تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     05-04-2013

انتخابی سرکس

اوپر سے نیچے تک، الیکشن کمیشن سے ریٹرننگ افسروں تک ہر کوئی جمہوریت کو گدگدیاں کررہا ہے بلکہ اس سے بھی چند ہاتھ آگے جیسے منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ کچھ لوگوں کو چاقو سے گدگدی کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے ایسے شوشے چھوڑے جارہے ہیں اور کیسے کیسے سوال کیے جارہے ہیں اور پھر جوابوں کا تو جواب ہی نہیں کہ قومی ترانہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم 23مارچ کو پیدا ہوئے تھے۔ جیسے محاورے والی رضیہ غنڈوں میں گھر گئی تھی اسی طرح جمہوریت آج کل جگتوں کے نرغے میں ہے۔ نام نہاد انتخابی عمل بھانڈوں کے میلے کا سا منظر پیش کررہا ہے۔ کیسا کیسا جوکر ’’جمہوریت جمہوریت‘‘ کھیل رہا ہے۔ کوئی کھمبے پر چڑھ رہا ہے، کوئی خود پر پٹرول چھڑک کر خود سوزی کی اداکاری کررہی ہے، کوئی اپنی تاریخ پیدائش بتانے سے قاصر ہے، کوئی سکیورٹی کی آڑ میں خود حاضر ہونے سے گریزاں ہے جس کے جواب میں مخالف وکیل کو کہنا پڑتا ہے کہ جو عوام میں ’’گھل مل‘‘ کر میٹرو میں سیر کرسکتا ہے وہ خود عدالت میں حاضر کیوں نہیں ہوسکتا اور کچھ معززین نے ’’پیشہ‘‘ کے خانے میں ’’سیاست‘‘ لکھتے وقت اتنا بھی نہیں سوچا کہ اس کا مطلب کیا ہے ا ور مجھ جیسا قنوطی اور کودن مسلسل یہ سوچ رہا ہے کہ کیا اس قسم کے مسخرے اور ملا دو پیازے ملک و قوم کو پٹڑی پر چڑھائیں گے؟ یہ تو پٹڑی بھی بیچ کھائیں گے۔ کیا ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی؟‘‘ واقعی کچھ روشنیاں ایسی ہوتی ہیں جو آنکھوں کو چندھیا ہی نہیں دیتیں… اندھا تک کر دیتی ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے یہ انتخابی پراسس کی پیروڈی ہے جس میں کامیڈی سے بھرپور یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے والوں کے لیے بیلٹ پیپرز میں خالی خانہ بھی شامل کیا جائے گا۔ میرا عقل والا خانہ خالی ہے اس لیے اس ’’انقلابی فیصلہ‘‘ پر مجھے وہ سردار صاحب یاد آرہے ہیں جو بڑے فخر سے مہمانوں کو اپنے گھر کے تینوں سوئمنگ پول دکھا رہے تھے کہ … ایک سوئمنگ پُول ٹھنڈے پانی کا، دوسرا گرم پانی کے لیے مخصوص ہے اور تیسرا اس لیے ہے کہ کبھی کبھی نہیں بھی نہانا ہوتا۔ بندہ پوچھے کہ جس شریف اور معقول آدمی نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا وہ شدید گرمی میں ’’امب‘‘ لینے پولنگ بوتھ پر جائے گا؟ یہاں ایک جملہ معترضہ کہ آم کو ’’امب‘‘ کہنے سے وہ ذرا زیادہ میٹھا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہمارے علامہ اقبال فرمایا کرتے تھے کہ فالودہ کو ’’پھلودہ‘‘ کہنے سے وہ زیادہ لذیذ ہوجاتا ہے لیکن اس جمہوریت کو جس نام سے بھی پکاریں، مجھے تو مکروہ بلکہ حرام سی ہی لگتی ہے اور وجہ اس کی وہ ہے جسے ڈاکٹر طاہر القادری بیان کررہے ہیں۔ یہاں سیانوں کا یہ قول یاد رہے کہ … یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا بلکہ اس پر توجہ دو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے جسے میں گزشتہ بیس سال میں بیسیوں بار اپنے رنگ میں کہہ چکا ہوں کہ …’’ شور شرابے اور ہنگامے کیلئے چند غیر معروف چوروں کو نااہل قرار دے کر الیکشن کمیشن قوم کا خیرخواہ ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے۔‘‘ الیکشن کمیشن نے سچ مچ کی خیرخواہی کرنی ہے تو ننھی منی رنگین آرائشی مچھلیوں کا شکار چھوڑ کر مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالے کہ اگر اصغر خان کیس کے کردار بھی دندناتے پھرے تو کون سی ’’بے رحمی‘‘ اورکیسی ’’سکروٹنی؟‘‘ کیونکہ کمزوروں پر غصہ تو ہر کوئی افورڈ کرسکتاہے۔ جعلی ڈگری والوں کی تو صرف ڈگریاں جعلی ہیں جبکہ کچھ لوگ تو پیداوار ہی جعل سازی کی ہیں جسے ثابت کرنا چنداں مشکل نہیں۔ سو ’’انتخابی لانڈری‘‘ کو چاہیے کہ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں کی ریکوریوں کے ساتھ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ پر بھی غور کرے ورنہ آج نہیں تو کل عوام بھی وہ بات سمجھ جائیں گے جو ڈاکٹر قادری کو سمجھ آچکی ہے۔ اک اور بات بھی احتیاطاً نوٹ فرمالیں کہ جہاں ادارے انصاف اوراحتساب نہ کرسکیں وہاں آخر کار یہ کار خیر عوام کی مجبوری بن جاتا ہے۔ CICERO کہتا ہے۔ \"THE WELFARE OF THE PEOPLE IS THE HIGHEST LAW\" اور یہ محاروہ بھی ناقابل فراموش ہے کہ … \"THE ARM OF THE LAW NEEDS A LITTLE MORE MUSCLE.\" پاکستان میں اس \"LITTLE MORE\" کو \"MUCH MORE\"کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کہ اس انتخابی سرکس کا نتیجہ کا کیا نکلتا ہے۔ خاکم بدہن مجھے تو بد سے بدتر ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ مسئلہ بلکہ مسائل کا حل مچھلیاں نہیں مگرمچھ پکڑنے میں ہے۔ چوروں کو نہیں چوروں کی مائوں پر ہاتھ ڈالو ورنہ اسی گیت پر گزارا کرناہوگا کہ … ’’دور ہے سُکھ کا گائوں‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved