب روپے سالانہ۔ صرف عطیات نہیں‘ پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب بھی دی جا سکتی ہے۔ جھیل بن گئی تو بجلی گھر کے لئے سرمایہ کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ یہ ایک ڈیم کی تعمیر سے بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
لوٹ مار کی بجائے ایثار کا رویہّ فروغ پا سکتا ہے۔ حدِّنظر تک چراغاں ہو سکتا ہے۔ ایک لیڈر یا گروہ نہیں‘ پوری قوم‘ اگر دل جمعی سے شریک ہو جائے۔ امید ہی ایمان ہے اور بے شک مایوسی کفر ہے۔